کالم

آئین اور قانون

اکتوبر 4, 2018 4 min

آئین اور قانون

Reading Time: 4 minutes

اظہر سید

آئین کس چڑیا کا نام ہے، قانون کس کو کہتے ہیں، اسحاق ڈار کے اثاثوں کی نیلامی کے حکم سے واضح ہے ۔ جس نے دو مرتبہ آئین توڑا جس کے خلاف محترمہ بینظیر بھٹو اور اکبر بگٹی قتل کے مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں وہ دبئی میں کرکٹ میچ دیکھتے ہوئے سگار کے سوٹے لگاتا پوری دنیا میں ایٹمی پاکستان کے آئین اور قانون کا تمسخر اڑاتا نظر آتا ہے ۔جس نے عالمی مالیاتی اداروں کے بے پناہ دباو کی مذاحمت کی روپیہ کی قدر کم کرنے سے مسلسل انکار کیا اس کے اثاثوں کی نیلامی کے احکامات جاری ہو چکے ہیں ۔
اسحاق ڈار کے جرائم کی فہرست طویل ہے ۔ سابق وزیر خزانہ کا ناقابل معافی جرم یہ ہے ایک اعلی سطحی اجلاس میں بجٹ سے ہٹ کر کثیر فنڈز مانگے گئے ۔ سابق وزیر خزانہ کا کہنا تھا ہم نے 8 فیصد شرح نمو کا ہدف حاصل کرنا ہے ۔ وزارت خزانہ کی راہداریوں میں ایک عمر گزر گئی اس سفر میں بہت سارے لوگوں سے ذاتی تعلقات بنے ۔دوستی کی کمائی سے اطلاعات ملتی رہتی ہیں ۔اسحاق ڈار ادب سے بولے سیاسی بے یقینی سے سرمایہ کاری کا عمل متاثر ہو رہا ہے ،بجٹ سے ہٹ کر سو ارب روپیہ سے زیادہ نکالے گئے تو ترقیاتی منصوبے متاثر ہونگے بجٹ خسارہ بڑھے گا۔بس فیصلہ ہو گیا اور اب اسحاق ڈار لندن میں ہیں ،وہ نماز پڑھنے جائیں ایک دو بندے ان کا پیچھا کرتے ہیں، ایک سوال کرتا ہے دوسرا سیل فون سے فلم بناتا ہے اور پھر دس منٹ کے اندر یہ ویڈیو سینکڑوں ہزاروں سوشل میڈیا اکاونٹس کے ذریعے کروڑوں پاکستانیوں کے ہاتھوں میں موجود سیل فون پر منتقل ہو جاتی ہے کیونکہ پاکستان میں آئین اور قانون کی حکمرانی ہے ۔
جب تک لندن پلان اور پناما ڈرامہ کے نتایج سامنے نہیں آئے تھے پاکستان کا حصص بازار دنیا کی پانچ بہترین ایمرجنگ مارکیٹوں میں بدل چکا تھا ۔ 100 انڈکس 57 ہزار کی نفسیاتی حد عبور کر چکا تھا۔عالمی ریٹنگ ایجنسیوں سٹینڈرڈ اینڈ پورز اور موڈیز پاکستانی معیشت کی ریٹنگ بڑھا چکی تھیں ۔چاروں صوبوں کے پاس سرپلس بجٹ تھا ۔پاکستانی روپیہ کی قیمت 104 روپیہ تھی ۔قرضوں کا بوجھ معیشت کے یعنی جی ڈی پی کے 69 فیصد تھا۔پاکستانی دہشت گردی کے آسیب سے جان چھڑا کے سی پیک میں اربوں ڈالر کی چینی سرمایہ کاری کا نظارہ کر رہے تھا۔توانائی کے شعبہ میں طلب اور رسد تیزی سے کم ہو رہی تھے اور پھر ایک دن ایسا آگیا اسحاق ڈار نے بجٹ سے ہٹ کر اضافی وسائل فراہم کرنے سے معذرت کر لی الٹا شکوہ کر ڈالا کہ سیاسی افراتفری ملکی معیشت کے قتل کا باعث بن رہی ہے ۔یہ شکوہ غلط تھا کیونکہ "رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے”اداکارہ نیلو کو ریاستی اداروں کی طاقت سے شہنشاہ ایران کے سامنے رقص کرنے کا حکم ملا تھا اس دفعہ اسحاق ڈار کو رقص کرنے کا حکم ملا نیلو نے انکار کیا اور خود کشی کی کوشش کی اسحاق ڈار نے انکار کیا ان کے اثاثے نیلام کرنے کا حکم جاری ہوا ہے ۔
ملک کے معروف اینکرز نے جب 35 ارب ڈالر کے اضافی قرضوں کا کہانی ہر روز نجی چینلز پر سنانا شروع کی ہم نے تبصرہ کیا اسحاق ڈار کا کھیل ختم ہو گیا ہے اور پھر اسحاق ڈار کا کھیل ختم ہوا ۔انکار کا جرم ناقابل معافی تھا کون قوم کو بتاتا نئے پاور پلانٹس لگ رہے ہیں اضافی پیٹرولیم مصنوعات درآمد ہو رہی ہیں ۔بد قسمت ملک کے لوگوں کو کون بتاتا سی پیک میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہو رہی ہے قرضے بوجھ نہیں بلکہ نئی صنعتوں کی شرح نمو میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔کون سچ بیان کرتا اسٹیل سیمنٹ اور تعمیرات سے منسلک 42 صنعتوں میں اور دوسری بڑی صنعتوں میں شرح نمو 7 فیصد سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔کس کو اجازت تھی بتاتا کہ پرانے قرضوں کی ادائیگیاں بھی ساتھ ساتھ ہو رہی ہیں۔
اور پھر آج وہ دن آگیا ہے ڈالر کی قیمت 127 روپیہ پر پہنچ چکی ہے۔قرضوں کا بوجھ معیشت کے 90 فیصد سے تجاوز کر گیا ہے ۔حصص بازار کا 100 انڈکس 39 ہزار سے کم ہو چکا ہے ۔چاروں صوبوں کا سرپلس بجٹ ختم ہو چکا ہے ۔عالمی ریٹنگ ایجنسیوں نے پاکستانی معیشت کی ریٹنگ کم کر دی ہے ۔ بجٹ خسارہ 9 فیصد سے تجاوز کر گیا ہے ۔ کہاں وہ دن تھے آئی ایم ایف کا پروگرام کامیابی سے مکمل کر کے نئے پروگرام سے صاف انکار کر دیا تھا کسی نے گویا جادو کی چھڑی گھمائی ہے وہ دن آ گئے ہیں کاسہ گدائی اٹھائے بستی بستی گھوم رہے ہیں کوئی فقیر کا بھلا کر دے سعودیوں کے پاوں پڑھتے ہیں تھوڑا تیل دے دو وہ حقارت سے سجدے میں گرے پاوں کو ٹھوکر سے پرے کرتے ہیں "معاف کرو” کبھی آئی ایم ایف والوں کی چوکھٹ پر بلبلاتے ہیں چند سکے عنایت ہوں وہ کہتے ہیں سی پیک کےمنصوبے تمہارے لئے بوجھ ہیں انہیں ختم کرو بھیک ملے گی ۔70 سال میں ایک موقع ملا تھا امیر ہونے کا، خارجہ پالیسی کی ملکیت کی جنگ اور کسی سیاستدان کے ناقابل تسخیر ہونے کے اندرونی خوف کی بھینٹ چڑھ گیا ۔
عوام کون ہوتے ہیں جو فیصلے کریں ۔عوام کی ایسی کی تیسی کیلئے انگوروں میں بہت شراب باقی ہے 58 بی 2 ختم کر کے اتراتے تھے "ہم نے کر دیا” اگلوں نے بنیادی حقوق کا آرٹیکل استعمال کرنا شروع کر دیا اس آرٹیکل کی کیا شان و شوکت ہے دفتروں میں ہسپتالوں میں چھوٹے قد کے بہت اونچے سر کے ساتھ دورے ہوتے ہیں بے پناہ سیکیوریٹی میں ہٹو بچو ہٹو بچو کے بلند آہنگ آوازے بلند ہوتے ہیں 24 کروڑ لوگوں کا وزیراعظم کیا بیچتا ہے اصل حکمرانی کا زمانہ کبھی 58 ٹو بی کا تھا اور اب 184 تھری کا ہے اور عدالتوں کی طرف بنیادی حقوق کے تحفظ کے نام پر کشتوں کے پشتے لگانے کا ہے ۔

پاکستان زندہ آباد

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے