کالم

امی ابو کہاں گئے؟

جنوری 20, 2019 2 min

امی ابو کہاں گئے؟

Reading Time: 2 minutes

قبریں ہی جانتی ہیں کہ اس شہر جبر میں
مر کر ہوئے ہیں دفن کہ زندہ گڑے ہیں لوگ

مجھے نہیں سمجھ آرہی کیا لکھوں اور کون سے الفاظ استعمال کروں جو اس کرب کو بیان کر سکیں جس سے میرے سمیت کئی ذی شعور انسان اسوقت گزر رہے ہیں۔میڈیا پر ساہیوال کے سانحے کی ویڈیوز میری آنکھوں کے سامنے ہیں۔دو معصوم خاموش بچیان جنھیں شاید اسوقت یہ بھی پوری طرح معلوم نہیں کہ کیا قیامت ان پر گزر چکی ہے۔انکی بچیوں کی خاموشی اور خالی آنکھیں اس معاشرے سے کئی سوال کر رہی ہیں جن کا جواب دینے والا کوئی نہیں۔۔۔

مجھے نہیں پتہ کہ ان بچیوں کے والد یا خاندان کے کسی اور فرد کا کیا قصور تھا۔لیکن یہ ضرور معلوم ہے کہ ان کمسن پھولوں کے سامنے ظلم اور بربریت کی ایک داستان رقم کی گئی ہے جس کو شاید ساری زندگی یہ بھلا نہ پائیں، ان بچیوں کی نظریں ساری زندگی ماں باپ کے ان رشتوں کی تلاش میں رہیں جنھیں بے دردی سے انکے سامنے ختم کر دیا گیا

عمر کا وہ حصہ جس میں ان بچیوں نے اپنی والدہ کے گود میں سر رکھ کر ابھی لوریاں سننی تھی اپنے بابا کے ساتھ سیر کرنی تھی۔۔اس عمر میں انہیں ان رشتوں سے محروم کر دیا گیا۔۔آج نہیں تو کل یہ بچیاں جب سوال کریں گی کہ ہمارے امی ابو کہاں گئے۔۔۔تو کیا جواب ہوگا پورے معاشرے کے پاس انکے اس سوال کا۔۔۔۔جب یہی بچیاں سوال کریں گی کہ انکے ماں باپ کو کیوں دن دیہاڑے خون میں نہلا کر موت کے گھاٹ اتارا گیا تو کیا جواب ہوگا اس ملک کے حکمرانوں کے پاس۔۔۔۔

سانحہ ساہیوال کوئی پہلا واقعہ نہیں، ایسے واقعات شاید ملک کے ہر حصے میں ہوتے ہیں۔لیکن انصاف کسی کو کب ملے گا اس سوال کا جواب میرے سمیت کسی کے پاس نہیں۔ کیا کسی کو یہ حق ہے کہ وہ قانون اپنے ہاتھ میں لے اور اپنے تئیں انصاف کرتا پھرے۔۔۔کیا اس جواب ہے کسی حکمران کے پاس۔۔اگر ساہیوال میں ہونے والے سانحے میں مارے جانے والے مجرم تھے تو انہیں عدالت کے سامنے پیش کرناچاہیے تھا یا انکو قتل کرناچاہیے تھا۔۔اس سوال کا جواب کون دے گا۔۔اور سب سے بڑھکر ان یتیم بچیوں کو ماں اور باپ کا پیار کون دے گا۔کیا اب تک اس قتل عام میں ملوث اہلکاروں کو ہتھکڑیاں لگائی گئی اتنے شواہد سامنے آنے کے بعد، یا وہ ہتھکڑیاں کسی استاد اور ضعیف العمر ملزم یا کسی سیاسی مخالف کےلئے سنبھال کر رکھی گئی ہے، ان اہلکاروں سے جواب کون طلب کرے گا اور ان بچیوں کو انصاف کون دےگا، ان کےماں باپ تو ہم شاید واپس نہیں لاسکتے نہ ہی انکے کسی سوال کا جواب دے سکتے ہیں لیکن ان بچیوں کو وہ پیار، مقام تو دے سکتے ہیں جو انکا حق ہے، کیا ریاست اپنی ان بیٹیوں کے ساتھ ہونے والے ظلم کا مداوا کر پائے گی یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ابھی ہمیں ڈھونڈنا ہے؟؟؟
ہمیں اب دعوؤں سے نکل کر عملی کام کرنا ہوگا۔ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا ہوگی، ریاست کو بلاتفریق اپنے فرائض انجام دینا ہونگے۔۔حکمران ہو یا عام شہری سب کےلئے انصاف کا معیار اور نظام ہو گا تو ظلم اور ناانصافی رک سکے گی اور آنے والی نسلوں کو ہم محفوظ اور انصاف پسند نظام دیں گے ورنہ تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی

ہرقتل کے بعد مجھ سے رویا نہیں جاتا
اب لفظ مذمت بھی شرمسار ہے لوگوں

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے