کالم

زرداری جعلی اکاؤنٹس کیس کا مکمل احوال

اگست 6, 2018 13 min

زرداری جعلی اکاؤنٹس کیس کا مکمل احوال

Reading Time: 13 minutes

سپریم کورٹ سے اے وحید مراد

سپریم کورٹ میں جعلی بنک اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں روپے کی ٹرانزیکشن کے ازخود نوٹس کیس دو گھنٹے کی سماعت کے دوران وکیلوں، سندھ پولیس اور جعلی اکاؤنٹس سے رقم وصول کرنے والوں کے خلاف سخت ریمارکس سامنے آئے ہیں ۔

عدالت عظمی کے تین رکنی بنچ نے چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں مقدمے کی سماعت کی ۔ وفاقی تحقیقات ادارے ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن نے بتایا کہ 29 مشکوک اکاونٹس ہیں ۔ ڈی جی ایف آئی اے نے کہا کہ یہ بنک اکاونٹس سمٹ بنک، سندھ بنک اور یونائیٹڈ بنک میں کھولے گئے، مشکوک ٹرانزیکشنز جعلی اکاونٹس کے ذریعے ہوئے۔ ڈی جی ایف آئی اے کا کہنا تھا کہ طارق سلطان کے نام سے پانچ بنک آکاونٹس تھے، ابراہم لنکرز، لکی انٹر نیشنل کے تین مشکوک اکاونٹس ہیں ۔ جسٹس اعجاز الحسن نے پوچھا کہ مشکوک بنک اکاونٹس سے رقم پھر کن بنک اکاونٹس میں منتقل ہوئی؟۔ ڈی جی ایف آئی اے نے بتایا کہ اومنی گروپ سے رقم زرداری گروپ کو بھی منتقل ہوئی، اومنی گروپ نے 2 ارب 82 لاکھ جعلی بنک اکاونٹس جمع کرائے ۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ اومنی گروپ کے اکاونٹس کو جعلی کیسے کہہ سکتے ہیں؟ ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل نے بتایا کہ اکاونٹ میں رقم جمع کرانے والے اصل لوگ ہیں، رقم جن اکاونٹ میں جمع ہوئی وہ اکاونٹس جعلی ہیں ۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ جعلی اکاونٹس سے رقم کہاں گی، لسٹ دیں کہ 29 اکاونٹس کس کس کے نام پر ہیں، کچھ لوگ کہتے ہیں یہ اکاونٹس انہوں نے کھولے ہی نہیں، لگتا ہے کہ جعلی اکاونٹس کھول کر کالا دھن جمع کرایا گیا، دیکھنا یہ ہے کہ کالے دھن کو سفید کرنے کا فائدہ اٹھانے والا/ بینفیشری کون ہے؟  جسٹس اعجازالاحسن نے پوچھا کہ جعلی اکاونٹس سے رقم واپس اپنے اکاونٹ میں لانے کا مقصد کیا ہے؟۔ ڈی جی ایف آئی اے نے جواب دیا کہ جعلی بنک اکاونٹس کا ابتدائی ریکارڈ نہیں مل رہا تھا، جعلی اکاو ٹس میں 35 ارب روپے کی ٹرانزیکشنز ہوئیں ۔ جسٹس اعجاز الحسن نے پوچھا کہ 35 ارب کی رقم اکاونٹس سے کس کو منتقل ہوئی؟۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ اومنی گروپ کے مالک انور مجید کدھر ہیں؟ اومنی گروپ کے مالک ذاتی حیثیت میں پیش ہوں ۔ وکیل رضا کاظم نے بتایا کہ انور مجید بیمار ہیں وہ دبئی کے اسپتال میں داخل ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جب بھی ایسا مقدمہ آتا ہے لوگ ہسپتال چلے جاتے ہیں، انور مجید سے کہیں آئندہ ہفتے پیش ہوں، عدالت انور مجید کو بلانے کا اختیار رکھتی ہے، اومنی گروپ کی کتنی کمپنیز ہیں، اومنی گروپ کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں کون ہیں، انور مجید کو آئندہ سماعت میں کمرہ عدالت میں ہونا چاہئے۔ ڈی جی ایف آئی اے نے بتایا کہ اومنی گروپ نے 2 ارب 82 لاکھ روپے مختلف بنک اکاؤنٹس میں جمع کرائے ۔ ایڈووکیٹ رضا کاظم نے بتایا کہ 5 سال سے انور مجید کا اومنی گروپ سے کوئی تعلق نہیں ہے، اومنی گروپ کو 19 لوگ چلا رہے ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کروکس (بدمعاش/چور) کو ہر کوئی اس کے نام سے جانتا ہے، انور مجید کو عدالت میں دیکھنا چاہتے ہیں، کب آئیں گے، ابھی معلوم کر کے بتایا جائے، اس کے بیٹے بھائی کون ہیں؟ ۔ ایک وکیل نے عدالت کو بتایا گیا کہ عبدالولی مجید بیٹا ہے او ملک سے باہر ہے، علی کمال، ذوالقرنین مجید، نمر مجید بھی بیٹے ہیں ۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ جواب ملا کہ معاون وکیل ہوں ۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ کو وکالت نامے کس نے دیئے؟ کس کی طرف سے پیش ہو رہے ہیں؟ ۔ چیف جسٹس نے اسٹاف کو حکم دیا کہ ان کے وکالت نامے چیک کریں، رضا کاظم کا وکالت نامہ بھی دیکھیں ۔ سخت غصے میں آگ بگولہ چیف جسٹس بولے کہ حد ہو گئی ہے ۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا آپ سپریم کورٹ کے وکیل ہیں؟ ۔  وکیل نے بتایا کہ میرا نام بیرسٹر جمشید ملک ہے اور سپریم کورٹ کا وکیل ہوں، دو لوگوں نے میرے سامنے وکالت نامے پر دستخط کئے ۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ کا ایڈووکیٹ آن رکارڈ کون ہے، آپ کے پاس کمپنی کی اتھارٹی کہاں ہے؟ آپ امپرسونیٹ (جعل سازی/نقالی/دھوکا) کر رہے ہیں، معلوم ہے قانون میں اس کی کیا سزا ہے؟ وکیل صاحب، کہیں اپنا لائسنس نہ گنوا دینا ۔ بیرسٹر جمشید ملک نے کہا کہ وہ نہیں ہوگا سر ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کون ہے، ارشد چودھری ہے تو اس کو وکالت نامہ کس نے دیا؟ پاور آف اٹارنی کے بغیر کیسے وکالت نامے جمع کرائے، کیا بڑے لوگوں کیلئے قانون مختلف ہے ۔ چیف جسٹس نے اسٹاف سے کہا کہ پولیس کو بلائیں ان کے خلاف پرچہ درج کرائیں، رجسٹرار کو بھی بلا لیں ۔ بیرسٹر جمشید نے کہا کہ میں نے کوئی ایڈوکیٹ آن ریکارڈ ہائر نہیں کیا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بغیر کسی عدالتی ایڈوکیٹ آن رکارڈ کے یہاں کیسے آ گئے ۔ وکیل نے بتایا کہ انور مجید اور عبدالحلیم کی طرف سے آیا ہوں، چیف جسٹس نے کہا کہ وہ تو پاکستان سے باہر تھے ۔ جمشید ملک نے بتایا کہ تین دن پہلے ان سے وکالت نامے پر دستخط لئے تھے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اپنا پاسپورٹ لاؤ، ابھی دیکھ لیتے ہیں ۔ جمشید ملک نے جواب دیا کہ وہ ہوٹل کے کمرے میں ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی جا کر لاؤ ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وکیل رضا کاظم اسی کیس میں ایک ماہ قبل پیش ہوئے تھے، اگر موکل سے ملے بھی نہیں تو کیسے وکیل بن کر پیش ہو گئے؟۔ چیف جسٹس نے کہا کہ رضا، آپ کو پتہ ہے، آپ ملک کے سینئر ترین وکیل ہیں، کیا گزشتہ سماعت پر بھی بغیر کسی وکالت نامے کے پیش ہو گئے تھے؟ آپ نے عدالت کو بتایا تھا کہ آپ کے پاس کوئی تحریری اتھارٹی نہیں ۔ چیف جسٹس نے بیرسٹر جمشید ملک سے پوچھا کہ کیا آپ کو اس عدالت میں پیش ہونے کے قانون کا پتہ ہے؟ وکیل نے کہا کہ ای میل کے ذریعے وکالت نامے بھیج دیئے تھے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے خلاف پرچہ کراؤں گا، عدالت کو دھوکا دیا گیا ۔ وکیل نے کہا کہ عدالت اور چیف جسٹس تو کیا میں نے کسی کو بھی دھوکا نہیں دیا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ رضا کاظم کا ہم احترام کرتے ہیں مگر اس طرح نہیں کرنے دیں گے ۔ وکیل جمشید ملک نے کہا کہ بارہ جولائی عدالت نے نوٹس کیا تھا تو انور مجید نے مجھ سے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کا وکیل کر لوں، میں نے پہلے اعتزاز احسن سے بھی رابطہ کیا تھا، پھر رضا کاظم سے بات کی ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کو دھوکہ دینے کی اجازت نہیں دیں گے، چیٹنگ برداشت نہیں کریں گے ۔ جمشید ملک نے کہا کہ میں نے صرف اپنے موکل کے پیغام پہنچانے کا کام کیا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیس فائل میں بتائیں پاور آف اٹارنی کہاں لگی ہوئی ہے ۔ جسٹس عمر عطا نے کہا کہ وہ دستاویزات دکھائیں جن پر آپ کی آنکھوں کے سامنے آپ کے موکل نے دستخط کیے، اپنے موکل کے دستخط شدہ دستاویزات دکھائیں جو آپ نے وکیل کے حوالے کیے ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ایک وقت میں دو مختلف بیانات دے رہے ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے کہہ رہے تھی کہ میرے سامنے دستخط کئے، اب کہہ رہے ہیں کہ ای میل کے ذریعے وکالت نامے آئے، میں ابھی اس کا لائسنس معطل کرتا ہوں، اس کے خلاف کیس درج کرائیں گے ۔

اسی دوران کئی پولیس اہلکار ہتھکڑیاں لٹکائے عدالت میں داخل ہوئے ۔ ایک نے مجھ سے پوچھا کہ کس کی گرفتاری ہونی ہے؟۔ اسی دوران سپریم کورٹ کے رجسٹرار ارباب عارف بھی کمرہ عدالت میں داخل ہوگئے ۔ بیرسٹر جمشید ملک نے میں کسی کی طرف سے پیش نہیں ہو رہا، یہاں سینئر وکیل کی معاونت کیلئے آیا ہوں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میں آپ کا وکالت کا بنیادی لائسنس بھی معطل کر سکتا ہوں، میرے پاس اتھارٹی ہے ۔ عدالت میں ایک اور سینئر وکیل خالد رانجھا کھڑے ہوئے اور کہا کہ ہم مؤکل اور ایڈووکیٹ آن رکارڈ سے اسی طرح معاملات کرتے ہیں، ہم تو سفید کاغذات پر دستخط کرا لیتے ہیں ۔

سخت غصے کی کیفیت میں چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بات دہرائیں ہم ریکارڈ کر لیتے ہیں، یہ بدقسمتی ہے کہ خالد رانجھا جیسا وکیل یہ کہہ رہا ہے، جب میں وکیل تھا اس وقت تو ایسا نہیں ہوتا تھا، ہو سکتا ہے اب یہ نیا طریقہ آ گیا ہو ۔ ایک وکیل کے پیچھے چھپ جائیں اور دوسرے کیلئے کوئی اور آڑ لے لیں ۔ چیف جسٹس نے وکیل سے کہا کہ برخوردار کسی زعم میں نہ رہنا ۔ وکیل جمشید ملک نے کہا کہ مجھے اب تک یہ سمجھ نہیں آرہی کہ میرا قصور کیا ہے، کہاں غلط بیانی کی، ان کو وکیل کرنے کا فیصلہ میری خواہش نہ تھی، بغیر کسی جرم کے مجھے کیوں مائیکرو اسکوپ کے نیچے رکھا گیا؟ ۔

اعتزاز احسن عدالت میں کھڑے ہوئے اور بتایا کہ جمشید ملک درست کہہ رہے ہیں، مجھے بھی ان کا فون آیا تھا کہ انور مجید کی طرف سے وکالت کریں، جمشید ملک کا کام صرف پیغام پہنچانا تھا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وکالت نامے ضروری ہیں، ایڈوکیٹ آن رکارڈ کو جو دستاویز دی اس کی پنجاب فرانزک لیبارٹری سے تصدیق کرا لیں گے ۔ رضاکاظم اور ایڈووکیٹ خالد رانجھا مل بیٹھ کر یہ معاملہ سلجھائیں ۔

ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے بتایا کہ 29 جعلی اکاؤنٹس والوں میں سے ایک طارق سلطان بھی ہیں، اس کو معلوم ہی نہیں ۔ ایک عمیر ولد یاسین ہے جو کچی آبادی میں رہتا ہے اس کے اکاؤنٹ میں کروڑوں روپے آئے، یہ بھی جعلی ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اس کا جواب چاہتے ہیں، جعلی بنک اکاؤنٹس رکھنے والوں کو عدالت میں اپنی حاضری یقینی بنانا پڑے گی، اگر کوئی بیمار ہے تو ایمبولینس میں آجائے ۔ ڈی جی نے بتایا کہ بحریہ ٹاؤن کے زین ملک کی جانب سے 7 ارب 20 کروڑ سو ملین اے ون کمپنی کے اکاؤنٹ میں منتقل کیے گئے ۔ زین ملک کے وکیل خواجہ طارق رحیم پیش ہوئے ۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ زین ملک کہاں ہیں، انھیں کہیں وہ کل پیش ہوں ۔ ڈی جی ایف آئی اے نے بتایا کہ ایف آئی اے کل 12 ہزار 5 سو 60 ملین روپے کی رقوم منتقلی کا تجزیہ کر رہا ہے، مزید انکوائری ہونی ہے ۔ وکیل خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ زین ملک نے یہ رقم بھیجی ہے اور کمپنی کو دی ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر یہ پیسے جعلی اکاؤنٹ میں گئے ہیں اور اس کو پتہ تھا تو پھر کیا ہوگا؟۔ ڈی جی نے بتایا کہ یہ اکاؤنٹس کھلتے تھے اور پیسے نکوالنے کے بعد بند کر دیے جاتے تھے ۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ اے ون کمپنی کا اکاؤنٹ کس کا ہے؟ ڈی جی نے بتایا کہ جعلی ایڈریس ہے، گارمنٹس کی ایک چھوٹی سی دکان ہے، ساڑھے چار ارب روپے طارق سلطان کے اکاؤنٹ میں منتقل ہوئے جس پر ایف آئی آر درج ہے۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ ایف آئی اے اتنی سست روی سے تحقیقات کیوں کرتا رہا؟ ۔ ڈی جی نے بتایا کہ سمٹ بنک کے صدر مطلوبہ رکارڈ فراہم نہیں کر رہے تھے، عدالت کے سوموٹو کے بعد رکارڈ ملا ۔ دس ہزار بنک ٹرانزیکشن ہیں ان کی چھان بین کرنا ہے، عدالت ایف بی آر، ایس ای سی پی، سٹیٹ بنک کو تعاون کی ہدایت کرے اور چارٹرڈ اکاؤنٹ کے علاوہ کارپوریٹ وکیل فراہم کیا جائے تاکہ پیش رفت ہو سکے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیوں نہ اس کیلئے جے آئی ٹی بنا دیں ۔ اسی دوران وکیل فاروق نائیک اپنی نشست اٹھے اور کہا کہ ڈی جی جو رائے دے رہے ہیں یہ قانون کے خلاف ہے، عدالت مجھے 15 منٹ دے تو سمجھا دیتا ہوں ۔ زرداری اور فریال تالپور کے وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ایف آئی اے کی انکوائری نہ کرنے پر ازخود نوٹس لیا جس کے بعد دوبارہ انکوائری شروع کی گئی، یہ میڈیا میں آیا اور بہت سے نام اچھالے گئے، ایف آئی اے کی وجہ سے بدنامی کی جا رہی ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جو نام آئے ہیں وہ اپنا بیان ریکارڈ کرائیں اور اپنے نام کلیئر کرا لیں، اگر ایف آئی اے نے کسی کو بدنام کیا تو اس کے ہر افسر کے خلاف پرچہ کراؤں گا اگر آپ کے دوست سچے ثابت ہوتے ہیں ۔

فاروق نائیک نے کہا کہ منی لانڈرنگ، منی لانڈرنگ لگایا ہوا ہے، کیا یہ اس قانون کے تحت آتا ہے؟ ان کو اختیار نہیں، یہ مقدمہ پہلے سے ہی بنکنگ عدالت میں ہے، ایف آئی اے روز میرے موکل کو بلاتی ہے، کیوں بلاتے ہیں، الیکشن میں عدالت نے حکم دیا کہ نہ بلایا جائے، انہوں نے کہا کہ مفرور ہو گئے، کیا ان کو نہیں معلوم کہ زرداری اور فریال الیکشن لڑ رہے تھے، عدالت نے کہا تھا کہ پری پول رگنگ نہ ہو، ایف آئی اے کی وجہ سے ہمارے خلاف پری پول رگنگ ہوئی، پاکستان کے اندر میرے موکل کے حوالے سے تاثر کیا گیا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تاثر کو چھوڑیں، پاکستان میں تاثر روز بدلتے رہتے ہیں، آپ کہتے ہیں کہ ایف آئی اے کا دائرہ اختیار نہیں ہے بلکہ کسی بھی ادارے کا اختیار نہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ کا اختیار ہے کہ لوگوں کی کرپشن پکڑے، یہ قوم کا پیسہ ہے ۔ وکیل نائیک نے کہا کہ یہ کرپشن ہے نہ منی لانڈرنگ ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا طارق سلطان کے اکاؤنٹ میں پیسے خود گئے؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہ اومنی گروپ کا ہے جس نے 85 ملین کی ٹرانزیکشن کی ہے۔ وکیل نائیک نے کہا کہ یہ میرا 15 ملین کا بزنس ٹرانزیکشن ہے جو زرداری گروپ کو ملا 85 ملین کا نہیں ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ اے ون کے اکاؤنٹ میں کیوں جمع کرائے؟ ۔ وکیل فاروق نائیک بولتے رہے کہ میری سن ہی نہیں رہے، میری سن لیں، میری بھی سن لیں، زرداری گروپ کے خلاف 30 ملین ٹرانزیکشن کا کیس بنایا جا رہا ہے، یہ اویس مظفر کو دی گئی رقم ہے ۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ اس اویس مظفر کا عرف کیا ہے؟ وکیل نے جواب دیا کہ ٹپی ۔

فاروق نائیک نے بتایا کہ ابتدائی طور پر دو اشخاص کے خلاف دھوکا دہی کا مقدمہ درج کیا گیا جن کا تعلق اومنی گروپ سے ہے ۔ پھر لوطہ اور حسین لوائی کے خلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہ بنایا گیا ۔ جسٹس عمر عطا نے پوچھا کہ کیا یہ دونوں ایف آئی آرز معاملے کے سارے فوجداری رخ کو سمیٹی ہیں؟ یہ اربوں روپے کا معاملہ ہے، اس ملک کا غریب آدمی بلواسطہ ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے اور دوسری طرف بڑے لوگ ٹیکس قوانین سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔

چیف جسٹس نے وکیل فاروق نائیک کو مخاطب کر کے کہا کہ یہ پاکستان ہے، پاک ملک ہے، یہ چوری کے پیسے ہیں، یہ ناپاک پیسے ہیں، حرام کے پیسے ہیں اس کیلئے قانون میں سزا دیکھ لیں گے، رشوت کے پیسے بھی ہو سکتے ہیں، آپ سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار کو کس حد تک محدود کر سکتے ہیں ۔ وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ معاملہ بنکنگ کورٹ میں ہے، چالان پیش ہو چکا، میں اب صرف ٹرائل کورٹ کو جوابدہ ہوں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مل ملا کر اگر تفتیش کرا لی جائے، مل ملا کر کیس چلا لیا جائے تو کیا پھر بھی ہم نہ پوچھیں ۔ وکیل نے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں، آرٹیکل 13 موجود ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس کو بھی دیکھ لیں گے ۔

عدالت میں سمٹ بنک کی سابق خاتون ملازمہ پیش ہوئیں اور بتایا کہ مجھے بنک کی نوکری اختیار کئے پانچ ماہ ہوئے تھے جب میرے نام پر اکاؤنٹ کھولے گئے، ہمیں کوئی ٹریننگ نہیں دی گئی تھی۔ اکاؤنٹ کھولنے کے بعد لگتا تھا کہ ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ دو دن قبل دن گیارہ بجے میرے گھر پولیس آئی اور رات بارہ بجے تک ہراساں کرتے رہے، میرا دو ماہ کا بچہ ہے ۔ چیف جسٹس نے زرداری کے وکیل فاروق نائیک سے کہا کہ یہ چوری کا مال ہے، چوری کا پیسہ ہضم نہیں کرنے دیں گے، یہ میں بہت اونچی آواز میں کہہ رہا ہوں ۔ فاروق نائیک نے کچھ بولنے کی کوشش کی تو چیف جسٹس نے کہا کہ بھائی صاحب، اتنا پریشان کیوں ہو رہے ہیں ۔ وکیل نے کہا کہ میں پریشان نہیں ہوں ۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کون ہے کہ انور مجید؟ ۔ فاروق نائیک نے کہا کہ میرا اس سے تعلق نہیں زرداری کا وکیل ہوں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے سب پتہ ہے، انور مجید سے آپ کے تعلقات بھی میرے سامنے ہیں ۔ وکیل نے جواب دیا کہ میرے بہت سے لوگوں سے تعلقات ہوں گے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ان معصوم لوگوں کا قصور کیا ہے ان کو پولیس کیوں تنگ کر رہی ہے؟ ۔

وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ اس میں میرے مؤکل کا کیا قصور ہے، پولیس کے تنگ کرنے سے ہمارا تعلق نہیں ۔ خاتون نے عدالت میں پھر دہائی دی تو چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے اطلاع ہے کہ وہ کون سی پولیس تھی، کس نے بھیجی تھی، سب پتہ ہے، اگر سندھ پولیس نے ایسا کیا ہے تو دیکھ لیا جائے گا ۔ وکیل نے کہا کہ سندھ پولیس نے ایسا کچھ نہیں کیا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ متعلقہ اے ایس پی سے رابطہ کریں ۔ عدالت کو بتایا کہ متعلقہ ایڈیشنل آئی جی مشتاق احمد آ گئے ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے جب اطلاع ملی تو اپنے رجسٹرار کے ذریعے آئی جی سے کہا کہ ان کو روکیں ۔ مشتاق احمد نے بتایا کہ جب رجسٹرار نے فون کیا تو معاملے کو علم ہوا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کل اس سارے تھانے کو بلا لیں ۔ مشتاق احمد، آپ لوگ تو بالکل بے بس ہو گئے ہیں، آپ کیلئے بڑے لوگوں کے خلاف کارروائی ممکن نہیں، میرے نوٹس میں دو دن پہلے آیا اور سندھ پولیس کے اعلی افسران کو علم ہی نہیں ۔ بتایا جائے اس خاتون کے خلاف کون سا مقدمہ ہے جو اس کے گھر گئے؟ ۔ ایڈیشنل آئی جی نے کہا کہ جس افسر کی بدنیتی ثابت ہوئی اس کو سزا دیں گے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کل صبح آپ کا پورا تھانہ یہاں حاضر ہونا چاہئیے ۔ آئی جی کو بھی حاضر ہونا چاہیئے، آپ حکومت کے ملازم ہیں یا ریاست کے؟ آپ کا تعلق کہاں سے ہے؟۔ مشتاق احمد نے بتایا کہ شکار پور سے تعلق ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس لئے ۔ جسٹس عمر عطا نے کہا کہ آپ کا شہریوں کے ساتھ یہ رویہ ہے ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پولیس اہلکاروں نے خاتون کو ہراساں کرتے ہوئے بتایا تھا کہ آپ کی گرفتاری کا حکم ہے ہم تو آپ پر مہربانی کر رہے ہیں ۔ جسٹس عمر عطا نے کہا کہ بغیر کسی مقدمے کے اس طرح لوگوں کے گھروں میں چلے جاتے ہیں ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کو بلائیں، اس ایڈیشنل اور اس کے آئی جی دونوں کو ہٹائیں ۔ خاتون نے عدالت کو بتایا کہ پولیس کی وجہ سے میرے بنک ایچ بی ایل نے مجھ سے استعفا لے لیا، مجھے کہا گیا کہ آپ کی شہرت ایسی ہے کہ اس بنک میں مزید ملازمت نہیں کر سکتیں، ایک فون آیا اور کہا گیا کہ آرمی سے صوبیدار بات کر رہا ہوں اپنی انکم بتائیں ۔ میں نے کہا کہ مجھے سرکاری نمبر سے فون کریں جس کے بعد کال نہیں آئی ۔ میری اس عدالت سے درخواست ہے کہ مجھے اس کیس سے باہر نکالیں اور میری نوکری بحال کرائیں تاکہ میں نارمل زندگی کی طرف لوٹ سکوں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایچ بی ایل کا کوئی وکیل موجود ہے تو ان کی انتظامیہ سے بات کر لے ۔ ساری کی ساری پولیس کے خلاف انکوائری کرائیں گے ۔ پولیس اسٹیٹ بنا دی ہے ۔

 

عدالت میں ایک اور خاتون نے دہائی دی کہ ہم لوگ تو بہت غریب ہیں ہمارے پاس عدالت آنے کے پیسے نہیں ہیں، بس پر لاہور سے یہاں آئی ہوں، میرا ان اکاؤنٹس سے کوئی لینا دینا نہیں ۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ ان کے نام پر کتنے پیسے اکاؤنٹ میں گئے؟ ڈی جی ایف آئی اے نے بتایا کہ ایک ارب سات کروڑ 50 لاکھ روپے تھے جو ابراہیم لنکرز کے نام پر اکاؤنٹ ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فاروق نائیک کہتے ہیں انکوائری نہ کرائیں،آپ کا اختیار نہیں، سپریم کورٹ ملک کو کھانے والوں کے خلاف کارروائی نہ کرے، پاکستان کو لوٹ کر چلے جائیں ۔ فاروق نائیک نے اپنی نشست سے اٹھ کر بات کرنا چاہی تو چیف جسٹس نے کہا کہ جب میں بول رہا ہوں تو پلیز نہ بولیں ۔ کسی نے کمرہ عدالت سے باہر جاتے ہوئے یہ کہا کہ چیف جسٹس جہاں ہاتھ ڈال رہا ہے اسے پتہ نہیں ہے اس کے بعد اس کے ساتھ کیا ہونا ہے، یہ باتیں ہمیں بھی معلوم ہیں، میں کسی سے ڈرتا نہیں ہوں ۔ خاتون نے کہا کہ مجھے اس کیس سے ریلیز کر دیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آئندہ جب بھی آپ کی ضرورت ہوئی آپ ریاست کے خرچے پر آئیں گی ۔

عدالت میں ایک نوجوان نے بتایا کہ لکی انٹرنیشنل کے نام سے میرا اکاؤنٹ کھولا گیا جس میں 8 ارب روپے منتقل ہوئے، میں تو اتنی رقم کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔ چیف جسٹس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ اللہ نے تمہیں دی ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ چھپر پھاڑ کے دیتا ہے ۔ مگر اس کے بعد وہ تم سے کوئی چوری کر کے لے گیا ۔ اس پر عدالت میں بیٹھے لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ پھیل گئی ۔ اسی مسکراہٹ اور مذاق کے انداز میں چیف جسٹس نے کہا کہ وہ جے آئی ٹی بنا دیتے ہیں جو میاں نواز شریف کے کیس میں تھی، بیلنس کر دیتے ہیں، وہی لوگ ہوں گے، ان کیلئے تھے ان کیلئے بھی ہوں گے ۔ زین ملک کے وکیل کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا کہ کیوں خواجہ صاحب ٹھیک ہے؟

ڈی جی ایف آئی اے نے بتایا کہ عدالت دیکھ رہی ہے ہمارے گواہوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے، ان کو ہراساں کیا جا رہا ہے اور ان کے پاس عدالت آنے کا کرایہ نہیں ۔ یہ 35 ارب نہیں اس سے زیادہ کا معاملہ ہے مگر اس کی انکوائری کرانے کیلئے ایک کروڑ روپے چاہئیں ۔ یہ چاہتے ہیں اس عدالت کا سوموٹو ختم ہو جائے اور کیس بنکنگ کورٹ میں ہی چلے وہاں پندرہ بیس سال لگ جائیں گے، اس دوران گواہ خود ہی بھاگ جائیں گے ۔

جاری ہے

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے