کالم

ملزم اور مجرم میں فرق

مارچ 24, 2017 4 min

ملزم اور مجرم میں فرق

Reading Time: 4 minutes

احساس/ اے وحید مراد
پاکستان میں سوشل میڈیا پربلاگرز کے توہین آمیز مواد کی اشاعت بڑا موضوع ہے۔ ٹی وی اینکر سے ہائیکورٹ کے جج تک اس پر اپنی پریشانی ظاہر کر رہے ہیں۔ توہین کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی حمایت کی جا رہی ہے۔ بلاگرز کو صفائی کا موقع فراہم کرنے کی بات کرنے والے بھی ’توہین کے مرتکب‘ قرار دیے جا رہے ہیں۔ توہین مذہب پر دل گرفتہ وہ تمام احباب جو کسی بھی ملزم بلاگر کو شہر کے کسی چوک پر سنگسار کرنے کے خواہش مند ہیں ان کے لیے ایک واقعہ پیش ہے۔
سنہ دوہزار گیارہ میں برطانیہ میں سوشل میڈیا پر بچوں کی فحش تصاویر شیئر کرنے کا معاملہ سامنے آیا تھا۔ یارک شائر پولیس نے ابتدائی تحقیقات کیں، مئی 2011 میں ساوتھ یارک شائیر پولیس کے پاس ایک ایسے کمپیوٹر آئی پی ایڈریس کی معلومات آئیں جس سے ایک ماہ پہلے بچوں کی سو سے زیادہ فحش تصاویر پھیلائی گئی تھیں۔ جولائی دوہزار گیارہ کی ایک صبح نائیجل لینگ نامی شخص کو شبہے میں گرفتار کیا۔ ملزم نائیجل کی عمر چوالیس برس تھی اور وہ منشیات سے بحالی کے ایک ایسے پروگرام میں کام کر رہے تھے جس کا مقصد نشے میں مبتلا نوجوانوں کی مدد کرنا تھا۔ سنگین الزام میں گرفتاری سے نائیجل کو ملازمت سے برخاست کر دیا گیا، پولیس نے اس کے گھر کی تلاشی لی اور ملزم کا خاندان مشکلات کا شکار ہوگیا۔ گھر والے کسی کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں نہ رہے۔ ملزم نائیجل کا معصوم بیٹا اپنے باپ کے غائب ہونے پر مسلسل روتا رہا۔
پولیس چونکہ برطانیہ کی تھی اس لیے تفتیش کے دوران ہی اس کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔ صرف تین ہفتے بعد پولیس نے ملزم نائیجل کو اس کا کمپیوٹر واپس کر دیا اور بیان جاری کیا کہ وہ بے گناہ ہے۔ رہائی کے بعد نائیجل ذہنی ہیجان کا شکار ہوگیا۔ اس کی زندگی بکھر کررہ گئی۔ نوکری سے نکالے جانے کے بعد کرنے کیلئے کچھ نہیں رہ گیا تھا۔ اس کی ساکھ ختم ہوچکی تھی۔ پولیس نے جس وقت نائیجل کو بے گناہ قرار دے کر رہا کیا تو اسی وقت اس کے ساتھ کام کرنے والی خاتون کو گرفتار کیا۔ نائیجل نے اپنی گرفتاری کے پس پردہ محرکات تلاش کرنے کی کوشش شروع کرنے کا سوچا، اس نے یارک شائر پولیس کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ نائیجل کو یقین تھا کہ اسے غیر منصافانہ طور پر نشانہ بنایا گیا ہے اور اس کی ساتھی چونکہ سفید فام ہیں اس لیے ان سے پوچھ گچھ نہیں کی گئی۔ پولیس نے اس معاملے پر نائیجل سے تحریری معافی مانگی۔ نائیجل نے تحریری معافی موصول ہونے کے بعد پولیس کے خلاف معاوضے کی ادائیگی کا کیس دائر کیا۔ چھ برس کی قانونی لڑائی کے بعد پولیس نے نائیجل کو ساٹھ ہزار پاونڈ کی رقم ادا کی۔ تاہم نائیجل کی نسلی تعصب کی وجہ سے نشانہ بنائے جانے کی شکایت مسترد کردی گئی ۔
نائیجل نے گزشتہ دنوں بی بی سی ٹی وی کو انٹرویو دیا، اس نے کہا کہ واقعے نے اس کی نفسیات کو تباہ کر دیا ہے، اپنا گناہ جاننے کیلئے وکیل کو پیسے دیے، تب معلوم ہوا کہ پولیس نے ٹائپنگ کی ایک غلطی کی وجہ سے گرفتار کیا۔ نائیجل نے بتایا کہ پولیس نے اس کی ساتھی کے آئی پی ایڈریس (کمپیوٹر/انٹرنیٹ کے پتے) کا کھوج لگایا مگر اس میں غلطی سے ایک اضافی نمبر ٹائپ ہوگیا تھا۔ نائیجل نے کہا کہ مجھے معلومات کی فراہمی پولیس کا کام تھا مگر اس کے حصول کیلئے وکیل کو پیسے دینا پڑے۔ نائیجل نے ساٹھ ہزار پاﺅنڈ کی رقم کو ناکافی قرار دیا، اس نے کہا کہ چھ سال کی قانونی لڑائی نے تھکا دیا ہے، گرفتاری کے بعد ڈھائی برس تنخواہ نہیں ملی اور آج تک دوبارہ ملازمت نہیں کرسکا۔ نائیجل نے برطانوی پولیس کے نظام کی شکایت بھی کی، اس کا کہنا تھا کہ ان کو میرے جیسے عام لوگوں کی زندگی کی کوئی پروا نہیں ہے۔ نائیجل نے کہا کہ میں بچوں کو جنسی طور پر استعمال کرنے والا شخص نہیں ہوں یہ دنیا کو بتانا چاہتا ہوں، میں عام سا محنت کش ہوں لیکن اب ذہنی ہیجان کا شکار ہوگیا ہوں، مجھے نہیں معلوم میرا مستقبل کیا ہے۔
نائیجل خوش قسمت ہے کہ تمام تر’بدقسمتی‘ کے باوجود وہ پاکستان کا شہری نہیں۔ وہ سوال پوچھ سکتا ہے، وہ انٹرویو دے سکتا ہے۔ اگر وہ پاکستان میں ہوتا تو بلاگرز کی طرح اس کو بغیر کسی پوچھ گچھ اورتحقیقات کے اٹھا لیا جاتا اور پھر بدترین تشدد کے بعد صفائی کا موقع بھی نہ دیا جاتا۔ مذہب اور مقدس ہستیوں کی محبت سے بھرا ہوا ہر پاکستانی اس کو صرف الزام کی بنیاد پر شہر کے چوک پر سنگسار کرنے کا خواہش مند ہوتا۔ اس کو صفائی کا موقع دینے کی بات کرنے والے لوگ بھی ’توہین مذہب‘ کے مرتکب قرار دیے جاتے۔
اگر کسی نے قانون اور تفتیش کے نظام کو سمجھنا ہے تو برطانیہ میں پیش آنے والا حالیہ واقعہ بھی سیکھنے کیلئے ہے۔ بائیس مارچ کو لندن میں پارلیمان کے گیٹ پرحملہ کرنے والے کی شناخت اس کی موت کے دو دن بعد ظاہرکی گئی۔ ایک عام اہلکار سے لے کر پولیس کمشنر اور شہر کے میئر سے لے کر ملک کی وزیراعظم تک سب نے انتہائی پرسکون رہ کر تفتیش مکمل ہونے کا انتظار کیا۔ بریکنگ نیوز کے چکر میں کسی نے مرے ہوئے حملہ آور کو ’ٹھڈے‘ مارنے کی کوشش نہیں کی۔
اب پاکستان کے سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد پھیلانے کے ملزمان کو دیکھ لیجیے۔ تئیس مارچ کی رات پولیس نے کراچی اور اسلام آباد سے تین افراد کو گرفتار کیا، مقدمہ درج کیا اور ان کے نام ہر ایک کی زبان پر ہیں۔ اب اگر یہ لوگ بے گناہ قرارپاتے ہیں تو پھر کیا ہوگا؟۔ فرض کریں نائیجل کی طرح ان کے آئی پی ایڈریس میں بھی غلطی نکل آئی تو کیا یہ عام لوگوں کی طرح زندگی گزار سکیں گے؟۔ کیا یہ معاشرہ ان کو ’معاف‘ کر دے گا؟۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے