کالم

کب تک ریاست کے ساتھ ایسا ہوتا رہے گا؟

اکتوبر 28, 2018 6 min

کب تک ریاست کے ساتھ ایسا ہوتا رہے گا؟

Reading Time: 6 minutes

عبدالشکور خان

جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا محاورہ تو ٓاپ نے سن رکھا ہو گا ۔ اس محاورے کے پس پردہ کہانی جو بھی ہو یہ بات طے ہے کہ اس کا تعلق طاقت کی دھونس سے ہے ۔ طاقت کے نشے کو صرف قانون کی لاٹھی کے ذریعے ہی ہرن کیا جاسکتا ہے ۔ پاکستانی معاشرے میں جب طاقت کی بات کی جا ئے تو ایک عام شہری کے زہن میں فوج، خفیہ ایجنسیوں، چند سیاستدانوں، بعض مذہبی راہنماوں، بیورو کریٹس، پولیس، قبضہ مافیا اور میڈٰیا مالکان کے علاوہ اعلی عدلیہ کے بعض جج صاحبان کی شبیہہ ابھرتی ہے ۔ اس فہرست کی خاص بات یہ ہے کہ اصل طاقت اول زکر کے پاس ہے اور باقی تمام ادارے یا افراد کسی نہ کسی زریعے اپنی طاقت کے استعمال کے لئے اسی محکمے کے مرہون منت ہیں ۔ یہ ایک ایسا اسرار ہے جس کو سمھجنے کے لئے کسی بھی سا ئنسی کلیے کی ضرورت نہیں ۔ بس چند واقعات کو ان کے درست پس منظر کے ساتھ دیکھنے کی ضرورت ہے ۔

ہمارے ہاں قومی سطح پر ایسے کئی واقعات وقوع پذیر ہوئے ہیں جن کا سطحی مطالعہ کرنے سے ہی یہ عیاں ہو جاتا ہے کہ طاقت کا اصل مرکز کہاں ہے ۔ اس سلسلے میں سب سے تازہ واقعہ اسلام آبا ہائیکورٹ کے سینئر جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی مبینہ طور پر ایک ’بے نامی‘ درخواست پر سپریم جوڈیشل کونسل کے ہاتھوں برطرفی ہے ۔ آئیے اس برطرفی سے جڑے واقعات پر ایک طائرانہ نگاہ  ڈالتے ہیں ۔

 سپریم کورٹ کے وکیل شوکت عزیز صدیقی دوہزار سات میں عدلیہ بحالی کی تحریک کے سر گرم رکن تھے ۔ جب انہیں نومبر دو ہزار گیارہ میں اسلام  آباد ہائیکورٹ میں ایڈیشنل جج تعینات کیا گیا تو اس کی بڑی وجہ ان کی چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے قربت تھی۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور اس ضمن میں وہ یعنی شوکت صدیقی اکیلے نہیں بلکہ درجنوں ایسے وکلا ہیں جنھیں افتخار چوہدری اور ان کے دیگر ساتھی ججوں کی قربت کی وجہ سے ملک کی چاروں ہائیکورٹس اور ماتحت عدلیہ میں منصف کے عہدے ملے ۔ ان میں چند ایک وکلا ایسے بھی تھے جنھیں سرکاری محکموں نے افتخار چوہدری کے عدالتی عتاب سے بچنے کے لئے اپنا وکیل مقرر کر لیا تھا ۔

تاہم ان دیگر وکلا اور شوکت عزیز صدیقی میں ایک بنیادی فرق یہ تھا کہ شوکت عزیز ایک کامیاب وکیل بھی تھے اور اپنی بے باکی کے لئے مشہور بھی ۔ یہی وہ بات تھی جس کی وجہ سے افتخار چوہدری کو ان کے قریبی رفقا نے شوکت عزیز کی تقرری سے قبل "اچھی طرح سوچ” لینے کا مشورہ دیا تھا ۔ بہرحال شوکت عزیز صدیقی نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں مقدمات کی شنوائی کا  آغاز کیا تو عدالتی حلقوں میں یہ کہتے سنا گیا کہ "لگتا ہے ایک افتخار چوہدری اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی آ بیٹھا ہے۔” اس کی وجہ شاید ان کے وہ دھواں دھار ریمارکس تھے جو مختلف مقدمات کی سماعت کے دوران الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی زینت بنتے تھے۔  بعض اوقات تو جسٹس صدیقی کے ان ریمارکس کے سامنے افتخار چوہدری اور ان کی عدالت کی ایکٹیو ازم بھی ماند پڑ جاتے تھے۔ اس کی ایک جھلک اعلی عدلیہ کی جانب سے دیے گئے  ظہرانوں اور عشائیوں میں بھی دکھائی دینے لگی تھی ۔

جلد ہی سپریم کورٹ کی روازنہ کوریج کرنے والے صحافیوں نے بھی یہ نوٹس کیا کہ اب یہاں ججوں کی ریٹائرمنٹ پر منعقد کی جانیوالی تقریبات میں کوئی اور نہیں بلکہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی سب کی توجہ کا مرکز ہوتے ہیں۔ جسٹس شوکت عزیز محفل میں جہاں بھی جاتے ان کے گرد مداحوں کا ایک جمگھٹا لگ جاتا میڈیا کے کچھ نمائندے بھی ان کے ساتھ سلفیاں لے کر سوشل میڈیا پرڈالنے کو اعزاز سمھجتے ۔ بہرحال یہ وہ وقت تھا جب بطور جج شوکت عزیز کی مقبولیت کا ڈنکا ملک بھر میں بج رہا تھا اور ان کو اس میدان میں کچھ عرصے تک صرف سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری سے موازنے کا سامنا کرنا پڑا ۔ تاہم دسمبر دو ہزار تیرہ میں افتخار چوہدری کی ریٹائرمنٹ کے بعد شوکت عزیز صدیقی بلامقابلہ ملکی میڈیا میں سب سے نمایاں کوریج پانے والے جج بن گئے۔ اس دوران ان کی عدالت سے مختلف مقدمات پر کیے جانے والے اکثر فیصلوں کی ستائش اور بعض پر تنقید بھی کی گئی ۔

جسٹس صدیقی جج بننے سے قبل لاپتہ افراد کے مقدمات کی پیروی کرتے رہے تھے اور انہیں بعض موقعوں پر خفیہ ایجنسیوں کے خلاف سخت الفاظ میں دلائل دیتے بھی سنا گیا تھا۔ جب وہ جج بن کر ان مقدمات کی سماعت کرنے لگے تو تب بھی انہوں نے خفیہ ایجنسیوں کے نمائندوں اور وکلا کو تسلی بخش جواب نہ دینے پر کھلی عدالت میں لتاڑا ۔

لیکن ان کا عدالتی کیرئیر اس وقت سے مسلسل ہچکولوں کی ذد میں رہا جب انہوں نے اعلی عدلیہ کے ججوں کو حبس بے جا میں رکھنے کے مقدمے میں فوجی آمر پرویز مشرف کی ضمانت قبل از گرفتاری میں توسیع کی درخواست مسترد کر دی ۔ جسٹس صدیقی نے انہیں گرفتار کرنے اور اس مقدمے میں پرویز مشرف کے خلاف دہشت گردی کی دفعات شامل کرنے کا حکم بھی دیا ۔

 جسٹس صدیقی نے دوہزار چودہ کے پی ٹی آئی کے دھرنے کے خلاف درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے دھرنا ختم کرنے کا حکم جاری کیا اور متعدد ایسے ریمارکس دیے جو طاقتور خفیہ ایجنسیوں کو ناگوار گزرے تھے ۔ اس کے بعد گزشتہ برس نومبر میں  فیض آباد دھرنے کے خلاف درخواست کی  سماعت کرتے ہوئے جسٍٹس صدیقی نے استفسار کیا تھا کہ  آرمی چیف کی آزادانہ حیثیت کیا ہے اور وہ کیسے دھرنے کے معاملے میں ایگزیکیٹو کا حکم ماننے کی بجائے ثالث کا کردار ادا کر سکتے ہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ  ملک کے ادارے ہی ریاست کے خلاف کام کر رہے ہیں اور اگر فوجیوں کو سیاست کرنے کا شوق ہے تو وہ نوکری سے مستعفی ہو کر سیاست میں آئیں۔ ریاست کے ساتھ کب تک ایسا ہوتا رہے گا؟

پھر جب اسلام آباد میں غیر قانونی تجاوزات کے خلاف مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو جسٹس صدیقی نے آئی ایس آئی کے ہیڈ کواٹر  کے سامنے سالوں سے سیکیورٹی کے نام پر بند پڑی مرکزی شاہراہ کھولنے کا حکم بھی دیا۔  ان کا کہنا تھا کہ تجاوزات کے خلاف کاروائی بلا امتیاز ہونی چاہیے ۔

پھر اکیس جولائی کو راولپنڈی بار میں اپنے سابق ساتھی وکلا کی طرف سے منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس صدیقی جیسے پھٹ پڑے ہوں ۔ انہوں نے نام لے کر آئی ایس آئی کے اہلکاروں کی جانب سے عدالتی امور میں مداخلت کا الزام لگایا ۔ اسی روز فوجی ترجمان نے ایک ٹویٹ کے ذریعے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے الزامات کو مسترد کیا ۔ پھر بظاہر اسی ٹویٹ پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جو سپریم جوڈیشل کونسل کے صدر بھی ہوتے ہیں، نے ایکشن لیا اور کونسل نے صرف ایک سماعت کی مختصر اور بظاہر محض خانہ پری کی کارروائی کے بعد جسٹس صدیقی کو عہدے سے برطرف کر دیا ۔ یہ فیصلہ پاکستان بلکہ شاید دنیا کی عدالتی تاریخ میں بھی بے نظیر ہے جہاں ایک جج کو اتنی عجلت میں کی گئی کارروائی کے زریعے ہٹا دیا گیا ہو ۔

’انصاف‘ کی تیز تر فراہمی کا یہ سلسلہ یہیں پر ختم نہیں ہوا۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس صدیقی کی نااہلی کے فیصلے کے ساتھ ہی اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس انور کاسی کو ان کے خلاف دائر ریفرنس پر کلین چٹ دے دی ۔ جسٹس کاسی پر  قواعد کےخلاف اپنے سگے بھائی ادریس کاسی سمیت ستر افراد کی غیر قانونی بھرتیوں کا الزام تھا ۔ خود سپریم کورٹ نے ان بھرتیوں کو کالعدم قرار دیا تھا اور اسی کے نتیجے میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج اقبال حمیدالرحمن نے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا تھا۔

یہ وہی اعلی ترین احتسابی عدالتی کونسل ہے جہاں چیف جسٹس ثاقب نثار سمیت سپریم  کورٹ کے پانچ دیگر ججوں کے خلاف ریفرنسز موجود ہیں لیکن ان کو ابھی تک سماعت کے لئے بھی مقرر نہیں کیا گیا۔

 عدالتوں کی کوریج کرنے والے صحافی جانتے ہیں کہ خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کی عدالتی معاملات پر نظر رکھنا اور بعض أوقات ان میں مداخلت کرنا کوئی نئی بات نہیں۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری نے تو بعض اہلکاروں کے عدالت میں داخلے پر بھی پابندی عائد کر رکھی تھی ۔ یہاں ایک اور واقعہ کا ذکر بھی ضروری ہے ۔ پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کی سماعت کے دوران مختلف خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار بڑی باقاعد گی سے خصوصی عدالت میں آتے تھے ۔ جس دن عدالت نے پرویز مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دی تو ایک خفیہ ایجنسی کا اہلکار جذبات پر قابو نہ رکھ سکا ۔ وہ جج صاحبان کی موجودگی کی پرواہ کیے بغیر پرویز مشرف کے وکلا کی ٹیم کے روسٹرم پر کھڑے ایک رکن کے ساتھ بغل گیر ہو گیا۔ نوجوان وکیل نے صورتحال کو بھانپتے ہوئے اس اہلکار کو خود سے الگ کیا اور پنجابی زبان میں اس کے کان میں سر گوشی کی کہ "مریں، ججاں نوں تے اٹھ لین دے” اس کے علاوہ نواز شریف کے مقدمے کی سماعت کرنے والے احتساب عدالت کے جج کے ساتھ چیمبر میں ملاقات کرنے والے خفیہ ایجنسی کے افسر کو اس وقت خفت کا سامنا کرنا پڑا جب ایک صحافی نے اپنے موبائل فون سے ان کی فوٹیج بنا لی تھی ۔

ان واقعات سے ہٹ کر بھی پاکستان کی عدالتی تاریخ چیخ چیخ کر یہ بتاتی ہے کہ اعلی عدلیہ میں فیصلہ سازی کس کی مرضی اور منشا کے تابع رہی ہے ۔ اس کے باوجو کچھ لوگ اب بھی اس سسٹم پر یقین رکھتے ہیں اور شاید شوکت عزیز صدیقی بھی انہی میں سے ایک ہیں ۔ انہوں نے اپنی برطرفی کے فیصلے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی ہے ۔ اس اپیل میں انہوں نے اپنے سابقہ موقف پر قائم رہتے ہوئے متعدد اہم قانونی نقاط اٹھائے ہیں ۔ اس اپیل کو سماعت کے لئے مقرر کیا جاتا ہے یا نہیں اور اگر کیا جاتا ہے تو اس کا نتیجہ کیا ہو گا یہ سب کہنا قبل از وقت ہو گا لیکن اس تحریر کا اختتام شوکت عزیز صدیقی کیلئے میر تقی میر کے اس شعر کے ساتھ ۔

میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب

 اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں

 

تعارف: عبدالشکور خان سپریم کورٹ سے ڈان نیوز کیلئے ماضی میں رپورٹنگ کرتے رہے ہیں ۔

2 Comments
  1. نمیر حسن مدنی
    عبدالشکور بھائی آپ کا کیا ارادہ ہے؟
  2. نثار احمد
    جناب زبردست کالم ہے ماشاءاللہ مگر ساتھ ہی سوچنے پر بھی مجبور ہوا کہ یہی روش رہی تو عدالتوں سے" بعض" معاملات میں انصاف کی توقع عبث ہے

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے