پاکستان24

پانچ ججوں کی سوالات سے گولہ باری

فروری 21, 2017 10 min

پانچ ججوں کی سوالات سے گولہ باری

Reading Time: 10 minutes

سپریم کورٹ اے وحید مراد
پانامہ پیپرز کیس اپنے اختتام کو بڑھ رہا ہے ۔ جب کسی مقدمے میں کسی ادارے کا سربراہ پیش ہوتاہے تو پھر سپریم کورٹ کے جج زیادہ اور اداروں کے ذمہ دار یا ان کے وکیل کم بول پاتے ہیں۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور قومی احتساب بیورو کے سربراہ عدالت میں پیش ہوئے تو ججوں نے اپنی روایت برقرار رکھی۔ پانچ جج ہوں اور مسلسل بول رہے ہوں تو پھر رپورٹر جتنا بھی تیز ہو پانچ جملے بیک وقت نہیں لکھ سکتا۔ اس لیے آج اس تحریر میں کسی جملے کی کمی نظر آئے تو اپنی طرف سے دل میں جو آتاہے ان دونوں اداروں کے بڑوں کیلئے اس سماعت میں ججوں کی جانب سے شامل کرلیں کیونکہ انہوں نے وہ بھی کہا ہوگا۔
عمران خان کے کان بھی ججوں کے جملوں کی رفتار کا ساتھ نہ دے پائے توسوالات کی بمباری اور جملے بازی کے تابڑ توڑ حملوں کو زیادہ کھلی آنکھوں سے دیکھنے کیلئے پرجوش ہوکر تین بار عدالت میں کھڑے ہوئے۔
پانچ رکنی عدالتی بنچ کے سامنے ایف بی آر کے چیئرمین پیش ہوئے تو جسٹس آصف کھوسہ نے سوال کیا جاننا چاہتے ہیں آف شور کمپنیوں کے معاملے پر کیا کارروائی کی؟۔ چیئرمین نے جواب دیا ایف بی آر قانون کے مطابق ٹیکس ریٹرن فائل ہونے پر کام کرتاہے، پانامہ میں ٹیکس نہیں دینا پڑتا، پاکستان کا پانامہ کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں، دفتر خارجہ کے ذریعے پانامہ سے رابطہ کرنا پڑتاہے۔ جسٹس عظمت سعید نے پوچھا بتائیں پانامہ سے رابطے کیلئے دفتر خارجہ سے کب خط وکتابت کی؟۔ چیئرمین بولے، معاملہ علم میںآ نے کے بعد فوری رابطہ کیا گیا۔ جسٹس عظمت نے کہا ریکارڈ بتاتا ہے ایف بی آر نے اکتوبر میں دفتر خارجہ سے رابطہ کیا جبکہ پانامہ پیپرز اپریل میں آئے تھے۔ چیئرمین نے کہا اس عرصے میں آف شور کمپنیوں کے ڈائریکٹرز سے رابطے کی کوشش کی جن کے نام پانامہ پیپرز میں آئے ہیں۔جسٹس عظمت سعید نے کہا ایف بی آر اور دفترخارجہ کے دفاتر ایک ہی سڑک پر چارسوگز کے فاصلے پر واقع ہیں، آپ کو رابطہ کرنے میں چھ ماہ لگ گئے، مبارکہ ہو۔ چیئرمین نے کہاجن پاکستانیوں کے پانامہ پیپرزمیں نام آئے ان میں سے 39 نے کہا وہ بیرون ملک مقیم ہیں، 31 دنیا میں نہیں رہے، 72 افراد نے کہا ان کے بارے میں معلومات درست ہیں جبکہ 52 نے آف شور کمپنیوں کی ملکیت سے انکار کیا۔ عدالت کے سوال پر جواب دیتے ہوئے چیئرمین بولے، حسین نواز کو بھی نوٹس بھیجا تھا انہوں نے بھی بیرون ملک مقیم ہونے کا جواب دیا۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا حسین نواز نے جواب دیدیا، اب ایف بی آر جائے پتنگ اڑائے۔ چیئرمین نے کہا ، حسن اور مریم نواز نے بھی آف شور کمپنیوں کے ہمارے نوٹس پر جواب دیے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے پوچھا کیا مریم نے کہاکہ وہ کمپنی کی ٹرسٹی ہیں؟۔ چیئرمین بولے مریم کے جواب میں کہاگیاہے کہ ان کی کوئی جائیداد نہیں ۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کیا اس جواب پر ایف بی آر نے فائل بند کردی؟۔ جسٹس اعجازالاحسن نے پوچھا کیا ایف بی آر نے حسین نواز کے قومی ٹیکس نمبر کی تصدیق کی؟ چیئرمین نے کہا، این ٹی این کی تصدیق کی تھی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ایف بی آر کے 2002 کے نوٹی فیکیشن کے مطابق 1998 سے قبل جاری کیے گئے این ٹی این نمبر منسوخ ہوگئے ہیں، کیا حسین نواز کا ٹیکس نمبر منسوخ نہیں ہواتھا؟۔ چیئرمین نے کہا اس کیلئے ریکارڈ دیکھنا پڑے گا، ہمیں ان افراد کے بیرون ملک مقیم ہونے کی بھی تصدیق کرنی ہے۔ جسٹس گلزار احمد نے لگتا ہے تصدیق کیلئے 30سال درکارہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا گھنٹوں کاکام کرنے میں ایف بی آر کو ایک سال لگ گیا۔ اس موقع پر چیئرمین ایف بی آر اور ان کے وکیل نے بولنے کی کوشش کی تو جسٹس عظمت بولے، اگر عدالت کے سوال نہیں سن رہے تو کوئی بات نہیں، اپنی بات کرتے رہیں، جو کچھ ایف بی آر کررہاہے پورا شہر دیکھ رہاہے۔وکیل نے معذرت کی تو جسٹس عظمت نے پوچھا جن لوگوں نے بیرون ملک مقیم ہونے کا جواب دیا کیا ٍان کے سفری دستاویزات کے ریکارڈ سے اس کی تصدیق کیلئے متعلقہ ادارے سے رابطہ کیا گیا؟۔ چیئرمین بولے، قانون کے مطابق ہمارا کام ٹیکس ریٹرن کی حد تک ہے، آف شور کمپنیوں کے بیرون ملک مقیم 39 پاکستانی مالکوں کی تاحال تصدیق نہیں ہوسکی۔ جسٹس گلزاراحمد بولے اس کا مطلب ہے آپ نے کچھ نہیں کیا اور ایف بی آر منی لانڈرنگ معاملے پر کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔عدالت کو ایف بی آر کے وکیل نے بتایا کہ مانتے ہیں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی تصدیق نہیں کرسکے مگر حسین نواز اور مریم کے جواب کے بعد فائل بند نہیں کی۔جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کوئی بھی ادارہ یا شخص اپنے کام میں دلچسپی نہیں رکھتا اس لیے سپریم کورٹ یہ مقدمہ سن رہی ہے، ہم جو کام کررہے ہیں یہ ہمار ا نہیں ہے۔جسٹس اعجازافضل بولے، جہاں کارروائی کرنا ہوتی ہے ایف بی آر فوری ایکشن لیتاہے، جہاں کام نہیں کرنا ہوتا بہت سے بہانے یا وجوہات پیش کردی جاتی ہیں، اگر کوئی کام کرتا ہوتو اس کا کام بولتاہے اور کام کو ہی بولناچاہیے، گزشتہ سال اپریل سے لے کرآج تک کیا کام کیا؟ اس سست رفتاری کو کیا کہاجائے؟۔جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کیا اس کو رفتار بھی کہا جاسکتاہے؟۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا حسین نواز کو ٹیکس نمبر تیرہ اکتوبر 1995 کو جاری کیاگیاتھا ایف بی آر کے دوہزار کے نوٹی فیکیشن کے بعد یہ منسوخ کیوں نہیں ہوگا؟۔ایف بی آ ر کے وکیل بولے،اگر کسی کے پاس پرانا ٹیکس نمبر بھی ہے تو مطلب یہ نہیں کہ منسوخ ہوگیا۔اس پر جسٹس کھوسہ بولے، آپ عدالت کی کوئی مدد نہیں کرسکے اس کیلئے آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں، اپنے فرائض سونپے گئے کام کے مطابق ادا کریں۔(فیڈرل بیورو آف ریونیو کے سربراہ کی عدالت سے جان چھوٹی تو دوسرا شاہکار آگیا جس کا سب کو انتظارتھا اور جج بھی تیار بیٹھے تھے)۔
چیئرمین نیب کے ساتھ نیب سے سب سے بڑے وکیل( پراسیکیوٹر جنرل) بھی عدالت میں موجود تھے جنہوں نے ابتدا کرنے کی کوشش کی تو ججوں نے ان کو روک دیا، وکیل بولے، وہ قانونی طور پر نیب کی جانب سے بات کرتے ہیں جس پر ججوں نے کہا، ہم نے چیئرمین نیب کو بلایا ہے اور یہ عدالت کی صوابدید ہے کہ جس کو چاہے سنے۔ وکیل خاموش کھڑے رہ گئے ۔
چیئرمین قومی احتساب بیورو نیب قمر زمان عدالت میں ر بولے، ستمبر 2016 میں آف شور کمپنیوں کا معاملہ پبلک کاﺅنٹس کمیٹی میں آیاتھا، نیب اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہے، ریگولیٹر کی جانب سے کہے جانے پر کارروائی کرتے ہیں۔(ریگولیٹر کا لفظ چیئرمین نیب کو اتنا مہنگا پڑا کہ شاید تمام عمر یاد رہے)۔
جسٹس عظمت سعید بولے، کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ نیب قانون میں لکھاہے کہ ریگولیٹر کہے گا تو تو ایکشن لیں گے؟۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا ، کیا چیئرمین یا نیب کو بھی کوئی ریگولیٹ کرتا ہے؟۔ قمرزمان نے جواب دیا، نیب کا قانون ہی ہمیں ریگولیٹ کرتاہے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا ، قانون کہتاہے کہ چیئرمین خود سے بھی کارروائی شروع کرسکتاہے، قطری خط میں بھی ریگولیٹرکا ذکر تھا، کہا تھا کہ پاکستان میں ریگولیٹرہے، اب چیئرمین نیب بھی ریگولیٹر کی بات کررہے ہیں، کیا ریگولیٹر وہ ہے جس نے چیئرمین کو عہدے پر لگایا؟۔ جسٹس عظمت بولے، خدا کیلئے، نیب کے قانون کی اپنی تشریح نہ کریں،میرے پاس الفاظ ختم ہوگئے ہیں کہ کیسے اس معاملےکو بیان کروں۔ جسٹس کھوسہ نے کہا، تیل و گیس کے بعد ریگولیٹر ہوتے ہیں۔ (ہنسنے کی آوازیں)۔
جسٹس عظمت نے مسکراتے ہوئے کہا، کچھ تو پردہ رکھ لیتے، تھوڑا سا لحاظ ہی کرلیتے، کھل کر تو نہ کہتے۔ اس موقع پر نیب کے وکیل نے دوبارہ عدالت میں اپنا موقف پیش کیا اور کہا قانون میں جیسا ہے ویسا ہی بیان کیا جا رہا ہے جس پر جسٹس گلزار احمد غصے میں آگئے، بولے، آپ عدالت کو گمراہ کر رہے ہیں۔ وکیل بولے، پوری زندگی کبھی عدالت میں غلط بیانی نہیں کی، مزید بولنے کی کوشش کی تو جسٹس گلزار احمد نے کہا، بس کردیں، ہوگیا۔ دیگر ججوں نے مداخلت کرکے معاملے کو آگے بڑھنے نہ دیا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا ایف بی آر، ایف آئی اے، ایس ای سی پی اور نیب کہہ رہے ہیں کہ ہمارے پاس کارروائی کا اختیار نہیں۔ جسٹس آصف کھوسہ بولے، پہلے باپ نے کہا بیٹے کاہے، پھر بیٹے نے کہا دادا کا ہے، اب ادارے کہہ رہے ہیں کارروائی کا اختیار نہیں، سمجھ نہیں آتا، کیا ہو رہا ہے۔ جسٹس اعجازافضل نے کہا سپریم کورٹ میں ہزاروں مقدمات پڑے ہیں مگر اداروں کے کام نہ کرنے کی وجہ سے ججوں کا وقت یہ مقدمہ سننے پر لگ رہا ہے، اتنے مقدمات زیرالتواءپڑے ہیں کہ اس طرح کا کیس سننے کیلئے ہمارے پاس ایک لمحہ بھی نہیں، اتنے وقت میں ہزاروں مقدمے سن کر نمٹا سکتے تھے۔
چیئرمین بولے، ہمیشہ اپنا کام کیاہے اور عدالت کی ہدایات کو بھی مدنظر رکھاہے۔ جسٹس گلزار نے کہا، عدالت کے سامنے تقریر نہ کریں، یہاں آپ کی وضاحتیں سننے کیلئے نہیں بیٹھے۔جسٹس کھوسہ بولے، چیئرمین لگانے والے اس عہدے سے ہٹا نہیں سکتے، کاش لوگ اپنے عہدے کی ذمہ داریوں کو پہچان سکیں۔ چیئرمین نیب نے کہا، ہم سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن اور سٹیٹ بنک سے رابطے کرکے معلومات لیتے ہیں۔چونکہ ہمارا کام فوجداری نوعیت کاہے تو جب تک معلومات اکٹھا نہ کرلیں نوٹس نہیں دیتے۔ جسٹس اعجازالاحسن بولے، یہ ابتدائی طورپر کرنے کا کام تھا، ایک سال ہوگیاہے۔جسٹس عظمت نے کہا، تفتیش بعد میں کریں مگر آف شور کمپنی مالکان کو بلاکر انکوائری تو کرسکتے ہیں، ان سے پوچھتے کہ بھائی، یہ اثاثے آپ کے ہیں؟ کہاں سے آئے؟۔چیئرمین بولے، ہم کارروائی کریں گے۔ (عدالت میں قہقہہ بلند ہوا) تو بولے، ہم کر رہے ہیں۔ جسٹس عظمت نے کہا، سارے کام کرلیے، آف شور والوں کو بلاکر پوچھ لیتے، ہمیں طعنے سننے پڑ رہے ہیںکہ اسرائیلی وزیراعظم کو پولیس نے پوچھ گچھ کیلئے بلالیا۔ پھر بولے، او، پوچھ تو لیتے، جواب اطمینان بخش ہوتا تو ٹھیک تھا، آج ہمیں نہ پوچھنا پڑتا، ہمارا(سپریم کورٹ) کاکام توبہت بعد کا ہے، کیس آخرمیں ہمارے پاس آتا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا نیب نے اپنے اختیار کو دفن کردیا یہ اداروں کے مفلوج ہونے کا واضح کیس ہے۔جسٹس کھوسہ نے کہا، چیئرمین آج بھی کہہ سکتے ہیں یہ میرا کام ہے میں کروںگا۔ چیئرمین بولے، عدالت کو یقین دلاتاہوں کہ کروںگا۔ جسٹس کھوسہ نے کہا، بتائیں کیا کریں گے؟ ہم لکھ لیتے ہیں، کیا یقین دلاتے ہیں؟۔ چیئرمین نے کہا، قانون کے مطابق اپنا کام کروں گا، ایکشن لوںگا۔جسٹس اعجازافضل نے کہا، سپریم کورٹ کے سامنے نیب کے اعدادوشمارہیں ، معلوم ہے یہ ادارہ کیسے کام کرتاہے، کیا نیب اپنا کام کسی کے کہے بغیر کرتاہے؟۔
جسٹس کھوسہ نے کہا، حدیبیہ پیپرز مل کیس میں ریفری جج نے جو فیصلہ کیا وہ اسے کرنے کیلئے کہاہی نہیں گیاتھا، ریفری جج سے کہاگیا تھاکہ ایک جج نے تفتیش ازسرنوکرنے کی جو رائے دی ہے اس پر اپنی رائے دیں۔جسٹس کھوسہ نے کہا، نیب نے ریفری جج کے فیصلے کولگتاہے پڑھا ہی نہیں اور اپیل نہ کرنے کافیصلہ کیا، اب ہمیں درخواست گزار نے کہا ہے کہ نیب کو اپیل دائر کرنے کیلئے حکم جاری کریں، اس پر ہمیں بھی تحفظات ہیں کیونکہ سپریم کورٹ خود اپیل سننے والی عدالت ہے کسی فریق کو اپیل دائر کرنے کیلئے کیسے کہے، مگر معاملہ ایک ارب بیس کروڑ روپے کاہے جس کے فیصلے پر نیب نے اپیل ہی نہیں کی۔جسٹس عظمت نے کہا، ایف آئی اے نے التوفیق کمپنی معاملے میں تحقیقات کی تھیں کیا نیب نے اس کو دیکھا؟ کیا ایف آئی اے اٹلی کی ہے جو اس کی رپورٹ کو نیب نے نہیں دیکھا؟۔ جسٹس عظمت نے مزید کہا، کسی چارسو روپے کرپشن والے ملزم کی ضمانت ہوجائے تو نیب اس کی ضمانت منسوخی کیلئے اپیل دائر کرکے سپریم کورٹ کا دروازہ توڑ دیتاہے اور حدیبیہ پیپرز فیصلے پر کوئی وجہ بتائے بغیر اپیل نہ کی۔ چیئرمین نے کہا اپیل نہ کرنے کافیصلہ طویل قانونی مشاورت کے بعد کیا گیا تھا، اس وقت کے پراسیکیوٹر جنرل نیب نے اپنی رائے دی تھی جس کے بعد اپیل نہیں کی گئی۔ جسٹس اعجازافضل نے پوچھا، کیا نیب ہرکیس میں اسی طرح کی مشاورت کے بعد اپیل دائر کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتاہے؟۔چیئرمین نے جواب دیا،نیب ہرکیس میں مشاورت کے بعد اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کرتاہے۔جسٹس کھوسہ نے کہا، حدیبیہ کیس میں اپیل نہ کرنے پر ہم بہت حیران ہیں۔ چیئرمین بولے، مشاورت میں یہ رائے آئی تھی کہ اس کیس میں ایک ملزم میاں شریف ہیں جن کی وفات ہوچکی ہے تو اس سے ادارے کی بدنامی ہوسکتی ہے۔ جسٹس کھوسہ نے کہا، تو کیا اب اس مقدمے میں نیب کی نیک نامی ہورہی ہے۔ (ایک بار پھر قہقہے)۔
جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کیا اب نیب اپیل دائر کرنا چاہتاہے؟۔ چیئرمین نے جواب دیا، اپیل دائر نہ کرنے کے پہلے والے موقف پر قائم ہیں۔ جسٹس عظمت نے کہااپنے موقف پر قائم رہیں اور نتائج بھگتیں۔ (سماعت میں وقفہ ہوا، دونوں چیئرمین اپنے پیسنے پوچھنتے کمرہ عدالت سے باہر نکلے)۔
عدالت کی ہدایت پر اٹارنی جنرل اشتراوصاف نے مقدمے میں معاونت کرتے ہوئے کہا کہ وہ صرف آئین اور قانون کے مطابق عدالتی اختیار اور عوامی مفاد کے مقدمے کی تشریح پر بات کروںگا، بولے، سپریم کورٹ کو آئینی طور پر مقدمہ سننے کا اختیار ہے مگر یہ دیکھنا ہوگا کہ ماضی میں عوامی مفاد کے مقدمات میں کیا فیصلہ ہوئے اور اب اس کے نتائج کیاہونگے؟۔ اٹارنی جنرل نے کہا اگر دوفریق راضی بھی ہوجائیں تب بھی عدالت نے دیکھنا ہوتا ہے کیا کیس قابل سماعت ہے یانہیں۔ ہر مقدمے کی نوعیت مختلف ہوتی ہے، سپریم کورٹ کو عوامی مفاد کے مقدمے کی حدود اور حالات بھی دیکھنا ہوتے ہیں۔ دیکھنا ہوگا آرٹیکل 184 تین کے تحت مقدمہ سننے کی حدود کیا ہیں؟ اور اگر سپریم کورٹ کو اختیار ہے تو کیا اس اختیار کو استعمال بھی کرنا چاہیے؟۔ جسٹس اعجازافضل نے پوچھا، کیا عدالتی اختیار کسی حد سے مشروط ہے ،اگر ہے تو وہ بھی بتائیں۔اٹارنی جنرل نے قانونی اصطلاحات استعمال کرتے ہوئے خود سے شروع کیے مقدمے اور مخاصمانہ مقدمے کو ایک دوسرے سے الگ بتایا۔ بولے، سپریم کورٹ عوامی مفاد میں مقدمے سنتی ہے وہاں عام اور محروم طبقے کے حقوق کو دیکھتی ہے۔جسٹس عظمت بولے، سپریم کورٹ اس مقدمے کوسننے کا فیصلہ کرچکی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہااس کے باوجود اپنی آئینی وقانونی رائے دیناضروری ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے پوچھا، کیا آپ یہ دلائل دے رہے ہیں کہ عدالتی اختیار ہرکیس میں الگ ہے؟۔ اٹارنی جنرل بولے، دلائل نہیں دے رہا، اپنی آئینی رائے پیش کررہاہوں۔جسٹس عظمت نے کہا، ایک اچھا جج اپنے اختیار پر خود قدغن لگاتا ہے نہ اس میں کمی کرتا ہے۔ اٹارنی جنرل بولے، سوال یہ ہے کہ کیا آئین نے سپریم کورٹ کو نااہلی کا اختیار دیا ہے؟ کیا یہ اختیار کسی دوسرے فورم کے پاس نہیں؟سپریم کورٹ ماضی میں اسی طرح کی درخواست کو خارج کرچکی ہے۔جسٹس عظمت بولے، معاملہ یہ ہے کہ کیا کسی کے بیان پر اس کو نااہل قراردیاجاسکتاہے؟ کون سے آدمی ہوگا جس نے بیوی سے جھوٹ نہیں بولاہوگا؟۔ (عدالت میں قہقہے گونجے) ۔ جسٹس کھوسہ بولے، جس کی بیوی ہی نہ ہووہی شخص ہوسکتاہے یا شادی شدہ نہ ہو۔ اٹارنی جنرل نے کہا، یہاں بھی ایک شخص ایساہے۔ جسٹس کھوسہ بولے، ہماری عدالت میں ایک شریف آدمی ایسا ہے۔(معلوم نہیں شیخ رشید کو یہ بات سمجھ آئی یا نہیں)۔
اٹارنی جنرل نے کہا، آئین کے مطابق شفاف ٹرائل ہونا ضروری ہے۔ جسٹس اعجازافضل نے کہا، کیا اس عدالت میں کسی کو ہم نے سننے سے انکار کیاہے؟۔ اٹارنی جنرل نے کہا، معاملہ سننے کا نہیں، فیصلے کاہے۔سوال یہ ہے کہ اس کیس میں کون سے بنیادی حقوق متاثر ہوئے؟ کس کے حقوق متاثر ہوئے؟ اور شکایت کنند ہ کون ہے؟۔ اور وہ کون سے حقائق ہیں جو تسلیم شدہ ہیں جس پر یہ عدالت فیصلہ دے سکتی ہے۔جسٹس اعجازافضل نے کہا، چیئرمین نیب نے اپنا کام نہیں کیا، نیب نے اپیل دائر نہیں کی کیا عوامی حقوق متاثر نہیں ہوئے؟۔ اٹارنی جنرل نے کہا، نیب کی جانب سے دوسال تک اپیل دائر نہ کرنے پردرخواست گزار نے کیا کیا؟ آئین کے مطابق نیب کے اختیار کو بھی دیکھنا ہوگا۔ جسٹس اعجازافضل نے کہا، چیئرمین نیب اس ریگولیٹر کی بات کررہے تھے جو قانون میں ہی نہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا، بطور مزاح یہ بات کرتا ہوں کہ ایک مقدمے میں پورنوگرافی کامعاملہ سامنے آیا تو کہا گیا کہ اس کو دیکھے بغیر فیصلہ نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح حقائق کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا اور قانون کو بھی دیکھنا ہوگا۔
جسٹس آصف کھوسہ نے کہا، ایک ارب بیس کروڑ روپے کے مقدمے میں(حدیبیہ پیپرز) نیب نے اپیل نہیں کی تو کیا سپریم کورٹ عوامی مفاد کے مقدمے میں اس پر فیصلہ نہ دے؟ اٹارنی جنرل نے کہا اس کے دور اس اثرات اور نتائج ہوں گے عدالت ان کو بھی مدنظر رکھے۔ کیا سپریم کورٹ آرٹیکل 184 تین کے تحت سنے جانے والے مقدمے میں نیب کو کسی الگ مقدمے کی اپیل دائر کرنے کا کہہ سکتی ہے؟۔ جسٹس کھوسہ نے کہا، اگر اس نتیجے پر پہنچے کہ چیئرمین نیب نے اپیل دائر نہ کرنے کا فیصلہ بدنیتی کے تحت کیا تو پھر سپریم کورٹ کے فیصلے پر بعد چیئرمین اپنے عہدے پر نہیں رہ سکیں گے۔
سماعت کل تک ملتوی کرتے ہوئے جسٹس کھوسہ نے کہا، مقدمہ سمٹ رہا ہے، مگر دلائل مکمل کرنے کے بعد ہزاروں صفحات دیے گئے ہیں۔ کل آدھا دن اٹارنی جنرل کو سن کر درخواست گزار کے وکیل کے جواب الجواب کو سنیں گے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے