کالم

جائے وقوعہ

اکتوبر 7, 2018 7 min

جائے وقوعہ

Reading Time: 7 minutes

مطیع اللہ جان

کچھ لوگوں کے نزدیک عزت آنی جانی شے ہوتی ہے بندے کو بس ڈھیٹ ہونا چاہیے۔ بدقسمتی سے ایسی سوچ کے حامل افراد ہمارے ملک کے ہر شعبہ زندگی اور ادارے میں موجود ہیں۔ اب نیب کی جانب ہی دیکھیں، قومی اسمبلی کی گیارہ اور صوبائی اسمبلیوں کی چھبیس نشستوں پر ضمنی انتخابات سے عین ایک ہفتہ پہلے آشیانہ ہاؤسنگ کیس کی جاری تفتیش میں اسے خدشہ پیدا ہو گیاکہ شہباز شریف کہیں ملک سے فرار نہ ہو جائیں۔ وہ شہباز شریف جو بطور وزیراعلیٰ انہی مقدمات میں نیب کی پیشیاں بھگتتا رہا، جو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور بڑی اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن کا صدر ہے۔ نیب کے نزدیک اس کے فرار ہونے کا امکان بڑھ گیا تھا۔ نیب کی شریف خاندان سے "عقیدت” میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ شاید وہ ٹاسک ہے جو چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کو وزیراعظم عمران خان سے ملاقات میں دیا گیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان اور انکی تحریک انصاف برملایہ کہتے پھر رہے ہیں کہ وہ شریف خاندان کو نہیں چھوڑیں گے اور یہی وہ سیاسی نعرہ تھا جس کے ساتھ انہیں انتخابی عمل سے گزار کر اقتدار میں لایا گیا ۔ اب اگر شریف خاندان کو عدالتوں میں نہیں گھسیٹا جاتا یا جیل میں نہیں ڈالا جاتا تو ’نئے پاکستان‘ کا بیانیہ کہاں جائے گا۔ یہ وہ بیانیہ تھا جس کے پیچھے تحریک انصاف اور اسکے چند سیاسی اتحادی ہی نہیں بلکہ اس ملک کو انصاف، احتساب اور تحفظ دینے والے چندادارے بھی اپنے اپنے آئینی حلفوں کے برخلاف کھڑے تھے۔ ان کی خود ساختہ عزت داؤ پر لگی تھی جو یہ مطلوبہ انتخابی نتائج ترتیب دینے کے بعد اب طے شدہ احتسابی کاروائیوں کے ذریعے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وزیر اطلاعات و نشریات فرماتے ہیں نیب حکومت کے کنٹرول میں نہیں اور اسی سانس میں کہتے ہیں مزید گرفتاریاں بھی ہونگی۔ نیب، حکومت یا عدالتیں کس کے کنٹرول میں ہیں سب جاتے ہیں مگر شاید شہباز شریف کو یہ سب نظر نہیں آ رہا۔

چُنگل میں آنے کے بعد اگر اب بھی ایک شہباز کو اصل شکاری کی پہچان نہیں ہوئی تو اس میں قصور ان کا اپنا بھی ہے۔ اگر اب بھی وہ یہ سمجھتے ہیں کہ سارا قصور چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کا ہے تو پھر انکے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ بہت کم ہے۔ اپنی گرفتاری کے بعد بھی اگر آج شہباز شریف کو خلا میں کوئی مخلوق نظر نہیں آتی تو پھر انہیں زمینی مخلوق کی نمائندگی کا بھی کوئی حق حاصل نہیں۔ بنیادی طور پر یہ ن لیگ ہی تھی جس نے اس وقت کے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ سے مل کر اپنے پاؤں پر یہ کلہاڑا مارا تھا۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے نواز شریف اور شہباز شریف کے مشورے کے ساتھ ہی جاوید اقبال جیسی ’پُرنور شخصیت‘ کو محتسب اعظم کی خلعت عطا کی تھی۔ اسی لئے کہتے ہیں انسان جو بوتا ہے وہ کاٹتا بھی ہے۔

کیا شریف برادران جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کے پیشہ ورانہ ماضی سے واقف نہیں تھے؟ نو مارچ دو ھزار سات کو جنرل مشرف نے جب چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف ریفرنس دائر کیا تھا اور انہیں زبردستی سپریم کورٹ جانے سے روک دیا تو یہی وہ موصوف تھے جنہوں نے اُچک کر قائم مقام چیف جسٹس کا عہدہ سنبھال لیا۔ جنرل مشرف اور موصوف کے اس عمل کو سپریم کورٹ کے ایک بنچ نے بیس جولائی دو ہزار سات کے ایک تاریخی فیصلے میں چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس کو غیر آئینی اور کالعدم قرار دیتے ہوئے چیف جسٹس اور تمام ساتھی ججوں کو عہدوں پر بحال کر دیا تھا۔ اُسی حکم میں جسٹس جاوید اقبال کا قائم مقام چیف جسٹس کا حلف اُٹھانا بھی غیر آئینی ٹھرا۔ بحال شدہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بھی کچھ ایسے ہی مصلحت پسند نکلے اور اتنا کچھ ہونے کے باوجود بھی ان موصوف کو تھپکی دیتے رہے۔ اور پھر تین نومبر دو ہزار سات کو جب جنرل مشرف نے اعلیٰ عدلیہ کے ساٹھ سے زائد ججوں کو غیر آئینی فرمان کے ذریعے برطرف کیا تو جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال اپنی جبلت کے مطابق وکلا تحریک میں شامل ہونے کی بجائے نئی نوکری کی تلاش میں نکل پڑے۔ جنرل مشرف کے غیر آئینی اقدام کو تسلیم کرتے ہوئے انہوں نے فوجی حکومت کی طرف سے پریس کونسل آف پاکستان کی چیئرمینی کا عہدہ قبول کر لیا اور حکومت کے تنخواہ دار ملازم ہو گئے۔ پھر جب عدلیہ بحال ہوئی تو موصوف نے پھر سے سپریم کورٹ میں ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ افتخار محمد چوہدری بھی بحالی کے بعد شاید شہباز شریف کی طرح اداروں سے ٹکراؤ کی پالیسی کے خلاف تھے وگرنہ مسلمان تو ایک ہی سوراخ سےکم از کم دو مرتبہ ڈسے جانے کے بعد تو سانپ کا سر کچل ہی دیتا ہے۔ دونوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی اس ایک ہی سانپ سے کئی بار ڈسے گئے اور آج تک ڈسے جا رہے ہیں۔

جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کو ایبٹ آباد کمیشن کا سربراہ بھی پیپلز پارٹی کے دورمیں بنایا گیا تھا۔ اس کا فائدہ آصف زرداری نے بخوبی اٹھایا۔ ایبٹ آباد میں امریکی حملے کی تحقیقات کرنے والے اس کمیشن نے اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کو بھرپور قانونی طریقے سے طلب نہیں کیا اور نہ ہی اس وقت کے آرمی چیف جنرل کیانی کو طلب کرنے کے لئے موصوف ہمت پکڑسکے۔ اس کمیشن کی رپورٹ نہ تو پیپلز پارٹی کے آصف زرداری اور نہ ہی ن لیگ کے نواز شریف بطور حکمران منظر عام پر لانے کی جرات کر سکے۔ اگر دونوں نے یہ سمجھا تھا کہ اس طرح کی بزدلانہ اور غیر قائدانہ پالیسی کو اپنا کر وہ اپنے اقتدار و اختیار کو بچا لیں گے تو وہ آج غلط ثابت ہو گئے ہیں۔ آج نیب چیئرمین کی کاروائیوں پر شور ڈالنے سے پہلے آصف زرداری اور دونوں شریف برادران کو ماضی کی اس بزدلی سے نکلنا ہو گا جس نے انہیں اس مقام پر پہنچایا۔ نوبت یہاں تک آ گئی ھے کہ ووٹ کی عزت کا دم بھرنے والے آج اپنی عزت بچانے میں مصروف ہو گئے ہیں۔ اسی لئے کہتے ہیں سیاستدان جب بھی اصولوں کی سیاست کی بجائے اصولوں پر سیاست کریں گے تو انکے ساتھ وہی کچھ ہو گا جو آج شریف برادران اور زرداری خاندان کے ساتھ ہو رہا ہے۔ مقدمات و الزامات کی حقیقت اپنی جگہ مگر ان کے مخصوص وقت میں مخصوص سیاسی استعمال اور عدلیہ اسٹیبلشمنٹ گٹھ جوڑ کسی طور بھی بدنیتی اور سازش سے خالی نہیں۔ ان اقدامات سے ملک سے کرپشن تو نہیں مگر سیاست، سیاسی جماعتوں اور جمہوریت کا خاتمہ ضرور ہو رہا ھے۔

اب بھی وقت ہے ووٹ کو عزت دو کے اصول پر بھرپور انداز میں کھڑے ہونے کا ۔وگرنہ تین مرتبہ منتخب ہونے والے وزیراعظم اور دس سال پنجاب کی وزارت اعلیٰ سنبھالنے والے وزیراعلیٰ کے لئے جاوید اقبال جیسا ایک ریٹائرڈ جج ہی کافی ہو گا۔ موصوف چیئرمین نیب لاپتہ افراد کے کمیشن کے بھی سربراہ رہے۔ اس کمیشن کی بامعاوضہ بھرپور نوکری کے باوجود آج تک بہت سے لاپتہ افراد کا معلوم نہیں ہو سکا۔ کئی افراد تو محض اس کمیشن کی کارکردگی ثابت کرنے کے لئے ہی اٹھائے گئے اور پھر کمیشن کے حکم پر گھر پہنچا دئیے گئے۔ ان افراد کے اغواء میں نامزد ملزمان اور خفیہ اہلکاروں کے خلاف کاروائی کرنے کی ہمت کی توقع ایک پریس کونسل کے سابق چیئرمین سے کیسے کی جاسکتی ہے۔ بطور نیب چیئرمین نواز شریف کے بھارت سے کاروباری تعلقات میں تحقیقات کے بارے جاری کردہ ایک پریس ریلیز پر جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال آج تک خاموش بھی ہیں اور شرمندہ بھی نہیں۔

ایک ایسا شخص جو دس سال تک ملک کے سب سے بڑے صوبے کا وزیراعلیٰ رہا ہو اور وہ اپنے اصل مخالفین کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی جرات نہ رکھتا ہو اس شخص کو سیاست کرنی ہی نہیں چاہیے۔ یہی وہ شہباز شریف تھے جنہوں نے اپنی جماعت کے سابق صدر اور موجودہ قائد نواز شریف کے اس بیانیے سے کھلم کھلا اختلاف کیا جس میں خلائی مخلوق یعنی اسٹیبلشمنٹ کو حالیہ انتخابات میں دھاندلی کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔ چھوٹے میاں نے بڑے میاں کو ہمیشہ مشورہ دیا کہ اداروں سے ٹکراؤ کی پالیسی نہیں اپنانی چاہیے۔ یہ کبھی نہیں بتایا کہ جب ادارے خود آ کر آپ کو ٹکریں ماریں تو آپ کو کیا کرنا چاہیے۔ حمزہ شہباز بھی بڑے اعتماد کے ساتھ مریم نواز کو سمجھانے کی باتیں کرتے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب شہباز شریف بطور صدر مسلم لیگ صوبائی سیاست سے نکل کر خود کو ایک قومی لیڈر ثابت کر سکتے تھےمگر ایسا نہیں ہوا۔ اپنی یکطرفہ عدم ٹکراؤ کی پالیسی پر گامزن شہباز شریف اور ن لیگ کو سو پیاز کے ساتھ ساتھ سو جوتے بھی نصیب ہو چکے ہیں۔ شریف برادران پہلے تو اقتدار کی خاطر مشکل فیصلے نہ کر سکے مگراب اپوزیشن میں ہوتے ہوئے اگر وہ مشکل فیصلے نہ کر سکے تو سوال اٹھیں گے کہ بھئی آخر ایسی بھی کیا کمزوری ہے جو اداروں کے ہاتھ لگ گئی ہے؟ ہمیں تاریخ سے کچھ تو سیکھنا ہو گا۔

کچھ روز پہلے بلاول بھٹو بے نظیر بھٹو قتل کیس میں پولیس افسران کی ضمانت کےخلاف پہلی بار سپریم کورٹ پہنچے۔پولیس افسران پر بے نظیر کے قتل کا جائے وقوعہ فوری دھو کر قاتلوں کی اعانت کا الزام ھے۔ عدالت نے پولیس افسران کی ضمانتیں برقرار رکھیں۔ عدالتی بنچ کی سربراہی جسٹس آصف سعید کھوسہ کر رہے تھے جو داماد ہیں سپریم کورٹ کے مرحوم جسٹس نسیم حسن شاہ کے جنھوں نے مرنے سے پہلے جنرل ضیئا الحق کے دباوٴ میں وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کا اعتراف کر لیا تھا۔ اپنی والدہ اور دو مرتبہ وزیر اعظم رہنے والی بے نظیر بھٹو کے قتل کے ملزمان پولیس افسران کی ضمانتیں جب جسٹس کھوسہ نے برقرار رکھنے کا اعلان کیا تو افسردہ بلاول بھٹو نے سپریم کورٹ سے نکل کر ایک دل دھلا دینے والی بات کی جو میڈیا پر ایک ہی بار چل سکی۔ اپنے عقب میں سپریم کورٹ کے داخلی دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بلاول بولے “ پاکستان پیپلز پارٹی کا اس ادارے سے بہت پرانا رشتہ ھے۔ ہم تین نسلوں سے یہاں آتے رہے ہیں انصاف مانگتے ہوئے۔ ہمارے لیئے شہید ذولفقار علی بھٹو قتل کیس میں یہ کرائم سین (جائے وقوعہ) ھے جہاں جوڈیشل مرڈر (عدالتی قتل) کیا گیا تھا۔”

ذولفقار علی بھٹو کے قتل کا مذکورہ جائے وقوعہ بھی دھل چکا اور بے نظیر بھٹو کے قتل کا جائے وقوعہ دھونے والوں کی ضمانتیں بھی ان منصفوں نے برقرار رکھیں جن کے خاندان کے ہاتھ پرانے عدالتی قتل میں رنگے تھے۔ بلاول ٹھیک کہتا ھے کہ وہ تین نسلوں سے انصاف کے اس در پر آ رہے ہیں۔ بلاول کا دکھ بہت بڑا سہی مگر اس قوم کا دکھ اس سے بھی بڑا ھے۔ اسی جائے وقوعہ پر آج بھی انصاف کا عدالتی قتل شان و شوکت سے جاری ھے اور قاتلوں نے بھیس بھی نہیں بدلا۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے