پاکستان پاکستان24

سپریم کورٹ: ارشد شریف کی سخت سرزنش

اگست 29, 2018 4 min

سپریم کورٹ: ارشد شریف کی سخت سرزنش

Reading Time: 4 minutes

سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے گزشتہ رات اے آر وائے کے پروگرام پاور پلے میں آصف زردای کے بیان حلفی پر مباحثے کرانے کا سخت نوٹس لیا ہے ۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے اینکر ارشد شریف کی سخت سرزنش کی اور کہا کہ کس طرح آپ ٹی وی پر عدالت لگا سکتے ہیں جب مقدمہ زیر التوا ہے، آپ کے پاس میڈیا ہے تو اس طرح لوگوں کی پگڑیاں اچھالیں گے، پھر کہتے ہیں کہ مجھے صبح سپریم کورٹ بلا لے، بلا لیا ہے آپ کو اب بتائیں جو رات آپ بڑے غرور سے کہہ رہے تھے ۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے کہا کہ گزشتہ رات اے آر وائی کے اینکر ارشد شریف نے زیر سماعت مقدمے پر پروگرام کیا تھا، میں نے رات کچھ دوستوں کو آنے کی درخواست کی تھی ۔ عدالت میں وزیر اطلاعات فواد چودھری، سینٹر مصطفی کھوکھر اور ٹی وی اینکر روسٹرم پر آئے ۔ اینکر نے کہا کہ میرا نام ارشد شریف ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ رات کو کیا باتیں کررہے تھے، زیر سماعت مقدمے پر کیوں پروگرام کیا گیا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مصطفیٰ کھوکھر آپ کو تبصرہ کرنے سے روکتے رہے، آپ نے مصطفیٰ کھوکھر کی بات بھی سنی ۔ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ اسپانسر پروگرام تھا؟ کسی کے کہنے پر کیا تھا؟ پیمرا اس کی بھی تحقیق کرے، ہم بھی تحقیق کرائیں گے ۔

عدالت میں پیمرا کے چیئرمین اور سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے بھی اپنا مؤقف پیش کیا ۔ ارشد شریف نے کچھ بولنے کی کوشش کی تو چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو قانون کا پتہ ہے؟ کس طرح ایسے مباحثے کرا سکتے ہیں، قانون کی تعلیم حاصل کی ہے؟ ۔ آپ نے عدالت کا کام ہاتھ میں کیوں لیا؟ سب میڈیا ہاؤسز کو بلاؤں گا ۔ پیمرا نے ایکشن کیوں نہ لیا؟ ۔ چیف جسٹس نے پیمرا کے چیئرمین کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ کو بھی پروگرام دیکھتے ہوئے محسوس ہوا تھا نا؟ ۔

پیمرا کے چیئرمین نے جواب دیا کہ ہمارے پاس تین طرح کے اختیارات ہیں، پہلے ہم ایڈوائزری جاری کرتے ہیں، پھر نوٹس دیتے ہیں اور بعض معاملات میں براہ راست شوکاز نوٹس جاری کر دیتے ہیں ۔ ابھی ہم نے اے آر وائے کو اس پروگرام پر ایک نوٹس جاری کیا ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتوں میں زیر التوا مقدمات پر کیسے اس طرح کے پروگرام کئے جا سکتے ہیں؟ نواز کھوکھر (چیف جسٹس مصطفی نواز کی بجائے نواز کھوکھر ہی کہتے رہے) بار بار کہتے رہے کہ یہ معاملہ زیر التوا ہے مگر پھر بھی بولتے رہے ۔ چیف جسٹس نے اینکر ارشد شریف کو جھاڑتے ہوئے کہا کہ آپ کا اس معاملے سے کیا تعلق ہے، آپ کوئی جج ہیں؟ عدالت ہیں؟ حد کر دی ہے آپ نے ۔ دکھائیں ہمیں کس قانون کی کتاب میں لکھا ہے؟ میڈیا کی اخلاقیات میں دکھا دیں کہاں ہے؟ آپ ہوتے کون ہیں اس طرح پروگرام کرنے والے؟ میں آپ کے پروگرام پر پابندی لگا رہا ہوں ۔

ارشد شریف نے کہا کہ سوال پوچھنا صحافت کا بنیادی کام ہے اور بطور صحافی ہم حقائق جاننے کیلئے سوال پوچھتے ہیں ۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ معاملے کو اسکینڈلائز نہیں کیا جا سکتا۔ سوال پوچھا جا سکتا ہے ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہ میڈیا ٹرائل کیا گیا، ٹرائل صرف عدالت میں ہوتا ہے، اگر کوئی چیز ہے تو عدالت میں لائیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ دنیا کا کوئی قانون دکھا دیں، قانون کو چھوڑیں یہ بتائیں کون سی صحافت کی کتاب میں پڑھا ہے؟ یہ عدالتی امور میں مداخلت ہے ۔

چیف جسٹس نے ارشد شریف کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ پروگرام میں کہتے رہے کہ مجھے چیف جسٹس بلا لیں، بلا لیا ہے آپ کو اب بتائیں کیا کہنا ہے، بڑے مغرور انداز سے ٹی وی پر بات کر رہے تھے ۔ آپ سے پہلے شاہد مسعود نے بھی کہا تھا کہ مجھے بلا لیں، ان کے ساتھ کیا ہوا، اب آپ آ گئے ہیں ۔

اینکر ارشد شریف نے کہا کہ میرے پاس آصف زرداری کا بیان حلفی تھا اس پر بات کی اور نشاندہی کی کوشش کی ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بیان حلفی میرے پاس بھی ہے، مجھے پتہ ہے کیا کرنا ہے ۔ ارشد شریف نے کہا کہ صحافی کے طور پر میرا کام لوگوں کو آگاہ کرنا ہے، میں نے بیان حلفی میں غلطی/بے قاعدگی دکھانا تھی ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وہ ایک پارٹی کے سربراہ ہیں، ہم ان کا مقدمہ چلا رہے ہیں اور آپ ان کے خلاف اس طرح پروگرام کر رہے ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مصطفی کھوکھر آپ سے درخواست کر رہے تھے کہ ایسا نہ کریں، وزیر اطلاعات بھی آپ سے کہہ رہے تھے، آپ باز نہیں آ رہے تھے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اسپانسر پروگرام تھا؟ کسی کے کہنے پر کیا تھا؟ ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پیمرا اس کی بھی تحقیق کرے، ہم بھی اس کی تحقیق کرائیں گے ۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے پیمرا کے چیئرمین سے پوچھا کہ کیا ایسا کوئی میکنزم نہیں ہے کہ کہ ایک توہین آمیز پروگرام چل رہا ہو تو اس کو فوری بند کر دے؟ کیونکہ ایک بار پروگرام چل جائے تو نقصان تو ہو جاتا ہے ۔ پیمرا کے چیئرمین نے کہا کہ ایسا کوئی طریقہ یا نظام موجود نہیں ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وکیلوں کی تنظیموں کا رکن ہونا الگ بات ہے اور وکالت کرنے والا وکیل الگ ہوتا ہے، مصطفی کھوکھر بار کے رکن ہوں گے مگر وکالت نہیں کرتے، اس کا بھی کوئی طریقہ کار وضع کریں گے جو یہ ٹی وی ٹاک شو میں تبصرے کرتے ہیں ۔

عدالت نے پیمرا، پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن کو نوٹس جاری کر کے تحریری مؤقف پیش کرنے کی ہدایت کی جبکہ اینکر ارشد شریف سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی پوزیشن واضح کریں کہ وہ اس طرح کے پروگرام کیسے کر سکتے ہیں اور ایسے سوالات کس قانون کے تحت پوچھے جا سکتے ہیں ۔

 

 

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے