کالم

وزیراعظم کا خطاب اور

اگست 21, 2018 4 min

وزیراعظم کا خطاب اور

Reading Time: 4 minutes

اتوار کی رات وزیر اعظم عمران خان صاحب نے اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد پہلی بار قوم سے روایتی خطاب نہیں بلکہ گفتگو کی ہے ۔ اپنی بے ساختگی کے سبب یہ مکالماتی انداز دیکھے اور سننے والوں کو بہت بھاتا ہے۔ متعارف اس انداز کو معاشی بحران کے ایک دور میں جسے Great Depression بھی کہا جاتا ہے امریکی صدر روز ویلٹ نے 1932میں کروایا تھا ۔
برسوں تک پھیلی کساد بازاری اور بے روزگاری کی وجہ سے بے حد مایوس وپریشان ہوئے امریکی عوام کو اس انداز کے ذریعے اُمید دلائی گئی۔ تقریباََ ہر ماہ امریکی صدر مائیک کے سامنے بیٹھ کر بغیر کسی تحریری متن کے اپنے دل کی باتیں بیان کرتا۔ ریڈیو پر یہ باتیں Liveسنائی جاتیں۔ انہیں Fireside Chats کا عنوان دیا گیا۔
روز ویلٹ کی گفتگو سے محسوس یہ ہوتا جیسے وائٹ ہائوس میں بیٹھا ایک طاقت ور صدرنہیں بلکہ گھر کا کوئی شفیق بزرگ انگیٹھی پر ہاتھ تاپتے ہوئے پریشان بچوں کو سردیوںکی اداس راتوں میں حوصلہ دے رہا ہ ے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی بھی اس روایت کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ ’’من کی بات‘‘ کے نام سے وہ بھی ایسی ہی گفتگو اپنے سرکاری ریڈیو کے ذریعے بہت باقاعدگی سے کرنے کا عادی ہے ۔
عمران خان صاحب نے یہ انداز اپنا کر پاکستان میں یقینا ایک نئی روایت ڈالی ہے ۔ اس کا خیرمقدم کرتے ہوئے ہمیں اس بات کو بھی سراہنا ہوگا کہ اپنی ڈیڑھ گھنٹے تک پھیلی تقریر کے دوران وزیراعظم نے پاکستان کو درپیش تقریباََ ہر بنیادی مسئلے کا بہت تفصیل سے ذکر کیا ہے ۔
اس تفصیلی ذکر کی بنیاد پر لیکن ان کے مداحین کا یہ اصرار بھی جائز نہیں کہ ماضی کے حکمران ان مسائل سے آشنا نہ تھے اور نہ ہی ان کے حل کے لئے خواہاں۔  اتوار کی رات وزیر اعظم کی تقریر سنتے ہوئے میں نے لیپ ٹاپ پر اپنا ٹویٹر اکائونٹ بھی کھول رکھا تھا۔ تحریک انصاف کے کئی ناقدین بھی وہاں خان صاحب کے انداز کو سراہتے پائے گئے ۔
ان کی جانب سے ہوئی تعریف نے مجھے 17 اکتوبر 1999 کی یاد دلادی جب حکومت پر قابض ہونے کے پانچ دن بعد جنرل مشرف نے 7 نکاتی ایجنڈے والی تقریر کی تھی ۔ اس تقریر کابھی ایسا ہی والہانہ خیرمقدم ہوا تھا۔
میری بدقسمتی مگر یہ ہوئی کہ اس تقریر کی شب پاکستان ٹیلی وژن نے مجھے نام نہاد ’’سینئر تجزیہ کاروں‘‘ پر مشتمل اس پینل میں بٹھا رکھا تھا جسے اس تقریر کے فوری کے بعد ردعمل دینا تھا ۔ نسیم زہرہ اور اردشیر کائوس جی بھی اس پینل میں شامل تھے ۔ ارد شیرنے اپنے مخصوص انداز میں ’’پارسی اُردو‘‘کو آکسفورڈ والی انگریزی سے ملاتے ہوئے لوگوں کو اُمید دلانا شروع کر دی کہ جنرل مشرف بدعنوان سیاست دانوں کو ہرگز معاف نہیں کریں گے ۔ میں خود پر قابو نہ رکھ پایا۔ یاد دلانے کو مجبور ہوگیا کہ ایوب خان کے مارشل لاء کے نفاذ کے بعد بھی ایسی ہی امید دلائی گئی تھی۔ خدارا اس قوم پر رحم کریں ۔ اسے یہ امید نہ دلائیں کہ ’’قوم کی دولت لوٹنے والوں کو ‘‘ جلد ہی چوکوں میں الٹا لٹکا کر بدعنوانی سے جمع کی ہوئی رقوم قومی خزانے میں لوٹانے پر مجبور کیا جائے گا۔
وزیراعظم عمران خان صاحب کے پہلے خطاب کو بغور سننے کے بعد اس کے انداز اور بے ساختہ خلوص کو سراہتے ہوئے بھی میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ امید انہوں نے بھی قوم کو کچھ ایسی ہی دلائی ہے۔ میرا ماتھا تو اسی وقت ٹھنکا تھا جب اپنی کابینہ کا اعلان کرتے ہوئے وزارتِ داخلہ انہوں نے اپنے پاس ہی رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اتوار والی تقریر میں انہوں نے اعلان کیا کہ یہ وزارت انہوں نے اپنے پاس اس لئے رکھی ہے کیونکہ FIA اس کے ماتحت ہے۔ یہ محکمہ ان دنوں منی لانڈرنگ کے ایک بہت شہرت یافتہ سکینڈل کی تفتیش کر رہا ہے ۔ ایک معروف بینکر حسین لوائی اس ضمن میں اس کی قید میں ہے۔
سپریم کورٹ کی معاونت سے FIA نے انور مجید اور ان کے بیٹے کو بھی گرفتار کرلیا ہے۔ یہ دونوں صاحبان آصف علی زرداری کے فرنٹ مین سمجھے جاتے ہیں۔ اسی باعث آصف علی زرداری اور فریال تالپور بھی عدالتوں سے حفاظتی ضمانتیں کروانے پر مجبور ہورہے ہیں۔
اپنے اتوار والے خطاب کے ذریعے وزیر اعظم عمران خان نے یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ براہِ راست ایف آئی اے کی منی لانڈرنگ وغیرہ کے حوالے سے ہوئی تفتیش کی نگرانی وسرپرستی کریں گے۔ میں اس تقریر کے بعد آصف علی زرداری کی گرفتاری کا منتظر ہوں۔ وجہ اس کی خاں صاحب کی جانب سے ہمیں اس بات پر تیار کرنا تھا کہ منی لانڈرنگ کے الزام میں FIAجب کچھ لوگوں کو گرفتار کرے گی تو بہت شور مچے گا۔ لوگ ان گرفتاریوں کو جمہوریت کو کمزور کرنے کی سازش وغیرہ کہیں گے۔ خاں صاحب مگر معاف نہ کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔
مجھے کامل یقین ہے کہ وزیراعظم کی براہِ راست آشیر باد کی بدولت FIA نے جب آصف علی زرداری پر ہاتھ ڈالا تو محض تحریک انصاف کے ووٹر ہی نہیں ہماری مڈل کلاس کی اکثریت بھی واہ واہ پکارنے پر مجبور ہو جائے گی۔ آنے والے کئی دنوں تک ٹی وی سکرینوں پر رونق لگی رہے گی۔ قومی خزانے میں لیکن اس کی وجہ سے بالآخر کوئی رقم نہیں آئے گی۔
منی لانڈرنگ کے حوالے سے توجہ اگر صرف آصف علی زرداری اور موصوف کے مبینہ سہولت کاروں اور فرنٹ مین تک ہی محدود رہی تو چند ماہ گزر جانے کے بعد احتساب سیاسی انتقام میں بدلتا نظر آئے گا۔ اس کی وجہ سے سندھ حکومت وفاقی حکومت کیساتھ ’’متھا‘‘ لگانے پر مجبور ہوجائے گی۔ ویسے بھی اسے وفاقی کابینہ میں ایم کیو ایم کے دو وزیروں کی شمولیت نے چونکا دیا ہوگا۔ بہت اشتعال اس امر پر بھی آیا ہوگا کہ پیپلز پارٹی سے ناراض ہو کر GDA میں گئی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کو بھی اس کابینہ میں شامل کیا گیا ہے۔ محکمہ انہیں جو ملا ہے اس کے ذمے صوبوں کے وفاقی حکومت سے روابط کو مضبوط بنانا ہے ۔ ڈاکٹر فہمیدہ صاحبہ کی جانب سے مراد علی شاہ سے ہوئے ’’رابطے‘‘ کیا گل کھلائیں گے اسے سوچتے ہوئے دل پریشان ہوجاتا ہے ۔
وزیراعظم کے پہلے خطاب سے اگرچہ میرا بنیادی گلہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے انہوں نے خارجہ پالیسی کے بارے میں اپنے ذہن میں موجود خیالات کا اظہار نہیں کیا۔ ہمارے کئی دوست اور دشمن ممالک بہت بے چینی سے ان کے خیالات کے منتظر ہوں گے۔
ہماری ریاست کے محاصل اور اخراجات کے مابین بڑھتے فرق کی وجہ سے غیر ملکی قرضوں کے بڑھتے بوجھ کے بارے میں وزیراعظم بجا طور پر پریشان تھے ۔ اس پریشانی کا حل موجود ہے مگر دور رس اقدامات کا طالب۔ فوری سوال یہ ہے کہ فی الوقت اپنی معاشی مشکلات میں کچھ کمی کے لئے عمران حکومت IMF سے کسی Bailout کے لئے رجوع کرے گی یا نہیں۔ بہتر ہوتا کہ واضح انداز میں وزیراعظم اس ضمن میں بھی کچھ Commit کر دیتے ۔

بشکریہ نوائے وقت

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے