کالم

چیف جسٹس کے ریمارکس اور دورہ

جولائی 14, 2018 4 min

چیف جسٹس کے ریمارکس اور دورہ

Reading Time: 4 minutes

سپریم کورٹ سے اے وحید مراد

سپریم کورٹ میں آج سنیچر کے روز صبح چیف جسٹس ثاقب نثار نے عدالت لگائی، احکامات جاری کئے ۔ پھر قریب ہی واقع اسپتال اور دو کچی آبادیوں کا دورہ کیا، اپںے خیالات ظاہر کئے اور واپس آ کر دوبارہ عدالت لگائی اور مزید احکامات دیئے ۔

دلچسپ اور اتفاقی امر یہ تھا کہ عدالت میں بھی سابق وزیراعظم شاہد خاقان کے بارے میں ریمارکس دیئے اور دورہ بھی اس اسپتال اور علاقے کا کیا جہاں سے شاہد خاقان عباسی، تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے مقابلے میں الیکشن لڑ رہے ہیں ۔ چیف جسٹس نے کچی آبادی کے دورے میں ایک صحافی کے سوال پر جواب میں کہا کہ سیاستدان مجھے کیا اسکینڈلائز کریں گے ۔ بہرحال عدالتی کارروائی کی تفصیل پڑھیے ۔

سپریم کورٹ نے پاکستان سٹیٹ آئل کے منیجنگ ڈائریکٹر سمیت پندرہ لاکھ سے زائد تنخواہ لینے والے تمام سرکاری و نیم سرکاری اداروں کے سربراہوں کے تقرر کی تحقیقات کا حکم دیا ہے ۔ عدالت نے نیب کو تفتیش کرنے کا یہ حکم پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر لئے گئے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران دیا ۔ عدالت عظمی نے آڈیٹر جنرل اور نجی آڈٹ کمپنی کو پانچ ہفتوں میں ایسے تمام اداروں کے آڈٹ کیلئے بھی کہا ہے جن کے سربراہوں کی تنخواہ 15 لاکھ سے زائد ہے ۔

عدالت کے تین رکنی بنچ نے مقدمے کی سماعت کی جہاں چیف جسٹس نے ایم ڈی پی ایس او سے پوچھا کہ آپ کو وفاقی حکومت بھی بجٹ دیتی ہے ۔ ایم ڈی عمران الحق نے بتایا کہ پی ایس او کو کوئی بجٹ نہیں ملتا، سالانہ انتظامی اخراجات 10 سے 12 ارب روپے ہے، ایک سال میں کل منافع 18 ارب روپے سے زیادہ ہے، پی ایس او کا کل ریونیو 2۔1 ٹریلین ہے جس میں سے زیادہ تر تیل کی خریداری پر خرچ ہوتا ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ غیر جانبدار اور آزاد آڈیٹر سے آڈٹ کرائیں گے، دہرانا اچھا نہیں لگتا مگر میں تو ابھی اس چیز سے نہیں نکل سکا کہ آپ 37 لاکھ روپے تنخواہ لیتے ہیں، خیال ہے کہ آپ گزشتہ حکومت میں کسی بڑی شخصیت کے دوست رہے ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ڈگری کہاں سے لی؟

ایم ڈی پی ایس او نے کہا کہ میں کسی کا دوست نہیں تھا ۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ایم ڈی نے سندھ یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ان کی غیر ملکی نہیں مقامی ڈگری ہے، آئل سیکٹر کا کوئی تجربہ نہیں، تقرر کس نے کیا؟ ایم ڈی اکرام الحق نے بتایا کہ تقرر کی منظوری وزیراعظم نے دی ۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ عباسی نے؟۔ ایم ڈی نے بتایا کہ وزیراعظم نواز شریف نے تقرر کیا تھا ۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ اس وقت وزیر پیٹرولیم کون تھا؟۔ ایم ڈی اکرام الحق نے بتایا کہ اس وقت وزیر پیٹرولیم شاھد خاقان عباسی تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میں یہی دوستی آپ کو  سمجھا رہا تھا ۔ خاموش رھیئے، بھترین ایجنسی سے تفتیش کرا لیں گے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تنخواہ کی وجہ سے آپ کو دیکھ کر ہمیں پرابلم شروع ہو جاتی ہے ۔ ایم ڈی نے کہا کہ یہ آسامی اشتہار کے ذریعے آئی تھی، امیدواروں کی اہلیت جانچنے کیلئے انٹرویو نجی کمپنی نے کئے جس کی خدمات وزارت نے حاصل کی تھیں ۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ چھ افراد شارٹ لسٹ ہوئے اور سمری تیار ہوئی ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عجیب دھندہ بنایا ہے کہ نجی کمپنیوں کو کہتے ہیں ھمارے لئے افسر تلاش کریں، یہ بھی اسکینڈل ہے، گریڈ 20 کا سرکاری افسر صرف 2 لاکھ تنخواہ لیتا ہے ۔

ایم ڈی پی ایس او نے بتایا کہ میرے عہدے کی مدت تین سال ہے، اس کے علاوہ کارکردگی پر بونس ملتا ہے، تین سال سے کارکردگی بونس نہیں لیا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کون سا احسان کیا ہے؟ 37 لاکھ تنخواہ لے کر بھی بونس لینا ہے؟ کیا کارکردگی دکھا دی؟ کیوں نہ آپ کو ابھی عہدے سے معطل کر دیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس طرح کی چیزیں پاکستان میں ہو رہی ہیں ہمیں قابل قبول نہیں ہے ۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کر کے کہ آدھے گھننٹے میں نیب اور ایف آئی اے کو بلالیں ۔ ایم ڈی نے اپنا موقف بتانے کی کوشش کی تو چیف جسٹس نے کہا کہ  ابھی کچھ نہیں کر رہے، تفتیش کرائیں گے، آپ کو تو 80 لاکھ مہینہ بھی دیا جا سکتا تھا ۔ پی ایس او کے ایم ڈی نے دیگر اداروں کے سربراہوں کی تنخواہ کی تفصیل عدالت کو بتانا شروع کی تو چیف جسٹس نے کہا کہ یہ نجی ادارے ہیں جس پر ایم ڈی بولے کہ پی پی ایل اور او جی ڈی سی ایل نجی ادارے نہیں ہیں، اس کے سربراہ کی تنخواہ 44 لاکھ روپے ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یعنی سب میں ہی لٹ ہے، لیتے جاؤ، اس ملک کے ٹیکس دینے والوں کا پیسہ ہے ۔

عدالت کے پوچھنے پر ایم ڈی نے بتایا کہ میرا تقرر ستمبر 2015 میں ہوا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مطلب آپ کے دو تین ماہ باقی ہیں ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ سے پہلے نعیم یحیی 8 لاکھ روپے تنخواہ لے رہے تھے ۔ ایم ڈی پی ایس اس نے بتایا کہ وہ مجھ سے چار پانچ سال پہلے تعینات ہوئے تھے ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ مطلب چار سال میں تنخواہ ضرب کھا کر بڑھتی رہی ۔ ایم ڈی عمران الحق نے جواب دینے کی کوشش کی تو چیف جسٹس نے کہا کہ ‘اکرام صاحب’ آپ سے زیادتی نہیں کر رہے ہیں، یہ ایک بڑا سکینڈل ہے کہ نجی کمپنیاں بنا کر اس طرح تقرر کرتے ہیں، اس کی انکوائری کرائیں گے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کی دوستیاں سامنے نہیں آئیں گی تو ھمارے پاس ایسے ریکارڈ ہیں کہ سامنے آ جائیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ شاہد خاقان کو یہ نہیں چاہئیے تھا ۔ کیا آپ شاہد خاقان کو نہیں جانتے تھے؟ ایم ڈی نے بتایا کہ جب وہ وزیر بنے تب ان سے ملا، پہلے نہیں جانتا تھا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا جب تک آڈٹ نہیں ہوگا، اس طرح سب آ کر اپنی بات کر کے چلے جائیں گے ۔

عدالت نے پاکستان سٹیٹ آئل کے تین سال کے آڈٹ کا حکم دیا اور نیب کو ہدایت کی کہ ان تمام سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کے سربراہوں کے تقرر کی تحقیقات کی جائیں جو پندرہ لاکھ سے زائد تنخواہ لیتے ہیں ۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے