کالم

کمرہ عدالت وہی مگر ماحول بدلا ہوا

نومبر 26, 2018 4 min

کمرہ عدالت وہی مگر ماحول بدلا ہوا

Reading Time: 4 minutes

چیف جسٹس ثاقب نثار برطانیہ کے دورے پر ہیں ۔ ان کی غیر موجودگی میں جسٹس آصف کھوسہ نے قائم مقام چیف جسٹس ہونا تھا مگر وہ بھی برطانیہ میں ہیں (مگر یہ بات شاید ہی کسی کو معلوم ہو) ۔ بتایا گیا ہے کہ وہ کسی عالمی کانفرنس میں گئے ہیں مگر میڈیا سے دور ہیں ۔

اس وجہ سے جسٹس گلزار احمد قائم مقام چیف جسٹس ہیں اور کمرہ عدالت ایک میں مقدمات سنتے ہیں ۔ معمول کے مطابق صبح ساڑھے نو بجے عدالت میں پہنچا تو مقدمات کے نمبر پکارے جانے لگے ۔ غلام قادر اور اللہ یار کے مقدمے میں وکیل نے بتایا کہ ایک درخواست پر دونوں کو صلح کر کے معاف نہیں کیا جا سکتا ۔ جسٹس گلزار احمد نے پوچھا کہ کیا دونوں نے دیت اکھٹی جمع کرائی ہے؟ اس نے اپنی بیٹی کو قتل کیا ہے نا؟

وکیل نے متعلقہ قانون کی شق پڑھی تو جسٹس گلزار نے مدعا علیہ کے وکیل سے کہا کہ آئندہ سماعت پر تفصیل لے کر آئیں اور دلائل دیں کہ دیت الگ الگ ہوگی یا نہیں ۔

اگلے مقدمے میں وکیل نے کہا کہ درخواست گزار ایلیٹ فورس میں ڈرائیور تھا ۔ ایک جگہ چھاپہ مارنے کیلئے جا رہے تھے کہ حادثہ ہو گیا جس میں درخواست گزار ڈرائیور بھی زخمی ہوا، حکام نے بتایا بھی کہ غلطی ٹرک ڈرائیور کی تھی مگر میرے موکل کو ایلیٹ فورس سے نکال دیا گیا ۔

جسٹس گلزار احمد نے وکیل کو ٹوکتے ہوئے کہا کہ ڈس مس ۔ وکیل نے کچھ کہنے کی کوشش کی تو جسٹس گلزار نے کہا کہ آپ کی درخواست خارج کی جا چکی ہے، مقدمہ ختم ہو چکا ہے ۔ وکیل نے کہا کہ میری گزارش سن لیں ۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ جس قسم کے الفاظ درخواست گزار نے استعمال کئے ہیں وہ آپ نے پڑھے ہیں؟ ڈس مس ۔

اگلے مقدمے میں وکیل نے کہا کہ مجھے کیس کا میمو ابھی عدالت کی جانب سے فراہم کیا گیا ہے اس لئے مہلت چاہئے ۔ جسٹس گلزار احمد نے عدالتی عملے سے پوچھا کہ ایسا کیوں کیا گیا؟ کورٹ ایسوسی ایٹ نے کچھ بتایا تو جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ تاریخ دیکھی ہے ہم ۲۰۱۸ کے کس ماہ میں ہیں؟ کون لے کر بیٹھا ہوا تھا، بلا لیں اسے ۔ اس کے بعد وکیل سے کہا کہ ہم نے اپنے آفس والوں کو بلایا ہے ۔

عدالتی ہرکارے نے مقدمہ نمبر بارہ پکارا تو میری نظر دیوار پر لگے گھڑیال کی طرف اٹھی، سوئیاں نو بج کر پچاس منٹ پر تھیں ۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ یہ اپیل ۶۱ دن تاخیر سے دائر کی گئی ہے اس لئے تاخیر کو معاف کرنے کی درخواست بھی مسترد کی جاتی ہے ۔ پختونخوا کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ تحریری فیصلہ تاخیر سے ملنے اور متعلقہ دستاویزات لگانے میں دیر ہوئی ۔

جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ یہ اپیل تو اب اس بنیاد پر قابل سماعت ہی نہیں کہ مقررہ وقت میں دائر نہیں کی گئی مگر اس فیصلے سے حکومت کو جو نقصان ہوا اس کا کیا ہوگا؟ ۔ اگر کوئی نقصان اس اپیل کے خارج ہونے سے ہوا تو متعلقہ افسران سے وصول کیا جائے جنہوں نے تاخیر کی ۔

اس کے بعد عدالت نے تاخیر سے دائر کرنے کی وجہ سے اپیل کو ناقابل سماعت قرار دیا اور حکم دیا کہ حکومت خود محکمہ مال اور محکمہ صحت کے ان افسران کے خلاف کارروائی کرے جنہوں نے تاخیر کی اور ان سے نقصان بھی وصول کیا جائے ۔

اگلے مقدمے کی آواز لگنے سے قبل ہی وکیل اکرم شیخ روسٹرم پر آ گئے اور بولے کہ تیرہ نمبر پر میرا کیس ہے اور پوری رات سفر کر کے پہنچا ہوں، پوری تیاری کی ہے مگر عدالت میں آ کر معلوم ہوا کہ اس مقدمے میں پیش ہونے والے تین دیگر وکیلوں نے مقدمہ ملتوی کرنے کی درخواستیں کی ہیں ۔ مجھے بھی دوسرے وکیلوں کی طرح اگر اطلاع پہلے کر دی جاتی تو آج عدالت نہ آتا ۔

جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ کیا کریں آپ کے وکیلوں کا ہی معاملہ ہے ۔ کیا ان پر جرمانہ کر کے آپ کو دلوا دیں؟ اکرم شیخ نے کہا کہ نہیں نہیں، مجھے کوئی گلہ نہیں، بہت بہت شکریہ ۔ بس عدالت کے علم میں لانا تھا کہ احترام میں پیش ہوا ہوں ۔

مقدمہ نمبر چودہ پکارا گیا تو جسٹس گلزار احمد نے پنجاب کے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل طارق محمود سے کہا کہ پولیس کے محکمے نے ماتحت عدالت کے فیصلے کے خلاف یہ اپیل جان بوجھ کر تاخیر سے دائر کی ہے، اس اہلکار نے کیا کیا تھا جو اس کی تنزلی کی گئی تھی؟

عدالت کو بتایا گیا کہ سب انسپکٹر غلام مرتضی نے ملزم آفتاب قمر کو پولیس حراست سے فرار کرایا تھا جس پر اس کا رینک کم کیا گیا ۔ محکمے نے اس کے خلاف کارروائی کی تو یہ سروس ٹریبونل چلا گیا جہاں حکم دیا گیا کہ قانون کے مطابق محکمانہ کارروائی مکمل کرنے کیلئے انکوائری ضروری ہے ۔ انکوائری تو ہو چکی تھی مگر وہ ٹریبونل میں پیش نہ کی گئی جس کی وجہ سے اس کا رینک بحال کر دیا گیا ۔

جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ یہ ساری چیزیں اس پولیس اہلکار کے حق میں مینج ہوئی ہیں ۔ ٹریبونل کے فیصلے کے خلاف عدالت میں اپیل بھی اسی وجہ سے تاخیر سے دائر کی گئی تاکہ اسی بنیاد پر خارج ہو جائے اور اسے فائدہ پہنچے ۔ یہ سب جان بوجھ کر کیا گیا ۔

عدالت نے فیصلے لکھتے ہوئے تاخیر سے دائر کئے جانے کی وجہ سے پولیس محکمے کی اپنے اہلکار غلام مرتضی کے خلاف اپیل خارج کر دی تاہم حکم دیا گیا کہ جن افسران نے اپیل دائر کرنے میں تاخیر کی ان کے خلاف کارروائی کر کے دو ماہ میں رپورٹ سپریم کورٹ رجسٹرار کے پاس جمع کرائی جائے ۔

چند منٹ میں اگلا مقدمہ بھی ختم ہو گیا اور یوں ساڑھے نو بجے بیٹھنے والے تین ججوں نے دس بجے تک پندرہ مقدمات سن کر عدالت برخاست کی ۔ چیف جسٹس کی عدم موجودگی اور سیاسی مقدمے کی فہرست میں شامل نہ ہونے کی وجہ سے سکون کا سانس لیا اور کمرہ عدالت نمبر دو کا رخ کیا ۔

اور پھر وہاں بھی تمام مقدمات گیارہ بجے سے قبل ہی سن لئے گئے ۔ سائلین اور وکیلوں کے ساتھ رپورٹرز بھی پرسکون ہو کر اپنے دفتروں کو روانہ ہوگئے ۔

سپریم کورٹ سے اے وحید مراد

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے