کالم

کیسا آغاز ہے

اگست 18, 2018 3 min

کیسا آغاز ہے

Reading Time: 3 minutes

اظہر سید

نومنتخب وزیراعظم نے اعلان کیا ہے کسی کو این آر او نہیں ملے گا انہوں نے کینٹنر دھرنے اور ڈاکو کے الفاظ اسی طرح استمال کئے جیسے اپوزیشن لیڈر کے طور پر استمال کرتے تھے ۔تبدیلی کا بہت مایوس کن آغاز ہے عمران خان کو کم از کم ایک سال ملنا چاہے تاکہ مدینہ کی مثالی ریاست کےدکھائے گئے خواب کی تعبیر مل سکے۔ ایوان میں پہلے روز جو تقریر کی گئی وہ نومنتخب وزیراعظم کے بلند آہنگ دعووں جس کا تکرار وہ گزشتہ پانچ سال سے شدت کے ساتھ کرتے رہے ان سے مطابقت نہیں رکھتی تھی۔عمران خان کو سمجھ لینا چاہیے وہ اب وزیراعظم ہیں اپوزیشن لیڈر نہیں ہیں ۔
وہ وزیراعظم منتخب ہو چکے ہیں اس انتخاب میں میڈیا کا کردار کیا تھا عدالتوں نے کیا فیصلے کئے ۔نئے وزیراعظم کے انتخاب کو ممکن بنانے کیلئے میاں نواز شریف اور انکی بیٹی کے ساتھ ریاستی اداروں نے کیا سلوک کیا۔تحریک انصاف کی کامیابی کیلئے انتخابی نتایج میں پراسرار تاخیر کیسے ہوئی ۔مذہبی جماعتیں کس نے بنائی ۔مسلم لیگ ن کے ٹکٹ حاصل کرنے والے امیدواروں کو کس نے ٹکٹ واپس کرنے پر مجبور کیااور مسلم لیگ ن میں فارورڈ بلاک کس نے بنایا یا بنوایا اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو ججوں نے نواز شریف کے مقدمات کے حوالہ سے کن تحفظات کا اظہار کیا اور پھر پاکستان پیپلز پارٹی کا بازو کس قوت کے اشارے پر مروڑا گیا یہ تمام سوالات تاریخ کے سپرد کرتے ہیں ۔
عمران خان جن حالات میں وزیراعظم بنے ہیں وہ معاشی ابتری کے حالات ہیں ۔منی لانڈرنگ کے حوالہ سے عالمی ٹاسک فورس نے پاکستان کو درکار اقدامات کی فہرست فراہم کر دی ہے ۔امریکی پاکستان سے شدید ناراض ہیں تمام فوجی تربیتی پروگرام منسوخ ہو چکے ہیں ۔سی پیک پر کام بند ہے اور افغانستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات پر افغان حکام کی پاکستان پر الزام تراشی پھر شروع ہو چکی ہے ۔
اب جب پاکستان کو ادائیگیوں کے توازن میں نادہندگی کے بھی خدشات ہیں پوری قوم نومنتخب وزیراعظم سے سٹیسٹس مین شپ کی توقع رکھتی تھی ۔وہ مستقبل کا پروگرام دیتے ملک و قوم کو درپیش خطرات کے حوالہ سے قومی یکجہتی کیلئے اقدامات کا اعلان کرتے لیکن عمران خان کا کہنا تھا آپ دھرنہ دیں گے تو بندے اور کھانا فراہم کیا جائے گا ۔نومنتخب وزیراعظم طعنہ دیتے ہیں میرا دھرنہ چار ماہ کا تھا آپ ایک ماہ کا کر کے دکھائیں ۔
این آر او کی بات تو تب کی جاتی جب اپنا دامن صاف ہوتا کاش نومنتخب وزیراعظم اعلان کرتے احتساب میرے گھر سے شروع ہو گا اور گزشتہ چار سال سے عدالتوں اور الیکشن کمیشن میں زیر سماعت پارٹی فنڈنگ کیس میں اب کوئی التوا نہیں لیا جائے گا اور فوری طور پر تمام غیرملکی فنڈنگ کے حسابات الیکشن کمیشن کو دئے جا رہے ہیں ۔کاش نومنتخب وزیراعظم اپنی بہن کے نام دوبئی میں اربوں روپیہ کی جائیداد کے الزامات کی تحقیقات کا اعلان کرتے لیکن افسوس نو منتخب وزیراعظم کی تقریر ایک اپوزیشن لیڈر کی تقریر تھی ایک قومی راہنما کی تقریر ہر گز نہیں تھی ۔بلاول بھٹو نے پارلیمنٹ میں اپنی پہلی تقریر میں ثابت کر دیا کہ وہ بھٹو کا نواسہ اور بینظیر بھٹو کا بیٹا ہے ۔ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات کا محاورہ شاید بلاول بھٹو ایسے نوجوانوں کیلئے بنا تھا۔
پاکستان کو ادائیگیوں کے توازن کیلئے 12 ارب ڈالر کے اضافی وسائل درکار ہیں ۔سعودی عرب سے موخر ادائیگیوں پر پیٹرولیم مصنوعات مل جائیں تو تین چار ارب ڈالر کا ریلیف مل سکتا ہے۔عوامی جمہوریہ چین مدد کرے تو مزید تین چار ارب ڈالر مل سکتے ہیں اگر یہ مالی معاونت مل جائے پھر بھی پانچ چھ ارب ڈالر کیلئے آئی ایم ایف پروگرام درکار ہو گا ۔ملکی معیشت کے جو حالات ہے دیگر عالمی مالیاتی ادارے عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک بھی ماضی کی طرح آئی ایم ایف سے صحت یابی کے سرٹیفکیٹ کی شرط عائد کر کے پہلے سے جاری مختلف منصوبوں کی پروگرام لینڈنگ روک سکتے ہیں ۔آئی ایم ایف پروگرام کیلئے امریکی حمایت اولین ضرورت ہے اور امریکی وزیر خارجہ اپنا انکار پہلے ہی ظاہر کر چکے ہیں ۔
پاکستان کی برآمدات میں اضافہ کا رجحان شروع ہو چکا ہے اور سی پیک منصوبوں کی درآمدات جو تجارتی خسارہ کا ایک بڑا سبب تھیں ان میں بھی رواں مالی سال کمی آئے گی ۔نومنتخب وزیراعظم اگر دھمکیاں دینے کی بجائے تمام سیاسی جماعتوں کی لیڈر شپ کے ساتھ گول میز کانفرنس کا اعلان کرتے اور نو منتخب وزیراعظم کی قیادت میں تمام سیاسی قیادت بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے مدد کی اپیل کرتی تو معاشی بحران اور ادائیگیوں کے توازن کے چیلنجز سے نپٹا جا سکتا ہے بیرون ملک مقیم پاکستانی با آسانی ملک کو آئی ایم ایف پروگرام سے بچا سکتے ہیں ۔جہاں تک سوئٹزر لینڈ میں پاکستانیوں کے 200 ارب ڈالر کا تعلق ہے تو یہ ایک فراڈ تھا جو میاں نواز شریف کی حکومت کو بدعنوان ثابت کرنے کیلئے سب نے مل کر کیا تھا یہاں اگر پاکستانیوں کا ایک ارب ڈالر بھی مل جائے تو ہم سمجھتے ہیں بڑی بات ہو گی۔
اگر تبدیلی لانی ہے تو سب کو مل کر چلنا ہو گا اور نو منتخب وزیراعظم کی ذمہ داری ہے کہ وہ سب کو اپنے ساتھ ملا کر قومی مسائل کے حل کی طرف بڑھیں لیکن قومی اسمبلی میں کی گئی نومنتخب وزیراعظم کی پہلی تقریر سے تبدیلی کی کوئی جھلک نظر نہیں آئی۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے