کالم

جنرلوں کے کارنامے

جنوری 12, 2019 5 min

جنرلوں کے کارنامے

Reading Time: 5 minutes

اظہر سید

امریکیوں کو افغانستان میں جی ایچ کیو یا جنرل مشرف نہیں لایا تھا ۔ افغانستان میں امریکی بھارتی اتحاد کے پیچھے بھی جی ایچ کیو کا کوئی جنرل نہیں تھا ۔ بگرام ائر بیس پر پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو دہشت گردوں سے بچانے کے بہانے تعینات کردہ امریکیوں کی خصوصی ڈیلٹا فورس کے پیچھے بھی کوئی فوجی کمانڈر نہیں تھا ۔ جنرل مشرف پر غداری کے جو الزامات دل کرے لگائیں کم از کم افغانستان میں اچھے اور برے طالبان کا جو کھیل کھیلا گیا اس نے امریکی قیادت میں دنیا کی جدید ترین فوجی مشین ناٹو کو ہی ناکام نہیں کیا بھارت کی اربوں ڈالر کی افغان سرمایہ کاری کو بھی برباد کر دیا ہے ۔ امریکی اگر افغانستان میں کامیاب ہو جاتے ۔ بھارت امریکہ اتحاد اگر یہاں قدم جمانے میں کامیاب ہو جاتا تو اس کا حتمی ہدف ایٹمی اثاثے ہی بنتے ،یہ اتحاد اگر کامیاب ہو جاتا تو پاکستان نیپال کی طرح بھارت کی ایک طفیلی ریاست بن جاتا ۔
پاکستان پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں ایک خوفناک جنگ مسلط کی گئی ۔ جو تنقید نگار کہتے ہیں قبائلی علاقہ جات میں دہشت گردی کے پیچھے وردی ہے اور وردی تھی انہیں یہ بھی بتانا چاہے جو خود کش حملے اور دہشت گردی کبھی قبائلی علاقہ جات سمیت پاکستانی شہروں پر مسلط تھی ۔ پی سی تھری اورین طیارے جو ہنگروں میں تباہ کئے گئے ۔مختلف شہروں میں آئی ایس آئی کے دفاتر کو جو نشانہ بنایا گیا اور جی ایچ کیو پر جو حملہ کیا گیا کیا ان کے پیچھے کون تھا ؟کوئی جمعہ ایسا نہیں گزرتا تھا جب کوئی خود کش حملہ آور نمازیوں میں جا کر نہ پھٹتا ہو ۔
پاکستان پر بھارت اور امریکیوں کے اچھے پاکستانی طالبان مسلط کئے گئے تھے جواب میں پاکستانی جنرلوں نے اپنے اچھے افغان طالبان ان پر مسلط کر دئے ۔حقانی نیٹ ورک مسلط کر دیا ۔ امریکیوں نے داعشیوں کو لا کر کامیابی کی آخری کوشش کی لیکن اس کوشش نے روسیوں اور چینیوں کے ساتھ ایرانیوں کے بھی کان کھڑے کر دئے اور سب نے پاکستان کے ساتھ مل کر افغانستان کے گرد ایک دائرہ بنا لیا ۔ پاکستان دشمن جنرل رزاق کو جس اجلاس میں قتل کیا گیا وہاں موجود امریکی جنرل کو چھوڑ دیا گیا یہ ایک پیغام تھا امریکیوں کیلئے ۔امریکیوں نے یہ پیغام لے لیا ہے اور اب وہ واپس جا رہے ہیں ۔کوئٹہ میں خود کش حملہ ہوا اور طویل عرصہ کے بعد ہوا 12 گھنٹہ کے اندر کابل میں را کے اسٹیشن چیف کو قتل کر دیا گیا ۔یہ ایک پیغام تھا بھارتیوں کیلئے "ہنی مون ختم ہوا گھر جاو” ۔
امریکی واپس جائیں گے ۔افغانستان میں مستقبل کا کوئی بندوبست نہ ہوا وہ پھر بھی جائیں گے ٹرمپ بہت سیانا ہے وہ کہتا ہے "ہم افغانستان میں کیا کر رہے ہیں یہ تو روس چین اور پاکستان کا مسلہ ہے”۔
افغانستان میں پاکستان کی کامیابی کے پیچھے جنرل مشرف کی مغرب کیلئے دوغلی اور پاکستان کیلئے ناگزیر حکمت عملی تھی ۔11 ستمبر کے بعد امریکی بپھرے ہوئے تھے پوری دنیا ان کے ساتھ سوگ میں مصروف تھی وہ افغانستان ایک حکمت عملی کے تحت آرہے تھے ۔ کیا اس بدمست جنگی مشین کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو جاتے ؟ اس وقت امریکیوں کا ساتھ دینے کا فیصلہ اور بعد میں امریکیوں کو دھوکہ دینے کا فیصلہ دونوں ٹھیک تھے ۔ان فیصلوں کی بھاری قیمت ادا کی گئی ہے لیکن اس جنگ نے دہشت گردی کے بدترین دور میں پاکستانی معیشت کو زندہ رکھا ۔8 اکتوبر کا خوفناک زلزلہ آیا اور دو بدترین سیلاب آئے ۔توانائی کا بدترین بحران رہا لیکن افغان جنگ کی وجہ سے آنے والے امریکی ڈالروں نے پاکستانی معیشت کو بھی دیوالیہ نہیں ہونے دیا اور جنرل بھی خوش باش رہے ۔پیسے امریکیوں کے تھے اور مزے جنرلوں کے تھے ۔امریکی افغانستان میں خوب ہی لڑے اور خوب ہی مرے اپنی معیشت کو بھی ستیا ناس کروایا لیکن اب شائد امریکیوں کو عقل آگئی ہے ۔ پاکستانی جنرلوں کی تو شائد خواہش ہو جہاں ستیا ناس ہوا وہاں سوا ستیاناس بھی سہی لیکن امریکی اب جھانسے میں آنے کیلئے تیار نہیں ۔
سب سے زیادہ خراب حالت بھارتیوں کی ہے ۔ چالاک بنیے نے نہ جانے کس حکمت عملی پر اپنے تمام انڈے افغان حکومت کی ٹوکری میں ڈال دئے ۔ افغان طالبان کے ساتھ بھارتیوں کے کوئی رابطے ہی نہیں تھے ۔ان عقل مندوں نے یہ بھی نہ سوچا کل امریکی اگر بھاگ گئے تو ہم کہاں کھڑے ہونگے اب امریکی بھاگ رہے ہیں بنیا ہکا بکا کھڑا ہے ۔
سارا کھیل اب پاکستان کے ہاتھ میں ہے ۔پیسے بھارتیوں کے لگے چار ارب ڈالر تو سرکاری ہیں جو ترقیاتی منصوبوں کے نام پر ہیں ۔دس سال میں دس ارب ڈالر بھارتیوں نے غیر سرکاری طور پر دہشت گردی کا ڈھانچہ کھڑا کرنے پر صرف کئے تھے "وہاں بھی ملک کے بہترین مفاد مین قومی سلامتی کے بجٹ کا آڈٹ نہیں ہوتا” تاکہ مقبوضہ کشمیر کا بدلہ افغانستان کو پلیٹ فارم بنا کر سقوط ڈھاکہ کے دن آرمی پبلک سکول پر حملہ جیسی دہشت گردی سے لیا جائے ۔امریکی طالبان سے براہ راست بات چیت کر رہے ہیں اور بھارتیوں کی طرف ایک غلط نگاہ بھی نہیں ڈالتے ۔ بھارتی تو کیا امریکی اشرف غنی کی طرف بھی نہیں دیکھ رہے بس دیکھ رہے ہیں تو امید بھری نطروں سےپاکستانی جنرلوں کی طرف "پلیز ہمیں جانے دو” ۔
ایک کارنامہ جنرل مشرف کا اچھے طالبان کا تھا تو دوسرا کارنامہ جنرل راحیل شریف کا آپریشن ضرب عضب کا تھا ۔اس آپریشن کی کامیابی کیلئے بہت قربانیاں ہوئی ہیں لیکن ان قربانیوں نے بھارتیوں اور امریکیوں کے اچھے طالبان کا بیڑا غرق کر دیا ہے ۔
ہمیں نہیں پتہ نواز شریف آپریشن کے پیچھے مستقبل کی افغان صورتحال تھی کہیں نواز شریف بھارتیوں کو افغانستان میں کوئی ریلیف نہ دے دے ۔ہمیں نہیں خبر نواز شریف فراغت کے پیچھے سی پیک منصوبے کی بعض شرائط تھیں ۔ ہم یہ بھی نہیں جانتے سابق وزیراعظم کو کہیں ان کے ناقابل شکست ہونے کے خوف کی وجہ سے فارغ کیا گیا ہے لیکن ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ نواز شریف کی فراغت کا آپریشن دوسرا کارگل ہے ۔ جس طرح بقول جنرل مشرف کے بھارتیوں نے کارگل میں اوور ریکٹ کیا اسی طرح نواز شریف کی فراغت پر معیشت نے اوور ریکٹ کیا ہے ۔ ضروری نہیں تمام حکمت عملیاں افغان حکمت عملی کی طرح کامیاب ہوں ۔ کچھ حکمت عملیاں کارگل کی طرح گلے بھی پڑ جاتی ہیں ۔ نواز شریف کے متعلق بنائی گئی حکمت عملی گلے پڑ گئی ہے اور جس حکومت کا تحفہ دیا گیا ہے وہ اس گلے پڑے ڈھول کا بجانے سے قاصر ہے۔
معیشت تباہ ہو رہی ہے یہ نہ سنبھالی تو تمام کامیابیوں کو گہنا دے گی اور ملکی سلامتی بھی خطرے میں پڑ جائے گی ۔نواز شریف کو جیل میں کچھ ہو گیا تو برباد معیشت کے ساتھ پنجاب میں عوامی غم و غصہ کا رخ حکومت کی طرف نہیں بلکہ حکومت کو لانے والوں کی طرف ہو جائے گا ۔ پہلے معیشت درست کر لیں اس کو مستحکم کر لیں پھر بھلے جو دل آئے کریں ۔معیشت مستحکم نہ ہوئی تو اس کے منفی اثرات خود فوج پر بھی پڑیں گے اس سے پہلے سوویت یونین کی طاقتور فوج اپنی تمام تر خواہش کے باوجود سوویت یونین کی تحلیل کو روک نہیں پائی تھی اور تباہ حال معیشت سوویت جنرلوں کی خواہشات کی راہ میں حائل ہو گئی تھی ۔
قومی اتحاد ناپید ہو چکا ہے ۔ ملک تیزی سے دیوالیہ ہونے کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ اسٹیبلشمنٹ کے روائتی حلیف عدلیہ، میڈیا اور مذہبی عنصر عوام کی نظر میں اپنا احترام کھو چکے ہیں جبکہ نئے سیاسی حلیف کو جس عوامی غصہ کا سامنا ہے حقیقت میں اس کا ہدف بھی روائتی اسٹیبلشمنٹ بن رہی ہے ۔معاملات کو سنبھال لیں اس سے پہلے بہت دیر ہو جائے ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے