کالم

ماورائے عدالت قتل بربادی کا راستہ ہے

جنوری 22, 2019 3 min

ماورائے عدالت قتل بربادی کا راستہ ہے

Reading Time: 3 minutes

رستم اعجاز ستی

دہشت گردی دہشت گردی کی گردان نائن الیون کے بعد ہمارے ہاں دور آمریت میں شروع ہوئی ۔ ہمیں دنیا نے شاید اتنا دہشت گرد نہیں کہا جتنا ہمارے اپنے حکمران دہشت گرد کہتے رہے حتی کہ ایک سابق چیف جسٹس کیساتھ لڑائی کو بھی ڈکٹیٹر باہر کے دوروں میں یہ کہتا رہا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں رکاوٹ ہے ۔ آمریت اور نام نہاد وار آن ٹیرر نو سال تک ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے چلتی رہی اور انہوں نے ایجنسیوں کی قوت پر بھروسہ کیا ۔ اسی دور سیاہ میں لوگوں کو اٹھانے،گم کر دینے،بیچ دینے کی روایت پڑی ۔ قوم دہائی دیتی رہی یہ ہماری جنگ نہیں ۔ انور مسعود صاحب نے اسی دور میں لکھا ۔
پرائی آگ
سراسر ہے یہ بربادی کا رستہ
یہ کیسی چال ہے جو چل رہے ہو
مرے بھائی مجھے اتنا بتا دو
پرائی آگ میں کیوں جل رہے ہو
اب کہا جا رہا ہے آئندہ پرائی جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے ۔ یہ بہت اچھا فیصلہ ہے لیکن انسانی حقوق کی تنظیمیں کہتی ہیں کہ جس جنگ میں شامل رہے اسکی کوکھ سے ہی جبری گمشدگی نے جنم لیا اس مسئلے کو تو حل کرو ۔ساہیوال کا واقعہ بھی اگر کیمرے کی آنکھ میں محفوظ نہ ہو جاتا تو سب یہی سمجھتے سی ٹی ڈی نے چار دہشت گرد مقابلے میں مار دیئے کیونکہ دہشت گردی کے حوالے سے ملک میں ایسی فضا بنا دی گئی ہے کہ کسی بے گناہ کو بھی مار کر دہشت گرد قرار دے دو کون پوچھے گا.انسانی حقوق کے کارکن ایک عرصے سے کہہ رہے ہیں کوئی کسی دہشت گرد کا حامی نہیں اگر کسی کا قصور ہے تو اسے عدالت میں پیش کرو اور سخت سزا دو.مقابلوں کی تحقیقات کی کرو لیکن کوئی ٹس سے مس نہیں ہوا.نقیب اللہ محسود جعلی مقابلے میں مارا گیا تھوڑے دن شور مچا پھر کچھ نہ ہوا ۔ نقیب کے ساتھ مارے جانے والے ایک شخص کے بارے میں اطلاعات آئیں کہ اسے سی ٹی ڈی نے گھر سے گرفتار کیا تھا،وہ کراچی کیسے پہنچا اور کیسے مقابلے میں مارا گیا لیکن کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوئی ۔

نجانے کتنے لوگ سی ٹی ڈی نے جعلی مقابلوں میں مارے؟ کتنے جبری لاپتہ کئے؟ ساہیوال کے واقعہ کے بعد کس طرح بار بار بیان بدلے گئے ۔ کس طرح تیرہ سالہ بچی کو دہشت گرد قرار دیا گیا.کس طرح نئے پاکستان کے بعض وزرا نے بغیر کسی تحقیق سی ٹی ڈی کی شان میں قصیدے شروع کر دیئے ۔ بچہ بچہ جانتا ہے کہ کس طرح حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی ۔ کیا غریب عوام کی محنت کی کمائی سے وصول کردہ ٹیکسوں سے تنخواہ لینے والے اس کام کے لئے رکھے گئے ہیں کہ بے گناہوں کو گولیاں ماریں اور جعلی مقابلوں میں زیر حراست لوگوں کو گولیوں کا نشانہ بنائیں؟ اب تو متاثرہ فیملی کے بچے بھی چیخ رہے ہیں کہ ہمیں بھی مار دو ہم بھی دہشت گرد ہیں
آپ کی نظروں میں تو ہم سب ہی دہشت گرد ہیں
اس طرح تو قوم کا ہر فرد مارا جائےگا
جنگلوں کا قانون بھی کچھ طے شدہ ضابطوں کا پابند ہوتا ہے یہ تو ریاست کا معاملہ ہے.لاپتہ افراد اور زیر حراست اموات والی کہانیاں ختم ہو جانی چاہیئں.جعلی مقابلے بند ہونے چاہیئیں .اگر کسی کا کوئی قصور ہے تو قانون کے مطابق سخت سزا دی جائے لیکن لوگوں کو خود ساختہ انصاف کا نشانہ بنانے کا سلسلہ بند ہونا چاہئیے ساہیوال واقعہ میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے
بند کرو یہ باوردی غنڈہ گردی
بات یہ اب تو ایک زمانہ کہتا ہے

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے