کالم

سینٹ اجلاس میں جو کہا گیا

جولائی 16, 2018 4 min

سینٹ اجلاس میں جو کہا گیا

Reading Time: 4 minutes

پارلیمان کے ایوان بالا سینٹ کا اجلاس جاری ہے اور سینئر سیاست دان ملک کو درپیش مسائل پر اظہار خیال کر رہے ہیں ۔

سابق چئیرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ نگراں دور حکومت میں قومی سلامتی کمیٹی کے تین اجلاس منعقد ہوئے لیکن ہر اجلاس میں معیشت اور ویزا پالیسی پر بات کی گئی، ملک میں امن و امان کی صورت حال زیر غور نہیں آئی ۔
سینیٹر رضا ربانی نے مستونگ سانحہ پر سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے آئین کے تحت ہر شہری کے جان و مال کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے، لیکن ایسا نہیں ہو رہا ۔ رضا ربانی نے کہا کہ وزیر اعظم ، مسلح افواج کے سربراہاں نیکٹا کی رپورٹ سے آگاہ ہوں گے کہ چھ سیاسی قائدین کی ذندگیاں خطرے میں ہیں ۔ اگر سیکرٹری الیکشن کمیشن اور وزیر داخلہ کو امن و امان کی صورت حال کا علم ہے ، تو یقین ان باقی تمام عہدیداران کو بھی ہو گا ۔سیاسی کارکن ریلو کٹوں کی طرح سڑکوں پر مارے جارہے ہیں ، ملک میں سیاسی عدم استحکام ہے، لیکن یہ سب ان عہدیداران کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں معاشی پالیسی پر با ت ہو سکتی ہے لیکن امن و امان پر نہیں ۔ ان کا کہنا تھا امیداروں اور سیاسی کارکنوں کو تحفظ دینے کے حوالے سے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے جا رہے ۔ اگر کسی چیز پر عمل درآمد ہو رہا ہے تو وہ سیاسی کارکنان کو گرفتاری ہے ۔ انھوں نے کہا کہ سینیٹ کے قائد ایوان اور اسپیکر قومی اسمبلی کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ قائم کیے جا رہے ہیں ۔ انھوں نے سوال کیا کہ ہارون بلور پر کیا جے آئی ٹی بنی ، کیا پیش رفت ہوئی ۔ ہماری حکمران اشرافیہ اور اسٹیبشلمنٹ نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا ۔ پہلے پی این اے ، پھر آئی جے آئی اور پھر ایم ایم اے بنائی گئی ، لیکن یہ سب سیاسی جماعتیں تھیں ۔ لیکن اس بار یہ فیصلہ ہوا ہے کہ عسکریت پسند جماعتوں کو مرکزی دھارے میں شامل کیا جائے۔ وزیر داخلہ بتائیں کیسے کلعدم تنظیمیں الیکشن لڑ رہی ہیں ؟ تحریک لبیک کے 150 اور اللہ اکبر تحریک کے 50 امیدوار قومی اسمبلی الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ الیکشن میں کلعدم تنظمیوں کے 200 نمائندے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہے ہیں . قومی اسمبلی کا کیا ماحول ہو گا کہ اگر ان میں سے بیس پچیس بھی اسمبلی میں آکر بیٹھ گئے؟ پاکستان کی تاریخ میں جب بھی الیکشن کو ٹیسٹ ٹیوب میں ڈالا ، تو وہ وفاق اور ملک کے لیے خطرناک ہو ۔ انجینیرڈ الیکشن وفاق کے لیے خطرے کی گھنٹے ہو گی ۔ پاکستان تاریخ کے اس موڑ پر کھڑا ہے جس میں صاف شفاف الیکشن کے علاوہ باقی سب چیزیں تباہی کریں گے۔
مسلم لیگ ن کے سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ سینیٹر پرویز رشید مستونگ حادثہ المناک ہے ، لیکن یہ حادثہ نیا نہیں ہے ۔ قومی سلامتی قائم رکھنے کے زمہ داران کی مصروفیات گذشتہ دنوں میں ہماری نظر سے گزرتی رہی ہیں ۔ دس ہزار پولیس اہلکار صرف اس کام پر تعینات تھے کہ جو شخص اپنی بیٹی کے ساتھ خود جیل جانے پاکستان آ رہا ہے اسے کیسے گرفتار کرنا ہے ۔ ریاست نے اس حوالے سے پروگرام ترتیب دیے ہوں گے کہ کیسے اس غیر مسلح شخص اور نہتی لڑکی کو گرفتار کرنا ہے اور اس حوالے سے وفاقی اور صوبائی حکومت نے کئی اجلاس کیے ہوں گے ۔ سولہ ہزار سیاسی کارکن کو گرفتار کیا گیا، جن میں 99 فیصد کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے ۔ملک واپس آنے والا بھی ہزاروں اہلکاروں کی حراست میں تھا اور اسے دیکھنے کی خواہش رکھنے والے بھی حراست میں تھے ، لیکن پشاور اور مستونگ میں دھماکے کرنے والا دندناتا پھر رہا ہے ۔ کس کو کچلنا ہے کس کو طاقت ور بنانا ہے یہ ریاست نے طے کر لیا ہے ۔ پرویز رشید نے کہا کہ ہمارے دشمنوں کو خود کش جیکٹ پہننے والا شخص کہاں سے میسر ہو رہا ہے ۔ انتہا پسندی کے نظریہ کی پرورش کس نے کی ، اور اسے ختم کرنے پر ہم آج بھی آمادہ کیوں نہیں ہیں۔ چوتھے شیڈیول میں شامل افراد کو الیکشن لڑنے کی اجازت دیں گے تو توقع مت کریں کہ باقی سیاسی جماعتوں آرام سے الیکشن مہم چلائیں گی ۔ پرویز رشید نے کہا کہ میں اس دن سے خوف زدہ ہوں جس دن ایوانوں میں یہ لوگ موجود ہوں گے ، اور ان کے خوف سے ہماری زبانیں بند ہو جائیں گے ۔ پرویز رشید نے سوال اٹھایا کہ ان افراد کو ایوان میں لانے کی پالیسی کیا نواز شریف نے بنائی ، یا نظیر بھٹو کے دور میں بنی ، یا اسفندیار ولی کے دماغ کی تخلیق ہے ؟ ان کو ایوانوں میں لانے کی پالیسی کس کی ہے؟ میں یہ پالیسیاں بنانے والوں سے گزارش کرتا ہوں کہ اب بہت ہو گیا ۔ خدا کے لیے اپنے انداز فکر کو بدلیں ورنہ آگ ہمارے گھروں تک پہنچ رہے ہے۔ آج جس عفریت کو ہم نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا تھا اسے اپنے ہاتھ سے ختم کریں۔
سینیٹر سردار اعظم موسی خیل نے کہا کہ ہم اس جگہ پر پہنچ گئے ہیں جہاں پشتون اور بلوچوں کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے ، جس کے اچھے نتائج نہیں نکلیں گے ۔ سیاست ، صحافت اور جمہوریت پر سیاستدانوں اور صحافیوں کا کا کنٹرول نہیں رہا ۔ ہم جانتے ہیں سیاست جمہوریت اور صحافت کو کنٹرول کر رہا ہے ۔ الیکشن کمیشن ڈکٹیشن پر چل رہا ہے ۔
سینیٹر ڈاکٹر آصف کرمانی نے کہا کہ 5 جولائی 1977 کو آنے والی ڈکٹیٹر شپ نے ملک کو بم دھماکوں کا تحفہ دیا ۔ کیا نگراں حکومت گروپ فوٹو کھنچوانے آئی ہے جو دو ماہ بعد چلی جائے گی ۔ ایجنسیوں پر اربوں روپیہ خرچ کیا جاتا ہے ، ان کا کام ہے دشت گردی کی روک تھام کرنا ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے