متفرق خبریں

فلم ہچکی دیکھیں، چیف جسٹس

اکتوبر 10, 2018 2 min

فلم ہچکی دیکھیں، چیف جسٹس

Reading Time: 2 minutes

سپریم کورٹ نے کچی آبادیوں کو باقاعدہ بنانے کیلئے لاء اینڈ جسٹس کمیشن کی دی گئی سفارشات صوبوں کو بھجوانے اور صوبائی حکومتوں کو 4 ہفتوں میں جواب جمع کرانے کی ہدایت کی ہے ۔ چیف جسٹس نے وزیراعظم کے 50 لاکھ گھروں کے منصوبے کے بارے میں کہا کہ پچاس لاکھ گھر بنانا خالہ جی کا گھر نہیں، چیف جسٹس نے کچی آبادیوں کے مسائل سمجھنے کیلئے فلم ہچکی دیکھنے کیلئے بھی کہا ۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں ملک بھر میں کچی آبادیوں کی حالت زار کے کیس کی سماعت ہوئی ۔ عدالت میں بلوچستان کی کچی آبادیوں کی رپورٹ پیش کی گئی ۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ کچی آبادیوں میں سہولتیں دینا حکومت کا کام ہے، کچی آبادیوں میں بہت مسائل ہیں، کچھ نہ کچھ تو ہونا چاہیے ۔ چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ اسلام آباد سے کچی آبادیاں ہٹانے اور متبادل جگہ بسانے پر تجاویز دیں، ابھی تک اسلام آباد میں کچی آبادیوں کا ڈیٹا نہیں دیا ۔

جسٹس ثاقب نثار نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے کہا کہ وزیراعظم سے کہیں کہ ٹائم رکھیں کچی بستیاں دیکھنے چلتے ہیں، دیکھیں کہ وہاں کیا حالت ہے، میں تو لاہور میں کچی بستیاں دیکھ آیا ہوں، انہیں کہیں جا کر حالت دیکھیں، وزیراعظم خود جا کر کچی آبادی والوں کی حالت دیکھیں، وہ اس ملک کے چیف ایگزیکٹو ہیں، مجھے وقت بتا دیں ساتھ جا کر دیکھ لیتے ہیں، کچی آبادی میں کالے پانی کے نالے بہہ رہے ہیں، یہ رہنے کے لائق جگہیں نہیں ہیں ۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ کچی آبادیوں کا مسئلہ جلد حل ہو جائے گا، وزیراعظم نے 50 لاکھ گھروں کا اعلان کیا ہے ۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے جواب پر چیف جسٹس نے کہا کہ 50 لاکھ گھر بنانا خالہ جی کا گھر نہیں، 50 لاکھ گھر بنانے میں وقت لگے گا، کبوتروں کا پنجرہ بنایا جائے تو بھی دیکھا جاتا ہے کتنے کبوتر آئیں گے، اس کیلئے منصوبہ بندی اور سرمایہ بھی دیکھا جاتا ہے، رقم کہاں سے آئے گی؟

جسٹس ثاقب نثار نے مزید کہا کہ کمیشن مقرر کر دیتا ہوں وہ جا کے دیکھ لے گا، 1996 سے لے کر اب تک کیا کیا ہے؟ کہتے ہیں تبدیلی آگئی ہے ۔ یہاں سرکاری گھروں کا بہت غلط استعمال ہوتا ہے، ریٹائرڈ لوگ سرکاری گھروں پر قابض ہیں، وزیراعظم کو جا کر بتائیں، بنیادی حقوق کی فراہمی وزیراعظم کے ذمے ہے، 50 لاکھ گھر اعلان سے نہیں بن جائیں گے ۔

ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ سندھ میں کچی آبادی کیلئے قانون موجود ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ مجھے سندھ میں کچی آبادیاں دکھائیں، شرط یہ ہے کہ آپ کا وزیراعلیٰ میرے ساتھ جائے گا، کہہ دیں کچی آبادی والے کیڑے مکوڑے ہیں یا ان کے بنیادی حقوق نہیں ہیں ۔

عدالت نے لاء اینڈ جسٹس کمیشن کی سفارشات صوبوں کو بھجوانے اور صوبائی حکومتوں کو 4 ہفتوں میں جواب جمع کرانے کی ہدایت کر دی ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے