پاکستان پاکستان24

پی آئی اے کی تباہی کے ذمہ دار

جون 30, 2018 4 min

پی آئی اے کی تباہی کے ذمہ دار

Reading Time: 4 minutes

سپریم کورٹ نے پی آئی اے نجکاری اور خسارے پر لئے گئے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران جہازوں پر نئے پینٹ اور مارخور کی تصویر لگانے کے عمل کو روک دیا ہے ۔

چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے سماعت کی ۔ سابق مشیر ہوا بازی شجاعت عظیم کے وکیل مرزا محمود عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ 8 سال کے اکاونٹس کی تفصیلات جمع کروائی ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے ایسا کوئی حکم آپ کو نہیں دیا تھا،آپ کا مقصد صرف. عوامی سطح پر امیج بہتر کرنا ہے، آپ کے مقصد سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں،شجاعت عظیم سے کوئی دستاویزات مانگے ہی نہیں تھے، عدالت دس سال کا آڈٹ کروائے گی، شاید آپ خبر بنوانا چاہتے ہیں کہ آپ کے دور میں کچھ نہیں ہوا ۔

شجاعت عظیم کے وکیل نے عدالت کے پوچھنے پر بتایا کہ 2008 سے 2018 تک 280 ارب روپے کا پی آئی اے کو نقصان ہوا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 280 ارب روپے کنویں میں نہیں گئے کوئی تو ذمہ دار ہوگا؟ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق شجاعت عظیم کے پاس پی آئی اے کا تمام کنٹرول تھا، آج صرف نقصانات کے آڈٹ کے حوالے سے سماعت ہوگی ۔ وکیل نے کہا کہ پی آئی اے کے نقصانات کے ذمہ دار ایک یا پھر دو افراد نہیں ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ شجاعت عظیم پر ابھی ذمہ داری نہیں ڈالی تو صفائیاں کیوں دے رہے ہیں؟ آڈیٹر جنرل کو پی آئی کے نقصانات کے خصوصی آڈٹ کا کہا ہے، پالیسی اور اس کے  پیچھے ممکنہ نیت کا تعین بھی آڈٹ میں کیا جائے گا، کیا وجہ ہے کہ سیاسی حکومت آئی تو خسارہ بڑھ گیا ۔ وکیل نے کہا کہ اس کا تفصیلی جائزہ لیا ہے، 23 فیصد پیسہ تنخواہوں کی مد میں جا رہا ہے ۔

پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق  اس موقع پر آڈیٹر جنرل نے آڈٹ کے ٹرمز آف ریفرنسز (ٹی او آرز) شرائط کار عدالت میں پیش کیے اور بتایا کہ یہ فرخ سلیم کی رپورٹ کو دیکھتے ہوئے بنائے ہیں۔ 360 ارب کے خسارہ اور نقصان کا تجزیہ کرتے ہوئے دیکھا جائے گا کہ پالیسی یا فیصلہ سازی تھی جس نے اثر ڈالا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نیک نیتی یا بدنیتی کا پتہ کنڈکٹ سے چلتا ہے، پالیسی اچھی یا بری ہو سکتی ہے، اس کے پیچھے کیا نیت نیتی اس کو بھی دیکھنا ہوگا ۔

آڈیٹر جنرل جاوید جہانگیر نے بتایا کہ پی آئی اے میں تمام تعیناتیوں کا بھی جائزہ لیا جائے گا، فنانشل منیجمنٹ، سیلز ریونیو، فلائٹ آپریشنز، بلڈنگز پراپرٹیز کے علاوہ اخراجات کو بھی دیکھا جائے گا جس میں جہازوں کی لیز بھی شامل ہے، آمدن اثاثوں اور اخراجات کا بھی جائزہ لیں گے، جہازوں کی لیز اور روٹس کا بھی جائزہ لیا جائے گا ۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سیاسی مداخلت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، آڈٹ کے ٹی او آرز سے خدشہ ہے کہیں غلط تصویر نہ سامنے آجائے، پی آئی اے انتظامیہ نے اپنی رپورٹ میں سارا ملبہ گزشتہ انتظامیہ پر ڈالا ہے، پی آئی اے کے ساتھ حکومتی سطح پر جو سلوک ہوا اس کا بھی جائزہ لینا ہوگا ۔ اس موقع پر سابق مشیر ہوا بازی سردار مہتاب عباسی نے کہا کہ آڈیٹر جنرل نقصانات کی وجوہات کا تعین نہیں کر سکتا، وجوہات جاننے کے لیے فرانزک آڈٹ کروانا ہوگا ۔

چیف جسٹس نے مہتاب عباسی سے استفسار کیا کہ آپ کو کیسے علم کے آڈیٹر جنرل تعین نہیں کر سکتے، آپ کی ایوی ایشن کیا کوالی فیکشن ہے؟ آپ کا تو کنسٹرکشن کا بزنس تھا اور پھر سیاست دان ہیں ۔ سردار مہتاب نے کہا کہ مجھے ایڈمنسٹریشن کا تجربہ ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کس ایڈمنسٹریشن کا تجربہ ہے؟ ۔ مہتاب عباسی نے کہا کہ میں وزیراعلی اور وفاقی وزیر رہا ہوں، مجھے معلوم ہے کہ سرکاری اداروں میں بھرتیوں کا طریقہ کار کیا ہے، ائر لائنز کو حکومتی محکموں کی طرح نہیں چلایا جا سکتا، اس کو کمپنی اور کارپوریٹ منیجمنٹ چلاتی ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جو منیجمنٹ بٹھائی جاتی ہے وہی محکمے کو تباہ کر دے تو پھر کیا کیا جائے ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ محکموں میں اوپر سیاسی تقرر ہوتےہیں، یہ تلخ باتیں ہیں رہنے دیں، آپ کو بھی گورنری سے ہٹایا گیا اور پی آئی اے میں لگا دیا، آپ کو ٹکٹ بھی نہیں دیا، اب آپ پارٹی بھی چھوڑ رہے ہیں ۔ مہتاب عباسی نے کہا کہ مجھے گورنری سے ہٹایا نہیں گیا خود استعفا دیا، ایک سال گھر پر رہا پھر بلایا گیا، اپنے فیصلے ضمیر کے مطابق کرتا ہوں عوام اور الل کو جوابدہ ہوں ۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ دنیا بھر میں ائرلائنز فی جہاز اسٹاف رکھتی ہیں پاکستان میں سب سے زیادہ ہے، یہ کس طرح کارپوریٹ ہے کہ بھرتیاں ایسے کر لی جائیں اور جب نکالنے کی بات کرتے ہیں تو گولیاں چلتی ہیں ۔ جسٹس منیب اختر نے سردار مہتاب سے کہا کہ آپ نے اپنے دور میں کتنے ملازمین فارغ کئے؟ 34 جہازوں پر 14 ہزار لوگ رکھے ہوئے ہیں ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس سال بھی قومی ائر لائن کو 30 ارب کا بیل آؤٹ پیکج دیا گیا ہے، کب تک اتنا پسہ دیتے رہیں گے، ائر لائن تباہ ہونے کی وجوہات معلوم ہونا ضروری ہیں ۔ پی آئی اے کے سابق چیئرمین ناصر جعفر نے اس موقع پر ہاتھ کھڑا کیا اور کہا کہ وہ ملک سے باہر جانا چاہتے ہیں اجازت دی جائے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے ہاتھ ہلانے والی حرکتیں بالکل پسند نہیں، باہر جانے سے اتنا پیار ہے، اپنے کاروبار کیلئے باہر جانا ضروری ہے اور اس ملک میں تباہی پھر گئی ہے ۔ آپ لوگوں سے مناسب رویہ رکھنے کی کوشش کرتا ہوں، مگر نامناسب لوگوں سے نامناسب رویہ ہی رکھنا پڑتا ہے، آپ کوئی اوپر سے آئے ہیں ۔ ناصر جعفر کے وکیل اس دوران چیف جسٹس سے معذرت کرتے رہے تاہم چیف جسٹس سخت غصے میں بولتے رہے اور کہا کہ ہم اس کے بیرون ملک جانے پر پابندی لگا دیتے ہیں، یہ کون ہیں، ان کا نام کیا ہے؟۔ پھر کہا کہ آپ کی وجہ سے ایک محکمہ تباہ ہو گیا ۔

بعد ازاں وکیل کی معافی پر عدالت نے مقدمے کی سماعت اگلے ہفتے تک ملتوی کر دی ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے