پاکستان

عامرلیاقت کے پروگرام پر ججوں کا تبصرہ

مارچ 6, 2017 4 min

عامرلیاقت کے پروگرام پر ججوں کا تبصرہ

Reading Time: 4 minutes

سپریم کورٹ نے بول ٹی وی پر عامرلیاقت کوپروگرام کرنے کی مشروط اجازت دیدی ہے، عدالت نے ہدایت کی ہے کہ پروگرام میں ایسا کوئی مواد نشر نہیں ہوگا جو منافرت پر مبنی ہو، ہر پروگرام کی ویڈیو اور اس کا مکمل متن ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل کے دفتر میں جمع کرانا ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہوئی تو اس کے نتائج سنگین ہوں گے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی عدالتی بنچ نے عامرلیاقت کی پروگرام بحالی کے اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف پیمرا کی اپیل کی سماعت کی۔ الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ پروگرام پر پابندی سپریم کورٹ نے لگائی تھی، ہائیکورٹ کوپروگرام کی بحالی کا حکم جاری کرنے کا اختیار نہیں تھا۔ عامرلیاقت نے عدالت کو بتایاکہ سپریم کورٹ نے جب حکم دیا تھا اس کیس میں مجھے فریق نہیں بنایا گیا تھا، وہ حکم ٹی وی چینل کیلئے تھا اس لیے اسلام آباد ہائیکورٹ نے میرا پروگرام بحال کیا۔ پیمرا کے چیئرمین ابصار عالم نے عدالت کو بتایا کہ عامرلیاقت پروگرام کے ذریعے منافرت پھیلا رہے ہیں، پیمرا شکایات پر نوٹس لیتا ہے تو یہ ہمیں بھی غدار اور توہین مذہب کا مرتکب قرار دیتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہم انتباہی ہدایات جاری کرکے پروگرام بحال کرنے کی اجازت دیتے ہیں اس دوران پیمرا کی شکایات کونسل اپنی کارروائی مکمل کرے۔ پیمرا کے چیئرمین نے کہا عامرلیاقت عدالتی احکامات کی پروا نہیں کرتے، پہلے بھی سپریم کورٹ نے پروگرام روکنے کا حکم دیاتھا، انہوں نے ہائیکورٹ سے اجازت لے کر پروگرام کیا۔ چیف جسٹس نے کہا ہم بیان حلفی لے کر پروگرام کی اجازت دیں گے۔ عامرلیاقت نے کہا کہ حلفیہ بیان دینے کیلئے تیارہوں۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کی گئی تو نتائج زیادہ سنگین ہوں گے۔ چیف جسٹس نے کہا یہ اچھا موقع ہے کہ ہم اس مقدمے میں پیمرا کے قوانین کی تشریح کرسکیں گے، پیمرا قانون کے مختلف شقوں کی تشریح نہیں ہوسکی۔ پیمرا کے وکیل نے کہا پروگرام کرنے کی اجازت دینے سے غلط پیغام جائے گا کیونکہ بہت سے عام لوگوں کے خلاف عامرلیاقت نے بات کی ہے ان کی زندگیوں کو بھی خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا پروگرام کی مشروط بحالی کی اجازت کے بعد ہم قانون کے مطابق فیصلہ کریںگے، یہ عبوری نوعیت کی کارروائی ہے ۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ پیمرا کی شکایات کونسل عامرلیاقت کے خلاف آنے والی شکایتوں پر کارروائی کرکے معاملہ نمٹائے۔پیمرا کے چیئرمین نے کہا کہ عامرلیاقت ریاست کے اداروں پر حملے کرتے ہیں، پیمرا کے نوٹس کاجواب نہیں دیتے۔عامرلیاقت نے کہا کہ پیمرا والے مختلف چیزوں کو ملارہے ہیں،یہ حقائق کو درست طورپر بیان نہیں کررہے ۔ چیف جسٹس نے کہا، عامر، کیا آپ کو ہربات میں ضروربولنا ہے؟ ہم کو معاملہ دیکھ لینے دیں۔عامرلیاقت نے عدالت میں معذرت کی۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ منافرت پر مبنی گفتگو کو روکتے ہوئے پروگرام جاری رکھنے کی اجازت دیتی ہے تو مسئلہ کیاہے؟ پیمرا شکایات پرایک ہفتے میں کارروائی کرلے، اگر پیمرا یہ چاہتاہے کہ عامرلیاقت ٹی وی پر ہی نہ آئے تو یہ درست نہیں کیونکہ اظہار رائے کی آزادی بنیادی حق ہے، ہم نے اظہاررائے کی آزادی اور منافرت پھیلانے کو روکنے میں توازن قائم کرناہے اور پیمرا کو بھی اپنا کام کرنے دیناہے۔پیمرا کے وکیل نے کہا کہ عامرلیاقت کے پروگرام سے عام لوگوں میںاشتعال پھیلایاجاتاہے۔ چیف جسٹس نے کہا ہم عامرلیاقت کے پروگرام کے مواد کے علاوہ ان کی باڈی لینگویج اور اشاروں کو بھی دیکھیں گے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے عامر لیاقت کو مخاطب کرکے کہاکہ آپ جوش خطابت کو بھی کنٹرول کرناہوگا۔عامرلیاقت نے کہا کہ پیمرا میری زبان بندی چاہتاہے، یہ میرا گلہ دبارہے ہیں، یہ مجھ پر تاحیات پابندی لگادیں تاکہ باہر نہاری کا ٹھیلہ لگادوں۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ میں ذرا کھل کر بول رہاہوں کہ اگر سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی ہوئی تو پھر آپ کو یہی کام کرنا پڑے گا جو آپ کہہ رہے ہیں۔ چیف جسٹس ثاقب نثار بولے، گزارش یہ ہے کہ اگر ایسا کیا گیا تو پھر ٹھیلہ باہر نہیں لگے گا (یعنی جیل میں لگے گا)۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں اپنے اداروں پر اعتماد کرناہوگا، ادارے مضبوط ہوں گے تو لوگوں کے حقوق کا تحفظ ہوگا، اداروں کو مضبوط کریں، اس ملک کو مضبوط کریں،اپنا سودا بیچنے کیلئےمعاشرے کا توازن ختم نہ کریں۔جسٹس مقبول باقر نے عامرلیاقت کو مخاطب کرکے کہاکہ اگر آپ کی گفتگو سے خوف پھیل رہا ہے تو دوسروں کے تحفظ اور زندگی کیلئے اس کا بھی خیال کریں۔عامرلیاقت نے کہا کہ کچھ لوگ فوجیوں کو قاتل کہتے ہیں تو میں ان کے ہی کلپ اپنے پروگرام میں چلاتاہوں تب جواب دیتاہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ براہ کرام، میری عدالت میں ایسی بات نہ کریں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ اگر آپ کو کسی شخص سے شکایت ہے تو متعلقہ ادارے سے اس کے خلاف رجوع کریں۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ ایسے لوگوں کو باز رکھناآپ کا نہیں، اداروں کاکام ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ فیصلہ سپریم کورٹ کرے گی کہ کون سا مواد نشر ہوسکتا ہے اور پیمرا کے پاس کس حد تک اختیار ہے، اور عدالت نے کب مداخلت کرنی ہے اور کب نہیں۔عدالت نے پیمرا میں جمع کرائی گئی شکایات عامرلیاقت کے حوالے کرتے ہوئے انہیں شکایات کونسل کو تین دن میں تحریری جواب جمع کرانے کی ہدایت کی ہے جبکہ جمعہ کے روز پیمرا کی شکایات کونسل ملک بھر سے آنے والی شکایتوں پر اسلام آباد میں عامرلیاقت کا جواب دیکھنے کے بعد فیصلہ جاری کرنے کی مجاز ہوگی۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے