کالم

میاں صاحب کی باری آ گئی

جنوری 11, 2017 5 min

میاں صاحب کی باری آ گئی

Reading Time: 5 minutes

بات سب کی سمجھ میں آ رہی ہے مگرمان کوئی نہیں رہا۔ سیاست دان، صحافی، جج اور وکیل سب جانتے ہیں مقدمہ سیاسی ہے، اس سے نکلنا کچھ نہیں۔ یہ بات مگر کھل کر کہنے کی جرات کوئی نہیں کرے گا۔ سپریم کور ٹ کے جج کمیشن بنا کر جان چھڑانا چاہ رہے تھے ۔ عمران خان نے کمیشن میں جانے سے انکار اس لیے کیا کہ جانتے ہیں کچھ ثابت ہونا ہے نہ نتیجہ نکلنا ہے۔ ہم جیسے میڈیائی مزدوروں کی دال روٹی بھی خوب چل رہی ہے۔ اور تماش بین قوم روز خوش ہوکر ٹی وی، اخباروں کی خبروں سے امیدیں باندھتی ہے۔ کہتے ہیں تماشائیوں کی بستی میں نوسرباز بھوکے نہیں مرتے، سو سیاستدانوں کی پانچوں گھی میں ہیں اور سر کڑاہی میں۔ وہ جانتے ہیں پانامہ کیس میں جیت جس کی بھی ہو آئندہ الیکشن میں وہ اپنا چورن کسی بھی نام پر بیچ لیں گے۔ لگتا ہے جج ایسا فیصلہ تھما دیں گے کہ تمام فریقین اس کو اپنی کامیابی قراردیتے ہوئے خوشی خوشی سیاست کریں گے۔ غیرمتوازن معاشرے میں عدالتیں سیاسی مقدمات کے ساتھ بھی سیاست ہی کھیلتی ہیں۔
مفت کا وکیل آخر عمران خان کیلئے کتنی دیر کھڑا رہتا، چھٹے روز بھی ججوں نے نعیم بخاری کو چھوڑنے کی بجائے نچوڑنے کا فیصلہ ہی برقرار رکھا تو جگت باز وکیل نے بیماری کا بہانہ بنا کر رخصت لے لی۔ کہا انجکشن لگانے جانا ہے دو گھنٹے کی چھٹی دیدیں، رقیبوں نے اڑائی کہ دلائل بھی انجکشن کے ذریعے ہی بھر کرآئیں گے۔ اس سے قبل نعیم بخاری نے اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ لندن فلیٹوں کی ملکیت کے بیرئیر سرٹیفیکیٹ کس کے پاس تھے اور کب تک رہے اس کا ریکارڈ شریف خاندان کو دینا ہوگا، لغت کے مطابق زیرکفالت وہ ہوتا ہے جس کے اخراجات کوئی اور برداشت کرے، مریم نواز کو آف شور کمپنیاں بنانے کیلئے رقم وزیراعظم نے دی کیونکہ وہ ان کی کفالت میں تھیں۔ جسٹس اعجازافضل نے پوچھا کیا والد کے ساتھ رہنے والا زیرکفالت تصور ہوگا؟۔ وکیل نے کہا کیپٹن صفدر کی کوئی آمدن نہیں تھی اس لیے مریم زیرکفالت رہی۔ پانامہ کیس میں شیخ رشید نے اپنے دلائل میں کہا قطری شیخ کا خط رضیہ بٹ کا ناول ہے، قطر کا شیخ ہی اصل مین آف دی میچ ہے جس پر عدالت میں قہقہے گونج اٹھے، جسٹس عظمت سعید نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے حاضرین کوسنجیدہ رہنے کیلئے کہا۔ شیخ رشید نے کہا اس ملک میں قانون بڑے لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے بنایاجاتا ہے، باپ بیٹی کو اور بیٹا باپ کو پیسے دے تو یہ منی لانڈرنگ ہے، قطری خط لاکر شریف خاندان نے اپنے اور قوم کے پاﺅں پر کلہاڑی ماری ہے، مجید مستری اور حمید ڈینٹر کے بیٹوں نے نہیں بڑے لوگوں کے بچوں نے ملک کو نقصان پہنچایا۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا چھوٹے بڑے کی بات نہ کریں عدالت کیلئے سب برابر ہیں۔ شیخ رشید نے کہا مریم اور حسین کی ٹرسٹ ڈیڈپر نوٹری سے اسٹامپ نہیں لگایا گیا، جسٹس آصف کھوسہ نے کہا ٹرسٹ ڈیڈ سفارتخانے سے تصدیق شدہ نہیں اس لیے اسٹامپ نہیں لگا۔ جسٹس آصف کھوسہ نے پوچھا اگر ٹرسٹ ڈیڈ کے دونوں فریق متفق ہیں تو آپ کی پوزیشن کیا ہوگی؟۔ شیخ رشید نے کہا اس کے جھوٹے ہونے پر مجھے ایمان ہے فیصلہ عدالت نے کرناہے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کیا صرف اس بات پر فیصلہ کرلیں؟۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا اس دستاویز سے کیا نتیجہ اخذ کرانا چاہتے ہیں۔ شیخ رشید نے کہا پانامہ کی خبر دینے والے صحافی کو بلایا جا سکتا ہے۔
اسی دوران ساتھ والی کرسی پر تازہ آکر بیٹھنے والی خاتون نے میرے بازو پر دوبار دستک دی تو سماعت سے توجہ ہٹا کر پوچھا کیا مسئلہ ہے، دیکھا تو محترمہ وزیرمملکت مریم اورنگزیب پوچھ رہی تھیں کہ وہ بخاری کہاں گیا؟۔ میڈم کو بتایا کہ وہ انجکشن لگانے گئے ہیں۔ اس کے بعد مریم اورنگزیب شیخ رشید کے دلائل کے دوران جملے کستی رہیں اور ہماری توجہ بھی مقدمے سے بھٹکاتی رہیں، شیخ رشید جب وزیراعظم کی باریاں گنتے تو مریم اورنگزیب ماشا ءاللہ ماشاءاللہ کہہ اٹھتیں۔۔شیخ رشید نے عدالت میں کہا کہ سولہ سے انیس سال کی عمر میں ہمارے بچوں کا شناختی کارڈ نہیں بنتا ان کے بچے ارب پتی بن جاتے ہیں، دبئی مل بیچنے سے ملنے بارہ ملین درہم اتنا عرصہ کہاں پڑے رہے؟ ڈکیت اور چور میں فرق ہوتاہے بیس کروڑ لوگوں سے چوری کرنے والا ڈاکو کہلاتاہے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا آپ اپنے مقدمے کی جانب آئیں۔ شیخ رشید نے سپریم کورٹ سے صادق وامین کی بنیاد پر نااہل قراردیے گئے ارکان اسمبلی کے فیصلوں کے حوالے دیے تو جسٹس عظمت سعید نے کہا وہ جعلی ڈگری کامعاملہ تھا۔ شیخ رشید نے کہا نوازشریف قوم کے امیر ہیں ان کو طلب کیاجائے، عدالت میں بیٹھے بہت سے لوگوں کو انصاف ملنے کی امید نہیں مگر مجھے اللہ سے امید ہے کہ انصاف ہوگا۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا اپنے حق میں فیصلہ آنا ہی انصاف سمجھا جاتا ہے، ہم مقدمہ سن رہے ہیں تو فیصلہ بھی کریں گے۔ شیخ رشید نے کہا تین بار وزیراعظم بننے والے کو لندن فلیٹوں کے اصل مالک کا معلوم نہ ہو، ایسا ممکن نہیں، ان کو بھی معلوم ہے اورہم سب بھی جانتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے اپنے دلائل شروع کیے تو جسٹس آصف کھوسہ نے کہا آپ کی درخواست پہلے سنی گئی دونوں درخواستوں سے مختلف ہے، وہ مخصوص اور آپ عمومی نوعیت کا فیصلہ چاہتے ہیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا جماعت اسلامی کی درخواست میں وزیراعظم فریق ہی نہیں۔ وکیل نے کہا ہم کمیشن چاہتے ہیں اور عدالت نے بھی کہا تھا کمیشن بنے گا۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا عدالت نے صرف خیال ظاہر کیا تھا کمیشن بنانے کا کوئی فیصلہ نہیں ہواتھا۔ عدالت نے جماعت اسلامی کو درخواست میں ترمیم کرنے یا نئی درخواست دائر کرنے کیلئے سوچنے کی مہلت دیدی۔
پانامہ کیس میں وزیراعظم نواز شریف کے وکیل مخدوم علی خان نے اپنے دلائل کا آغازتو ن لیگی وزراءنے کہا ہمیں اسی دن کا انتظار تھا۔ وکیل نے کہا وقت کم ہے اگر کل ہی دلائل شروع کروں تو کیا عدالت کو منظور ہوگا؟ جسٹس کھوسہ نے کہا آج وارم اپ کرلیں، کل بھی سنیں گے۔ وکیل مخدوم علی خان نے عدالت کو بتایاکہ چار درخواستیں ہیں، ایک استدعا ہے کہ وزیراعظم کو نااہل قراردیاجائے، دوسری درخواست میں ہے کہ پاکستان سے لوٹی گئی رقم دنیا میں جہاں بھی ہے واپس لائی جائے، یہ عمومی نوعیت کی درخواست ہے اس پر کیا جواب دوں؟۔ وکیل نے کہا جماعت اسلامی کی درخواست میں وزیراعظم فریق ہی نہیں اس کا جواب بھی نہیں دے سکتا۔ مخدوم علی خان نے کہا ایک درخواست میں چیئرمین نیب کو میگا کرپشن کیس کھولنے کیلئے فیصلہ مانگا گیاہے اس کا بھی وزیراعظم سے تعلق نہیں بنتا۔ وکیل نے کہا ایک درخواست گزار نے وزیراعظم و دیگر کو کام سے روکنے اوران کانام ایگزٹ کنٹرول فہرست میں شامل کرنے کی استدعا کی تھی مگر اس پر دلائل نہ دیے قانون کے مطابق جس نکتے پر زور نہ دیاجائے وہ استدعا ختم تصور کی جاتی ہے۔ مخدوم علی خان نے اپنے دلائل میں کہا درخواست گزار نے استدعا کسی مخصوص فلیٹ کی حد تک نہیں کی اور وزیراعظم کے نام کوئی فلیٹ نہیں اس لیے جواب نہیں دوں گا۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا بنیادی طور پر چار فلیٹوں کا معاملہ اٹھایا گیا بعد میں پھیلا کر فلیگ شپ تک لے جانے کی کوشش کی گئی۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا عدالت نے معاملے کو پانامہ پیپرز کی حد تک محدود کیا ہے۔ وکیل مخدوم علی نے کہا پانامہ پیپرز میں تو وزیراعظم کا نام ہی نہیں تو کیا کروں؟۔ اس لیے صرف بنیادی چیزوں تک محدود رہ کردلائل دوں گا۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا بنیادی چیزوں تک رہیں مگر 2006 سے قبل کے معاملات پر بھی عدالت کی معاونت کریں۔ وکیل نے کہا عباس شریف، شہبازشریف اور طارق شفیع سے لے کر سب کو ایک ہی خاندان قرار دیا گیا ہے اور دوسری جانب جن افراد سے متعلق دستاویزات اور دستخطوں کو پیش کیا گیا ہے ان کو مقدمے میں فریق ہی نہیں بنایاگیا۔ جسٹس اعجازافضل نے کہا نعیم بخاری نے دلائل میں شہبازشریف کو نوٹس جاری کرنے کی استدعا کی مگر اس کیلئے درخواست نہ دی۔ وزیراعظم کے وکیل نے کہا درخواست گزار نے اپنا ساراکام عدالت کے ذمے لگا دیا ہے، نوٹس جاری کرنے کیلئے درخواست انہوں نے سوچ سمجھ کر نہیں دی، اب صرف عدالت ہی ان کو فریق بناسکتی ہے مگر پھر کیس ازسرنو چلے گا اور مجھے سات دن بیٹھ کر دلائل دوبارہ سننا پڑیں گے۔ جسٹس گلزار نے کہا عدالت اب کسی کو فریق بناکر نوٹس جاری نہیں کرے گی۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے