کالم

جرنیلی کاروبار پر عدالتی کارروائی

جنوری 1, 2019 5 min

جرنیلی کاروبار پر عدالتی کارروائی

Reading Time: 5 minutes

سپریم کورٹ نے لاہور ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی اور ایڈن ڈویلپرز کے تنازعے سے متاثرہ پلاٹ خریداروں کی درخواست پر لئے گئے ازخود نوٹس میں پہلے دونوں فریقوں کو معاملات عدالت سے باہر حل کرنے کیلئے کہا، پھر زمین ڈی ایچ اے کے حوالے کرنے کی آبزرویشن دیتے ہوئے فیصلہ بھی محفوظ کر لیا ۔

چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی عدالتی بنچ نے مقدمے کی سماعت شروع کی تو ایک وکیل نے گزشتہ عدالتی حکم نامہ پڑھا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس کا مطلب ہے عدالت سے باہر تصفیہ نہیں ہو سکا ۔ ایڈن کے وکیل احسن بھون نے کہا کہ بادشاہ کے ساتھ تجارت کریں گے تو نقصان میں رہیں گے یہی معاملہ ہے ۔

چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بادشاہی تو آپ نے کی ہے، آپ بادشاہ کو لوٹ کر لے گئے، گیارہ ہزار سات سو متاثرین ہیں جو کو پلاٹ دینے کے نام پر لوٹ لیا گیا ۔ وکیل نے کہا کہ ہمارے پاس اس وقت بھی زائد زمین موجود ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم یہ ساری زمین ڈی ایچ اے کے حوالے کریں گے اور آپ کے مالی مفادات کا تحفظ کریں گے، دوسری صورت میں آپ سول کورٹ جا سکتے ہیں یا پھر ثالث کے ذریعے معاملہ حل کیا جا سکتا ہے ۔ ڈی ایچ اے ہی اس پراجیکٹ کو سنبھالے گی، یہ بھی ممکن ہے کہ اس پر عمل درآمد بنچ بنا دیں، ڈی ایچ اے کو کھلی چھوٹ نہیں دے سکتے، ہم نے اس کو بیلنس کرنا ہے، ڈویلپمنٹ ہوگی تب ہی لوگوں کو پلاٹ ملیں گے، ہو سکتا ہے دونوں اطراف سے زیادتی ہوئی ہو ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ الزام ہے کہ ایڈن والے تیرہ ارب روپے لوٹ کر لے گئے، اس اسکیم سے آدھا لاہور لٹ گیا، دونوں ذمہ دار ہیں، ہم دوںوں کے مالی مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں ۔ اسی دوران روسٹرم سے ذرا پیچھے کھڑے متاثرہ شہری نے کہا کہ آپ نے ان دوںوں کے مفادات کے تحفظ کی بات کی تو ہم نے بھی دس سال سے لاکھوں روپے دیئے ہوئے ہیں جو ان کے پاس پڑے ہیں کچھ ہمارے مفادات کیلئے بھی کر لیں ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جو آدمی عدالت میں غیر مناسب بات کرتا ہے اس کیلئے کچھ نہیں کریں گے، عدالت میں مناسب بات کیا کریں، ہم نے ازخود نوٹس لیا ہے ختم کر دیں گے پھر جا کر لے لیں، جب آپ کا پلاٹ بنے تو چار کروڑ کا ہو جائے گا، یہ آپ کا مفاد ہو جائے گا ۔ متاثرہ شخص نے سوری کہا اور پیچھے ہٹ گیا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سوری نہیں بیٹا، مناسب بات کیا کریں ۔

چیف جسٹس نے اپنی بات جاری رکھی اور کہا کہ عدالت کے انسانی حقوق سیل میں آئی ایک لاکھ نو ہزار درخواستیں نمٹائی ہیں ۔ ایک وکیل نے کہا کہ مجھے بھی سن لیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ متاثرین کی طرف سے کیوں آ گئے؟ ڈی ایچ اے کے اپنے مالی مفادات ہیں اس کا بھی تحٖفظ کرنا ہے، کسی متاثرہ کی درخواست نہیں سنیں گے، کیوں متاثرین سے فیس لیتے ہیں یار ۔ وکیل نے کہا کہ میں نے فیس نہیں لی، میرے کلاس فیلو ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ان کے خیر خواہ ہیں، آپ تشریف رکھیں ۔

اس کے بعد عدالت نے سماعت میں وقفہ کرتے ہوئے فریقین کو بیٹھ کر معاملہ حل کرنے کا ایک اور موقع دے دیا ۔

وقفے کے بعد عدالت کو بتایا گیا کہ حل نہیں نکل سکا، فریقین کسی بھی صورت اپنے مفادات سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ۔ چیف جسٹس نے ایڈن کے زیر حراست ڈائریکٹر حماد ارشد سے پوچھا کہ اپنی بیگم سے ملے ہیں؟ وہ عدالت میں بیٹھی ہیں جا کر مل لیں، چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی وقفے کے دوران مل لیتے ۔

وکیل اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ بدقسمتی سے شادی کے سترہ دن بعد حماد ارشد کو گرفتار کر لیا گیا تھا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جتنی بدقسمتی ہے مجھے بھی معلوم ہے ۔ عدالت میں ڈی ایچ اے کے وکیل نے مقدمے کے حقائق بتاتے ہوئے کہا کہ کل 25000 کنال کا پراجیکٹ تھا، اس میں سے 50 فیصد زمین کمرشل جبکہ 50 فیصد پر رہائشی پلاٹ تھے، گلوبیکو کمپنی نے زمین دینی تھی، اس کمپنی کے ڈائریکٹر طارق صدیق جبکہ حماد ارشد شیئر ہولڈر تھے ۔

وکیل نے بتایا کہ ڈی ایچ اے نے اپنا نام پراجیکٹ میں 30 فیصد شیئر کے عوض بیچا جبکہ کمرشل زمین 100 فیصد نجی ڈویلپر کو جانا تھی ۔ وکیل نے بتایا کہ ڈی ایچ اے کو 5 مرلے کے 14 ہزار پلاٹس جبکہ 8 مرلے کے 6 سو پلاٹس ملنا تھے ۔ یہ 26 نومبر 2009 کا معاہدہ تھا، ڈی ایچ اے نے اپنے نام کے عوض ساڑھے تین ارب کی رائلٹی لینا تھی ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت کون جنرل تھا جس نے یہ منصوبہ بنایا؟۔ وکیل نے بتایا کہ جنرل بخشی تھے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اب بھی اللہ نے ان کو بخشا ہوا ہے؟ ڈی ایچ اے کے وکیل نے بتایا کہ وہ ریٹائر ہو چکے، اسلام آباد میں رہ رہے ہیں ۔ وکیل نے بتایا کہ پلاٹوں کی فروخت سے ملنے والی رقم مشترکہ اکاؤنٹ میں آئی ۔ جس دن پلاٹوں کے فارم کی قرعہ اندازی ہوئی ایڈن کے پاس 2719 کنال زمین تھی، انہوں نے معاہدے کی خلاف ورزی کی اور زیادہ پلاٹ بیچے، ان کو تیرہ ارب روپے کی رقم شروع میں ہی مل گئی ۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا ہاوسنگ سوسائٹیاں بنانا آرمی کا کام ہے، فوج کا کام ہے کہ وہ سرحدوں پر ملک کی حفاظت کرے نہ کہ کمرشل سرگرمیوں میں حصہ لے، کیا کسی اور ملک کی فوج یہ کرتی ہے ۔ ڈی ایچ اے کے وکیل نے کہا کہ ملائیشین آرمی ہاوسنگ سوسائٹیوں کا کام کرتی ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ نے صرف ایک ہی ملک کی فوج کے ماڈل اپنا لیا ۔

وکیل نے کہا کہ ڈی ایچ اے کے پلاٹ شہدا کے ورثا اور بیواؤں کیلئے ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ لوگ بیواؤں اور شہدا کو شیلڈ کے طور پر سامنے رکھ کر رائلٹی لیتے ہیں اور اپنا کاروبار چلاتے ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم یہی حکم دے دیتے ہیں ڈی ایچ اے یہ زمین لے اور تین ماہ میں متاثرین کو پلاٹ دیے جائیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میں ایک ایسا کیس لگانے لگا ہوں، آپ کو بتاوں گا، سب کو بتاوں گا، آرمی کو بتاوں گا ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جب جب آپ اسکیموں میں گئے آپ کا نام خراب ہوا، آپ نے وہ زمینیں خریدیں جو متنازعہ تھیں، ایسا کون سی آرمی کرتی ہے، ایسا کر کے آپ نے اپنی گڈول بھی بیچ دی، ایڈن اور ڈی ایچ کے درمیان جتنے معاہدے ہوئے ہم ان کو ختم کر دیتے ہیں، حکم جاری کر دیتے ہیں جتنے جائز پیسے بنتے ہیں ڈی ایچ اے والے ایڈن کو ادائیگی کریں ۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہ تنازعہ اٹھے گا کہ کس کے کتنے پیسے ہیں، ڈی ایچ اے کو گارنٹی دینی ہوگی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ڈی ایچ اے کے نام پر لوگوں سے پیسے لیے گئے، جس کا جتنا حق بنتا ہے اس کو ملنا چاہیے ۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ایڈن ہاوسنگ نے جتنی اراضی دی اس کی ادائیگی ہونی چاہیے، جائز رقم کا تعین کر کے اس کی ادائیگی کرنا ہوگی ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ڈی ایچ اے عسکری بینک یا کسی بھی بینک سے ادائیگی کرے، ڈی ایچ اے کا نام بیچ کر 13 ارب روپے اکھٹے کئے، 6 سال سے لوگوں کا پیسہ لے کر بیٹھ گئے ۔ عدالت نے ڈی ایچ اے اور ایڈن کے درمیان تمام معاہدے کالعدم کر دیے ۔ تفصیلی فیصلہ لکھنے کی بات کرتے ہوئے چیف جسٹس نے معاملہ حل کرنے کے لیے عمل درامد بینچ بنانے کا عندیہ بھی دیا ۔

زیر حراست ایڈن کے شیئر ہولڈر حماد ارشد کی اہلیہ نے اپنے شوہر کو ضمانت پر رہا کرنے کی استدعا کی تو عدالت نے قرار دیا کہ خرد برد کے الزام میں نیب کے زیر حراست ملزمان ضمانت کیلئے متعلقہ فورم سے رجوع کریں ۔  عدالت نے کہا کہ ایڈن ہاوسنگ کی جانب سے بیچی گئی 11 ہزار فائلوں کو ڈی ایچ اے 5 سال میں ڈویلپ کر کے پلاٹ متاثرین کو دے گا ۔

سپریم کورٹ سے اے وحید مراد

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے