کالم

جنرل پاشا اور راحیل کی بیرونی ملازمت

اگست 1, 2018 4 min

جنرل پاشا اور راحیل کی بیرونی ملازمت

Reading Time: 4 minutes

سپریم کورٹ سے اے وحید مراد

برسوں پہلے عدالت میں ایک نام نہاد خدائی خدمت گار نے کچھ ارکان پارلیمنٹ کے خلاف درخواستیں دائر کیں کہ وہ دہری شہریت رکھتے ہیں، پھر ان میں سے کئی کو ملک کی سب سے بڑی عدالت نے آئین کی خلاف ورزی پر نااہل قرار دیا ۔ اب عرصے بعد عدلیہ کو دوبارہ خود سے خیال آیا ہے کہ ملک میں دہری شہریت کے حامل سرکاری افسران بھی ‘قومی سلامتی’ کیلئے خطرہ ہو سکتے ہیں تو نوٹس لے کر تفصیلات طلب کی تھیں (حالانکہ ارکان پارلیمان کے برعکس سرکاری ملازمین کیلئے آئین و قانون میں ایسی کوئی پابندی نہیں) ۔ گزشتہ چند ماہ سے زیر سماعت اس مقدمے میں آج ایک نیا موڑ آیا جب چیف جسٹس ثاقب نثار نے فوج کے سابق اعلی افسران کی غیر ملکی ملازمتوں کے بارے میں پوچھ لیا ۔ آج کی سماعت کا احوال پڑھیے ۔

سپریم کورٹ نے اعلی سرکاری افسران کی دہری شہریت کیس میں سابق فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف کو سعودی عرب میں ملازمت کی اجازت دینے کو مکمل ریکارڈ طلب کر لیا ہے ۔ عدالت نے سیکرٹری دفاع سے فوجی افسران کی بیگمات کی غیرملکی شہریت کی تفصیلات بھی پیش کرنے کیلئے کہا ہے ۔

چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل تین رکنی بنچ نے مقدمے کی سماعت کی ۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید نے عدالت کو وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ایف آئی اے کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ اعلی عہدوں پر 27 ایسے افسران ہیں جن کی دہری شہریت ہے ۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ عدالتی معلومات کے برعکس کسی پاکستانی سفیر کی دہری شہریت نہیں ۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایف آئی اے نے بہت سارے افسران کی دہری شہریت کی شناخت کی ہے، ایسے افسران بھی ہیں جن کے رشتہ داروں کی دہری شہرہت ہے، افسران کے رشتہ داروان کی دہری شہریت پر بھی تحفظات ہیں ۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ متعدد سرکاری افسران کی بیویاں بھی دہری شہریت رکھتی ہیں، کچھ افسران نے خود معلومات فراہم کیں اور کچھ کو ایف آئی اے نے شناخت کیا ۔ اٹارنی جنرل نے اپنے قانونی دلائل میں کہا کہ دنیا میں کچھ ممالک ایسے ہیں جو دہری شہریت کی اجازت دیتے ہیں جبکہ کچھ ممالک نہیں دیتے ۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ افغانستان اور روس دہری شہریت کی اجازت نہیں دیتے ۔ اٹارنی جنرل نے رائے دی کہ دہری شہریت والوں کو سرکاری ملازم نہیں ہونا چاہئے، آئین کے مطابق ریاست سے وفاداری ہر شہری پر لازم ہے، دہری شہریت والا کسی اور ریاست سے وفاداری کر سکتا ہے، آرٹیکل 5 کی پابندی کرنا ہر شخص پر لازم ہے ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے سوالیہ انداز میں پوچھا کہ کیا سول سروس میں موجود لوگوں کی وفاداری کسی دوسرے ملک سے زیادہ پاکستان سے نہیں ہونا چاہئے؟ ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ دہری شہریت لینے کے پیچھے محرک کیا ہے، یہی کہ یہاں سے بھی پنشن لیں گے اور باہر بھی اولڈ ایج کے فائدے اٹھائیں گے، قانون سازوں کو چاہیے کہ سول سروس میں موجود افسران کو ایک خاص مدت تک مہلت دیں کہ وہ دوسری شہریت ترک کر دیں ۔

سیکرٹری دفاع عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ فوج میں دہری شہریت والا شخص بھرتی نہیں ہو سکتا کیونکہ قواعد اس کی اجازت نہیں دیتے ۔ سیکرٹری دفاع نے بتایا کہ فوج میں کوئی بھی اہلکار یا افسر دہری شہریت کا حامل نہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایک پروفارما بنا کر تمام افسران سے معلومات حاصل کر کے عدالت کو آگاہ کریں ۔جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ کیا فوجی افسران کی بیگمات غیر ملکی شہریت رکھ سکتی ہیں؟ سیکرٹری دفاع نے جواب دیا کہ غیر ملکی خاتون سے شادی کیلئے افسران کو آرمی چیف سے اجازت لینا پڑتی ہے ۔

عدالت کو معاون وکیل نے بتایا کہ سابق سرکاری ملازمین کی ملازمت پابندی کے قانون 1966 کا ہے جس کے تحت ریٹائرمنٹ کے دو سال بعد کسی جگہ نوکری کی جا سکتی ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قانون کے مطابق ریٹائرمنٹ کے بعد دو سال کے اندر ملازمت نہیں کی جا سکتی، کیا فوجی افسران بھی سرکاری ملازم تصور ہوں گے؟۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جنرل پاشا ریٹائرمنٹ کے چند دن بعد دبئی میں ملازمت کرنے چلے گئے، وہ آئی ایس آئی کے ڈی جی تھے، ان کے پاس اہم معلومات ہیں، اسی طرح جنرل راحیل شریف بھی سعودی عرب چلے گئے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ کیا قانون میں ایسی ملازمت کیلئے کسی این او سی کی گنجائش ہے؟ ۔ اٹارنی جنرل نے ہاں میں جواب دیا تو چیف جسٹس نے کہا کہ این او سی وفاقی حکومت نے دینا تھا اور وفاقی حکومت کا مطلب کابینہ ہے ۔ افسران کے پاس اہم معلومات ہوتی ہیں خدانخوستہ بیرون ملک جاتے ہوئے ان کے ساتھ کچھ ہو جائے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے نہیں پتہ کہ وفاقی حکومت نے جنرل راحیل کو اجازت دی تھی ۔ سیکرٹری دفاع نے کہا کہ حکومت نے این او سی دیا تھا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کس نے، کس طرح اور کس نوعیت کا این او سی دیا ہوگا ۔

عدالت نے غیر ملکی شہریت والے 27 افسران کو نوٹس جاری کر کے جواب طلب کر لیا جبکہ جنرل راحیل کو جاری کئے گئے این او سی کا ریکارڈ اور فوجی افسران کی غیرملکی شہریت والی بیگمات کی تفصیل فراہم کرنے کیلئے سیکرٹری دفاع کو ہدایت کرتے ہوئے سماعت 7 اگست تک ملتوی کر دی ہے ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے