متفرق خبریں

تڑکا، جے آئی ٹی اور وضاحت

اگست 16, 2018 2 min

تڑکا، جے آئی ٹی اور وضاحت

Reading Time: 2 minutes

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران وضاحت کی ہے کہ گزشتہ روز ان سے منسوب جے آئی ٹی کی بات درست طور پر نشر اور شائع نہیں ہوئی ۔ انہوں نے کہا ہے کہ جے آئی ٹی سے مراد ان کی ڈان لیکس تحقیقات ٹیم تھی ۔

بھارتی شہری کی پاکستانی خاتون سے شادی کے بعد ویزہ اور پاکستان میں رہائش کے مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے میڈیا کے نمائندوں کو مخاطب کر کے کہا کہ گزشتہ روز جے آٹی ٹی کا ریفرنس دیا تھا وہ ڈان لیکس کی تھی، ممکن ہے وضاحت کرتے ہوئے مجھ سے غلطی ہوگئی ہوگی، یہ تصحیح کریں، کسی دوست کو شاید مجھ سے زیادہ محبت ہے ۔

پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق عدالت میں بیٹھے ایکسپریس اور سما ٹی وی کے رپورٹرز نے کہا کہ ہم نے ڈان لیکس ہی چلایا تھا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ دی نیوز نے غلط خبر شائع کی ہے اور جنگ نے بھی ۔ جنگ والے کدھر ہیں؟ ۔ روزنامہ جنگ کے رپورٹر نے نشست سے اٹھ کر کہا کہ معافی چاہتے ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تھپڑ مار کر معافی مانگ لیتے ہیں، یہ وطیرہ بن گیا ہے ۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جنگ اور دی نیوز ہمیشہ اس طرح کرتے ہیں اور جان بوجھ کر کرتے ہیں، اگلے دن معافی مانگتے ہیں، بات کا بتنگڑ بنا دیا، یہ جان بوجھ کر ہوا ۔ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ جنگ اور دی نیوز جان بوجھ کر عدالتی رپورٹنگ میں اس طرح کرتے ہیں، اگر اسی طرح کرنا ہے تو یہاں نہیں آنے دوں گا، اگر کوئی کہتا ہے کہ یہ میڈیا کی آزادی کے منافی ہے تو پھر ہم بتا دیں گے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ممکن ہے کہنے میں مجھ سے غلطی ہوگئی ہو ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جیو نیوز نے رات کو اس پر پروگرام بھی کر دیا ۔

یاد رہے کہ چند روز قبل چیف جسٹس نے جعلی بنک اکاؤنٹس کیس میں جے آئی ٹی بنانے کا عندیہ دیا تھا ۔ اس دوران ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل نے پوچھنے پر بتایا تھا کہ پچھلی جے آئی ٹی میں ایم آئی اور آئی ایس آئی کے نمائندے بھی تھے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ان کی ضرورت نہیں شاید وہ تڑکا لگانے کیلئے شامل کئے گئے ہوں گے ۔

اس کے بعد گزشتہ روز چیف جسٹس نے کہا تھا کہ یہ نمائندے نواز شریف اور چوھری نثار کی جے آئی ٹی میں بھی تھے (ان کی مراد ڈان لیکس تحقیقاتی کمیٹی تھی) تاہم گزشتہ روز اس پر چودھری نثار کی وضاحت سامنے آئی کہ پانامہ جے آئی ٹی سپریم کورٹ کے حکم پر بنائی گئی تھی ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے