پاکستان پاکستان24

اینکر ارشد شریف کی عدالت میں معافی

ستمبر 12, 2018 4 min

اینکر ارشد شریف کی عدالت میں معافی

Reading Time: 4 minutes

اے آر وائے نیوز کے اینکر ارشد شریف نے سپریم کورٹ میں معافی مانگ لی ہے جبکہ عارف حمید بھٹی نے کہا کہ عدالت ہمیں سزائے موت دے دے مگر پیمرا کے پاس نہ بھیجے، انہیں سچ سے چڑ ہے ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ چپیڑ مار کر سوری کہہ دیتے ہیں یہ تلقین شاہ ڈرامے میں دیکھا تھا ۔ جو فیصلہ کرنا ہے عدالت نے کرنا ہے، کیا ارشد شریف نے کرنا ہے یا کسی اینکر نے کرنا ہے ۔

عدالت کے روسٹرم پر ارشد شریف، عارف بھٹی، صابر شاکر، سمیع ابراہیم نے وکیل فیصل چودھری کے ہمراہ پیمرا کے چیئرمین اور پی بی اے کے وکیل کو گھیرا ہوا تھا ۔ یہ صورتحال دیکھ کر چیف جسٹس نے کہا کہ جب ہم کالج میں الیکشن مہم چلاتے تو ایک کمیٹی ہوتی تھی آج وہ نظر آ رہی ہے ۔

چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی عدالتی بنچ نے اینکر ارشد شریف کا جاری کئے گئے نوٹس کی سماعت کی ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں دنیا کے کسی بھی صحافتی کتاب یا قانون میں دکھا دیں کہ عدالت میں زیر التوا کسی مقدمے کے حقائق پر اس طرح کی گفتگو میڈیا پر کی جا سکتی ہے تو ہم اس میں بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ معیار کے مطابق دخل نہیں دی گے ۔ وکیل فیصل چودھری نے کہا کہ ٹی وی مباحثے کیلئے کوڈ آف کنڈکٹ کی ضرورت ہے ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر میڈیا کی آزادی اور رائے کے اظہار بنیادی حق ہے تو عدلیہ کی آزادی بھی آئین میں ہی موجود ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میں کسی کی نیت پر شک نہیں کر رہا، جو آپ کو صحافت میں آتا ہے مجھے نہیں آتا مگر قانون کا جتنا مجھے علم ہے آپ کو نہیں ۔ وکیل فیصل چودھری نے کہا کہ میں ارشد شریف کی جانب سے عدالت سے معافی مانگتا ہوں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ معافی ان کو خود مانگنا پڑے گی ۔ ارشد شریف آگے بڑھے اور کہا کہ میں نے جو کچھ کہا اس سے اس عدالت اور معزز عدلیہ کی کارروائی متاثر ہوگی میں اس پر پورے اخلاص کے ساتھ غیر مشروط معافی مانگتا ہوں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ چند جملے تحریری طور پر لکھ کر دے دیں ۔

پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میڈیا کیلئے قانونی کوڈ آف کنڈکٹ موجود ہے، اس میں لکھا گیا ہے کہ عدالتی امور کو رپورٹ کیا جا سکتا ہے مگر حدود کے اندر رہ کر تبصرے کئے جا سکتے ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وہ صرف رپورٹنگ کی حد تک ہے، اس پر بات نہیں کی جا سکتی کہ فیصلے کیسے کیا جائے گا اور کیا ہوگا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو ایکشن کیسے لیا جاتا ہے؟ ۔ وکیل نے بتایا کہ اینکر نہیں چینل کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے اور قانون کے مطابق اس کا لائسنس بھی منسوخ کیا جا سکتا ہے ۔ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق جسٹس اعجازالاحسن نے پوچھا کہ جب ایک پروگرام ہو رہا ہے اور اس کو نہیں روکا جا سکتا تو بعد میں نوٹس سے کیا ہونا ہے جب نقصان ہو گیا، یہ تو اسی وقت کارروائی کے ذریعے روکا جانا چاہیئے ۔ وکیل نے کہا کہ اسی کیلئے پیمرا نے کہا ہے کہ براہ راست نشریات میں تاخیری میکنزم لگایا جائے مگر چینلز اس پر عمل نہیں کرتے ۔

ایک موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ ٹی وی ٹاک شو والوں کو بھی دیکھنا ہوگا عدالت متاثر ہو سکتی ہے، ججوں کو اس طرح متاثر کرنا کس قانون کے تحت میڈیا یا اظہار کی آزادی میں آتا ہے ۔

وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ میڈیا کمیشن کیس فیصلے میں عدالت نے ہدایات جاری کی تھیں جن کے مطابق ضابطہ اخلاق بنا ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اس فیصلے میں بہت اچھی ہدایات جاری کی گئیں مگر اس پر عمل نہیں ہو رہا ۔ پیمرا کے چیئرمین نے عدالت کو بتایا کہ وہ اس وقت 91 چینلز کی نگرانی کرتے ہیں، اس دوران 560 نوٹسز جاری کئے گئے تاہم اس کے بعد میڈیا کی آزادی کی بات کی جاتی ہے ۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ہمارے پاس اختیار ہے توہین عدالت کے آئینی آرٹیکل 204 کے تحت بھی کارروائی کر سکتے، اگر کوئی پیمرا کے اختیار کو اس طرح نہیں مانتا تو پیمرا سپریم کورٹ کو بتائے ہم دیکھیں گے کہ توہین عدالت کی کارروائی بنتی ہے ۔ ہر معاملے کے الگ حالات و واقعات ہوتے ہیں اور مختلف حقائق ہوتے ہیں ۔

صابر شاکر نے عدالت میں کہا کہ جان بوجھ کر نہیں کرتے، مگر کئی بار بڑی انفارمیشن آ جاتی ہے تو جذباتی ہو جاتے ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ چلیں دیکھ لیں گے، آپ کی جذباتیت کو بھی دیکھ لیتے ہیں ۔ عدالت نے معافی قبول کر کے مقدمہ نمٹانے کا حکم لکھوایا تو وکیل فیصل چودھری نے استدعا کی کہ پیمرا کو بھی اس معاملے میں مزید کارروائی سے روک دیا جائے ۔ چیف جسٹس نے پیمرا کو ہدایت کی کہ اس دفعہ ارشد شریف کے خلاف کارروائی نہ کی جائے، انہوں نے پیمرا کے چیئرمین سے کہا کہ آئندہ چھوڑئیے گا نہیں، اس بار کریئے گا نہیں ۔

پی بی اے کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ دو رائے ہیں، ایک یہ ہے کہ عدالت کو کبھی کسی رائے سے متاثر نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی ہوتی ہے، انہوں نے لارڈ ڈینی کا بھی حوالہ دیا ۔ عدلیہ کی آزادی ضروری ہے مگر فریڈم آف پریس بھی ہے، اس لئے کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت توازن ہونا چاہیئے ۔

یاد رہے کہ ارشد شریف نے آصف زرداری کے بیان حلفی پر ٹاک شو کیا تھا ۔

 

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے