کالم

چیف جسٹس اور اینکر کا مکالمہ

اگست 29, 2018 4 min

چیف جسٹس اور اینکر کا مکالمہ

Reading Time: 4 minutes

سپریم کورٹ سے اے وحید مراد

عدالت عظمی کے کمرہ عدالت نمبر ایک میں ساڑھے نو بجے رپورٹرز اس وجہ سے دوڑتے دوڑتے پہنچے کہ پہلے نمبر پر آصف زرداری کے این آر او کا مقدمہ سنا جائے گا ۔ صرف دو منٹ کی تاخیر سے کمرہ عدالت میں داخل ہوا تو چیف جسٹس سخت غصے میں بولتے سنائی اور دکھائی دیے ۔

پہلا جملہ جو کان میں پڑا وہ یہ تھا کہ ‘صرف اس لئے کہ آپ کے پاس میڈیا ہے تو لوگوں کی پگڑیاں اچھالیں گے’؟ ۔ کچھ سمجھ نہ آیا کہ یہ کون سا مقدمہ ہے کہ فہرست میں تو آج ایسا کوئی کیس سماعت کیلئے مقرر ہی نہ تھا ۔ (بعد میں معلوم ہوا کہ چیف جسٹس نے رات کو زبانی ہدایت کر کے تین شخصیات کو بلایا تھا) اس کے بعد تو چیف جسٹس ایسا بولے کہ اللہ دے اور بندہ لے ۔

غور کیا اور دیکھا تو عدالتی روسٹرم پر وزیر اطلاعات فواد چودھری، چیئرمین پیمرا، پیپلز پارٹی کے سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر اور اے آر وائے کے اینکر ارشد شریف کھڑے چیف جسٹس کو سن رہے تھے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس طرح کی ڈسکشن (مباحثے) کی اجازت کس نے دی؟ کس قانون کے تحت ایسے پروگرام کئے جاتے ہیں، ان (اینکرز) کا تو کچھ نہیں جاتا، انہوں نے تو پگڑیاں اچھالنا ہوتی ہیں ۔

ارشد شریف نے کچھ بولنے کی کوشش کی تو چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو قانون کا پتہ ہے؟ کس طرح ایسے مباحثے کرا سکتے ہیں، قانون کی تعلیم حاصل کی ہے؟ ۔ آپ نے عدالت کا کام ہاتھ میں کیوں لیا؟ سب میڈیا ہاؤسز کو بلاؤں گا ۔ پیمرا نے ایکشن کیوں نہ لیا؟ ۔ چیف جسٹس نے پیمرا کے چیئرمین کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ کو بھی پروگرام دیکھتے ہوئے محسوس ہوا تھا نا؟ ۔

پیمرا کے چیئرمین نے جواب دیا کہ ہمارے پاس تین طرح کے اختیارات ہیں، پہلے ہم ایڈوائزری جاری کرتے ہیں، پھر نوٹس دیتے ہیں اور بعض معاملات میں براہ راست شوکاز نوٹس جاری کر دیتے ہیں ۔ ابھی ہم نے اے آر وائے کو اس پروگرام پر ایک نوٹس جاری کیا ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتوں میں زیر التوا مقدمات پر کیسے اس طرح کے پروگرام کئے جا سکتے ہیں؟ نواز کھوکھر (چیف جسٹس مصطفی نواز کی بجائے نواز کھوکھر ہی کہتے رہے) بار بار کہتے رہے کہ یہ معاملہ زیر التوا ہے مگر پھر بھی بولتے رہے ۔ چیف جسٹس نے اینکر ارشد شریف کو جھاڑتے ہوئے کہا کہ آپ کا اس معاملے سے کیا تعلق ہے، آپ کوئی جج ہیں؟ عدالت ہیں؟ حد کر دی ہے آپ نے ۔ دکھائیں ہمیں کس قانون کی کتاب میں لکھا ہے؟ میڈیا کی اخلاقیات میں دکھا دیں کہاں ہے؟ آپ ہوتے کون ہیں اس طرح پروگرام کرنے والے؟ میں آپ کے پروگرام پر پابندی لگا رہا ہوں ۔

ارشد شریف نے کہا کہ سوال پوچھنا صحافت کا بنیادی کام ہے اور بطور صحافی ہم حقائق جاننے کیلئے سوال پوچھتے ہیں ۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ معاملے کو اسکینڈلائز نہیں کیا جا سکتا۔ سوال پوچھا جا سکتا ہے ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہ میڈیا ٹرائل کیا گیا، ٹرائل صرف عدالت میں ہوتا ہے، اگر کوئی چیز ہے تو عدالت میں لائیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ دنیا کا کوئی قانون دکھا دیں، قانون کو چھوڑیں یہ بتائیں کون سی صحافت کی کتاب میں پڑھا ہے؟ یہ عدالتی امور میں مداخلت ہے ۔

چیف جسٹس نے ارشد شریف کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ پروگرام میں کہتے رہے کہ مجھے چیف جسٹس بلا لیں، بلا لیا ہے آپ کو اب بتائیں کیا کہنا ہے، بڑے مغرور انداز سے ٹی وی پر بات کر رہے تھے ۔ آپ سے پہلے شاہد مسعود نے بھی کہا تھا کہ مجھے بلا لیں، ان کے ساتھ کیا ہوا، اب آپ آ گئے ہیں ۔

اینکر ارشد شریف نے کہا کہ میرے پاس آصف زرداری کا بیان حلفی تھا اس پر بات کی اور نشاندہی کی کوشش کی ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بیان حلفی میرے پاس بھی ہے، مجھے پتہ ہے کیا کرنا ہے ۔ ارشد شریف نے کہا کہ صحافی کے طور پر میرا کام لوگوں کو آگاہ کرنا ہے، میں نے بیان حلفی میں غلطی/بے قاعدگی دکھانا تھی ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وہ ایک پارٹی کے سربراہ ہیں، ہم ان کا مقدمہ چلا رہے ہیں اور آپ ان کے خلاف اس طرح پروگرام کر رہے ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مصطفی کھوکھر آپ سے درخواست کر رہے تھے کہ ایسا نہ کریں، وزیر اطلاعات بھی آپ سے کہہ رہے تھے، آپ باز نہیں آ رہے تھے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اسپانسر پروگرام تھا؟ کسی کے کہنے پر کیا تھا؟ ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پیمرا اس کی بھی تحقیق کرے، ہم بھی اس کی تحقیق کرائیں گے ۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے پیمرا کے چیئرمین سے پوچھا کہ کیا ایسا کوئی میکنزم نہیں ہے کہ کہ ایک توہین آمیز پروگرام چل رہا ہو تو اس کو فوری بند کر دے؟ کیونکہ ایک بار پروگرام چل جائے تو نقصان تو ہو جاتا ہے ۔ پیمرا کے چیئرمین نے کہا کہ ایسا کوئی طریقہ یا نظام موجود نہیں ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وکیلوں کی تنظیموں کا رکن ہونا الگ بات ہے اور وکالت کرنے والا وکیل الگ ہوتا ہے، مصطفی کھوکھر بار کے رکن ہوں گے مگر وکالت نہیں کرتے، اس کا بھی کوئی طریقہ کار وضع کریں گے جو یہ ٹی وی ٹاک شو میں تبصرے کرتے ہیں ۔

عدالت نے اپنے حکم نامے میں پیمرا اور پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن کو نوٹس جاری کرکے مذکورہ پروگرام پر جواب جمع کرانے کی ہدایت کی جبکہ اینکر ارشد شریف کو نوٹس جاری کرکے کہا کہ اپنی پوزیشن واضح کرے کہ کس طرح اس قسم کا پروگرام اور سوالات پوچھے جا سکتے ہیں جب معاملہ عدالت میں ہو ۔

کمرہ عدالت سے باہر نکل کر اینکر ارشد شریف نے سگریٹ سلگا لیا ۔ وزیر اطلاعات نے ان کو دیکھا تو قریب آ کر کہا کہ اب یہ سگریٹ سے نہیں ہوگا ۔ وزیر اطلاعات نے مزاح کرتے ہوئے اینکر کو مشورہ دیا کہ سادے دا کم نئیں، خیبر پختونخوا والوں سے منگوا لیں ۔ (یعنی عام سگریٹ پینے سے غم ہلکا ہونے والا نہیں، پختونخوا سے چرس منگوا کر بھرا ہوا پیا جائے۔)

اس کے بعد کچھ لوگ ارشد شریف کو معافی مانگنے کا مشورہ دیتے ہوئے سنے گئے ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے