کالم

عقل ہے محو تماشا ….

ستمبر 2, 2018 6 min

عقل ہے محو تماشا ….

Reading Time: 6 minutes

مطیع اللہ جان

ہماری پولیس میں سیاسی مداخلت اتنی بڑھ چکی ہے کہ اس کے خاتمے کے لئے اب عدالتی مداخلت کی ضرورت پڑ رہی ہے۔ پولیس کے معاملات میں فوجی مداخلت کا ذکر کرنا تو ویسے ہی ’روز قیادت‘ کو دعوت دینے کے مترادف ھے۔ پاکپتن کے مانیکا خاندان اور پنجاب پولیس کے درمیان تلخی کا معاملہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے ہوتا ہوا چیف جسٹس ثاقب نثار تک آ پہنچا ہے ۔سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران یہ واضح ہوا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے کہنے پر آئی جی پنجاب کلیم امام نے بطور سزا ڈی پی او رضوان گوندل کو عہدے سے ہٹایا۔ پولیس کے معاملات میں ایسی کھلم کھلا سیاسی مداخلت کے بعد چیف جسٹس ثاقب نثار کو بھی مجبوراً معاملہ اپنے ہاتھ میں لینا پڑا۔ سیاستدان عادت سے مجبور ہیں اور عدلیہ بظاہر آئین کی روح کے ہاتھوں۔ تاریخی اعتبار سے ہمارے پیارے ملک پاکستان میں روحوں کو بلانے کی روحانی قوت چند طبقوں کے پاس رہی ھے۔ عدلیہ اور فوج نے جب چاہا آئین کی روح حاضر ہو گئ۔ یہ آئینی اور روحانی قوت ہی ھے کہ چیف جسٹس سیاست اور جرائم کی آتشِ نمرود میں کود پڑے ہیں۔ انکے ساتھی ججز اپنی عقل و دانش کے ہمراہ محوِ تماشہ ہیں لبِ بام ابھی۔

چیف جسٹس نے کراچی کے ایک نجی ہسپتال میں اچانک چھاپا مارا اور پیپلز پارٹی کے قید میں زیر علاج رہنما شرجیل میمن کے وارڈ میں پہنچ گئے۔ کمرے سے تین بوتلیں شراب برآمد کر لی جنہیں لیبارٹری میں معائنے کے لئے بھجوا دیا گیا۔ جب ملک بھر میں پولیس کے اہلکار سیاست دانوں کی نوکریاں کر رہے ہوں گے تو قانون کی حکمرانی کے لئے ایسے چھاپے چیف جسٹس نہیں تو کیا پولیس کے کاکا سپاہی ماریں گے؟ اگر یہ چھاپا پولیس کے کسی حوالدار نے مارا ہوتا تو اب تک ان بوتلوں سے چھوٹی مکھی کا شہد برآمد ہو چکا ہوتا اور خون کے نمونوں کی رپورٹ بھی صاف ستھری آتی ۔ یہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے، ایک اکیلا مردِ حُر چیف جسٹس کیا کیا کرے۔ معاشرے سے شراب کے اس ناسور کے خاتمے کے لئے سپریم کورٹ اور تمام ہائیکورٹوں کے تقریباً ڈیڑھ سو ججوں کو اس نیک کام میں حصہ لینا ہو گا۔ کچھ سال پہلے تک تو کراچی کے کمرشل علاقوں میں ایسی بوتلیں اخباروں میں لپیٹے بہت سے لوگ مخصوص دکانوں سے نکلتے دیکھے جا سکتے تھے۔ اب اگر ہسپتالوں تک یہ "دوائی ” پہنچ چکی ہے تو ایک امامِ دین انصاف نہ کرے ’تے کی کرے۔‘ اس پر تو قائد اعظم اور آئین کی روحیں مل کر تڑپ رہی ہونگی چاہے وجہ اپنی اپنی ہی ہو۔ بس اب دعا ہے کہ شرجیل میمن کے کمرے سے برآمد شدہ بوتلوں میں سے کچھ اور نہ نکل آئے ۔ جس مال کی برآمدگی کے گواہ خود معزز چیف جسٹس آف پاکستان ہوں کسی چھوٹی موٹی عدالت کے جج کی کیا جرات کہ وہ صحت ِ مال مسروقہ کے بارے میں شک کا اظہار کرے۔ (اسی لئیے تو شرجیل کو شراب فراہم کرنے کےالزام میں اسکے ملازمین کو چودہ روزہ ریمانڈ پر بھیج دیا گیا ھے جبکہ پولیس مقابلوں میں کئی سو افراد کے قتل کا ملزم ایس پی راوٴ انوار آج ضمانت پر ھے)۔

ملک کے تمام آئینی اور ماتحت اداروں کے اعلی ترین رتبے پر پہنچنے والے لوگ شراب اور زیتون کے تیل میں فرق اور اسکا درست استعمال بخوبی جانتے ہیں۔ شاید ماتحت عدلیہ کے نوجوان، ناتجربہ کار مگر معزز ججز صاحبان آئین کی روح کو طلب کرنے کی قوت ہی نہیں رکھتےاس لیے قانون اور انصاف کی بالادستی کا علم بلند کئے جس محاذ کی جانب چیف جسٹس ثاقب نثار گامزن ہیں، اس میں اگر انہیں کسی ماتحت عدالت میں بطور گواہ بھی پیش ہونا پڑا تو وہ ضرور پیش ہوں گے. اپنی مصروفیات کے باعث وہ ایسا نہ کر سکے تو بوتلوں کی برآمدگی کا یہ معاملہ ہوتا ہوتا ایک نہ ایک دن سپریم کورٹ تک ضرور پہنچ جائے گا۔ انصاف کی فراہمی کے عمل میں چیف جسٹس کی کوششوں سے جو تیزی آئی ہے اسکے بعد یہ توقع ہے کہ شرجیل بوتل کیس بھی اگلے چند ماہ کے اندر انکی ریٹائرمنٹ سے پہلے سپریم کورٹ پہنچ جائے گا. ماتحت عدالتوں سے شرجیل میمن بوتل کیس میں چھوٹ بھی گئے تو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار انشااللہ انصاف کا بول بالا کریں گے۔ سندھ حکومت کے ترجمان ناصر حسین شاہ کا دعویٰ ہے کہ برآمد شدہ بوتلوں میں شراب نہیں شہد اور زیتون کا تیل تھا۔اب ایک طرف ہماری معزز عدلیہ کے سربراہ ہیں جنہوں نے چھاپا مار کر ذاتی طور پر یہ مال برآمد کیا اور دوسری طرف صوبائی حکومت کے غیر معروف ترجمان ۔ ظاہری بات ہے لوگ تو سیاستدانوں سے زیادہ عدلیہ پر یقین کرتے ہیں۔اگر پولیس اور صوبائی حکومت نے چیف جسٹس ثاقب نثار کو غلط ثابت کرنے کی مذموم کوشش کی تو پھر پولیس کے متعلقہ اہلکاروں اور لیبارٹری کے عملے سمیت صوبائی حکومت کے ترجمان کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی تو بنتی ہے۔ بہتر تو یہ ہوتا کہ چیف جسٹس صاحب موقعے پر ہی شرجیل میمن کو سزا سنا دیتے مگر پھر قانون کے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ پاکستان کے قانون کے مطابق اگر ملک کا چیف جسٹس ہسپتالوں کے چھاپے کے دوران کسی مریض کے کمرے سے شراب کی بوتلیں برآمد کرتا ہے تو اسکے باوجود بوتلوں کے اندر کے مواد کا لیبارٹری معائنہ کروانا ضروری ہوتا ہے۔ اسکی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان جیسے تیسری دنیا کے غریب ممالک میں لوگ شراب کی خالی بوتلوں کا مختلف استعمال بھی کرتے ہیں۔ کوئی اس بوتل میں پانی ڈال کر منی پلانٹ لگا دیتا ہے جس کی بیل گھر کی دیواروں پر پھیل جائے تو مکین کو یقین ہو جاتا ہے کہ دولت کی ریل پیل ہونے والی ہے۔ اس کے علاوہ کوالٹی شیشے کی بنی یہ مضبوط بوتلیں حقیقتاً شہد یا دوسری جڑی بوٹیوں والی ادویات کو لمبے عرصے تک محفوظ رکھنے کے لئے استعمال ہوتی ہیں۔ یہ بوتلیں ہوتی بھی ماشاءاللہ خوبصورت ڈیزائن کی ہیں جن کو بطور ڈیکوریشن پیس بہت سے نیک سیرت لوگ اپنے ڈرائنگ روموں میں تبرکاً سجا لیتے ہیں۔

شرجیل میمن پر اصل میں چار ارب روپے کی کرپشن کا الزام اور مقدمہ ہے۔ وہ مقدمہ تو ڈیم بننے کے فوراً بعد تک حل ہو ہی جائے گا اور عوام کا مبینہ طور پر لوٹا ہوا پیسہ عوامی خزانے میں آ جائے گا شراب کی بوتلوں کا مقدمہ زیادہ اہم اور سیدھا بھی ہے جس میں چیف جسٹس خود گواہ بھی ہیں اور جج بھی۔ (آخر اس شراب کے شر نے ہی تو جرم و سزا کے نظام کو یرغمال بنا رکھا ھے)۔ اگر بوتلوں کے اس مقدمے میں ہی شرجیل میمن پر چار ارب روپے کا جرمانہ عائد کر کے اس رقم کو ڈیم فنڈ میں ڈالنے کا موقعہ پر حکم دیا جاتا تو عوام کا پیسہ بھی واپس آ جاتا جسے ڈیم فنڈ میں ڈالا جا سکتا تھا۔ آئین کی بھٹکتی روح کو اس معاملے میں بھی فوری پیش ہونے کا حکم دیا جا سکتا تھا۔

تحریک انصاف کے ایم پی اے عمران شاہ نے ایک عام شہری کو جو تھپڑ مارا تھا اس پر چیف جسٹس نے تیس لاکھ روپے بطور ہرجانہ ڈیم فنڈ میں جمع کروانے کا حکم دیا ہے، اس کے بعد ڈیم فنڈ کے لئے نئی راہیں کھل گئی ہیں۔ ایک تجویز یہ ہے کہ تمام بڑی بڑی شخصیات ایک چھوٹی سی قربانی دیں اور اعلان کر دیں کہ وہ لاکھوں روپے میں کسی بھی شہری سے ایک تھپڑ کھانے کو تیار ہیں۔ بلکہ جتنی بڑی شخصیت ہو وہ ایک تھپڑ کھانے کے لئے اپنی بولی لگوا دے۔ مثلاً نون لیگ میں کتنے ہی ایسے لوگ ہوں گے جو عمران خان کو ایک تھپڑ مارنے کے لئے ایک کروڑ روپیہ دینے تک تیار ہونگے اور اسی طرح تحریک انصاف میں نواز شریف صاحب کے نرم و نازک چہرے پر ایک طمانچے کی خاطر کروڑوں روپے دینے کے لئے تو جہانگیر ترین ہی سب سے آگے ہونگے۔ باقی اہم اداروں ،محکموں اور سیاسی جاعتوں کے سربراہان کو ایک تھپڑ مارنے کے ذریعے ملک بھر سے اربوں روپے اکھٹے کئے جا سکتے ہیں۔ یقین مانیں کہ کوئی شخصیت تو ایسی بھی ہو گی جس کو ایک تھپڑ مارنے کے لئے ملک بھر کی کچہریوں میں انصاف کے لئیےبھٹکتے عوام باقاعدہ چندہ مہم چلائیں گے۔ آپ دیکھیں گے کہ ہمارے ملک میں نہ صرف یہ کہ ڈیم بنے گا بلکہ اسکے بعد ہماری قوم اپنے تمام بیرونی قرضے بھی واپس کرنےکے قابل ہو جائے گی۔ وہ کہتے ہیں کہ ہزاروں میل مسافت کا آغاز ایک باہمت شخص کے پہلے قدم سے ہوتا ہے۔ اب جبکہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے پہلا قدم اٹھا ہی لیا ہے تو امید ہے کہ وہ پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ دعا ہے کہ معاشرتی برائیوں کے خلاف موجودہ چیف جسٹس کے اس جہاد کا علم ان کے بعد آنے والے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ بھی اٹھا رکھیں اور یوں انصاف کا پیمانہ لبریز ہو کر بلند ہوتا رہے۔ امید ھے کہ چیف جسٹس صاحبان کا یہ سو موٹو جہاد جاری رہے گا جس کی پہلی گولی افتخار محمد چودھری نے چلائی تھی جب انھوں نے اداکارہ عتیقہ اُوڈھو سے ائیرپورٹ پر برامد ہونے والی شراب کی ایک بوتل کی خبر کا سو مو ٹو نوٹس لیا تھا۔ آج سات سال بعد نوبت شرجیل میمن کے کمرے میں ذاتی طور پر چھاپہ مار کر تین بوتل شراب کی برامدگی تک آ گئی ھے۔ انصاف کا پیمانہ لبریز ہو چکا ھے اور ہم جیسے کم ظرف ہیں کہ مانتے ہی نہیں۔ آئیندہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا ہدف انشااللہ وہ مافیا ہو گا جس کا ذکر انہوں نے شریف خاندان کیخلاف اپنےاقلیتی فیصلے میں کیا تھا۔ خبریں اور فلمیں چلیں گی کہ مافیا کے خلاف پولیس مقابلے کی قیادت معزز چیف جسٹس نے از خود کی اور کئی مجرم پھڑکا دئیے۔ انصاف نہ صرف ہو گا بلکہ مقابلے کی ویڈیو دیکھ کر ہوتا نظر بھی آئے گا۔ اسکے بعد بروقت اور سستے انصاف کے لئیے ججز صاحبان انصاف کی سوکھی لکڑی کے ہتھوڑے کی بجائے نائن ایم ایم کا پستول اپنے کالے گاوٴن کی جیب میں رکھیں گے۔ وکیلوں، دلیلوں اور فیسوں کی جھنجٹ سے جان چھوٹ جائے گی۔#

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے