کالم

عدالت، زمین قبضے اور بحریہ ٹاﺅن

اپریل 6, 2017 4 min

عدالت، زمین قبضے اور بحریہ ٹاﺅن

Reading Time: 4 minutes

اے وحید مراد
سپریم کورٹ میں درخواست گزارمحمود نقوی بولا، پانچ لاکھ ایکڑ زمین کا معاملہ ہے، پہلے بحریہ ٹاون کراچی کے خلاف درخواست دی تھی، اب چاہتا ہوں کہ اسی قیمت پر بحریہ ٹاون کو بھی زمین دی جائے جس پر ڈی ایچ اے کو دی جاتی ہے۔ ڈیفنس ہاﺅسنگ اتھارٹی کو بھی فی ایکڑ ایک لاکھ روپے میں دی گئی تھی۔ اللہ کی قسم میں بکا نہیں ہوں، نہ مجھے کوئی خرید سکتا ہے۔
جسٹس اعجازافضل نے کہا کہ نئی درخواست بعد میں پڑھیں، پہلے اپنی وہ درخواست پڑھیں جس پر یہ عدالتی کارروائی شروع ہوئی تھی۔ درخواست گزار نے پڑھنا شروع کیا کہ سندھ کے تمام اداروں نے مل کرملیر ٹاون کے علاقے گڈاپ میں پانچ لاکھ ایکڑ زمین غیر قانونی طور پرایک شخص ملک ریاض کو دی ہے۔ پھربولا، دراصل زمین غیر قانونی طورپردی گئی تھی مگر اب چونکہ لوگوں نے کروڑوں روپے ادا کرکے گھر بنا لیے ہیں اور یہ کھربوں کا منصوبہ ہے تو عدالت اس کو جائز قراردے، صرف ان سے ڈی ایچ اے کی طرح ایک لاکھ فی ایکڑ وصول کرکے خزانے میں جمع کی جائے۔
سندھ کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل غلام سرور نے عدالت کو بتایا کہ زمین محکمہ مال کی ملکیت تھی،اس نے ہموار کرنے کیلئے ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے حوالے کی ہے۔ جسٹس اعجازافضل نے پوچھا ، کیا ملیراتھارٹی یہ زمین آگے کسی کو بھی بیچ سکتی ہے؟۔ وہ دستاویز ات کہاں ہیں جن میں یہ معاہدہ درج ہے، کس شرائط کے تحت اور کون سے قانون کے مطابق یہ زمین محکمہ مال نے ملیراتھارٹی کو دی؟۔ سندھ کے وکیل بولے، یہ 1912کاقانون ہے سندھ کالونائزیشن اینڈ ڈسپوزل آف گورنمنٹ لینڈ جس کے تحت زمین حوالے کی جاتی ہے۔
جسٹس اعجازافضل نے کہا، عدالت یہ دیکھے گی کہ کیا محکمہ مال نے قانون کے مطابق زمین ملیراتھارٹی کے حوالے کی؟۔ سندھ کے وکیل نے کہا، اس بارے میں ملیراتھارٹی اور بحریہ ٹاﺅن ہی بہتر بتاسکتے ہیں کہ ان کے درمیان کن شرائط پر معاہدہ ہوا۔ عدالت میں محکمہ مال کی جانب سے وکیل فاروق ایچ نائیک پیش ہوئے اور بتایا کہ زمین کے حصول کیلئے ملیراتھارٹی نے 2014میں درخواست کی تھی، اس حوالے سے تین قوانین ہیں، ایک وہی 1912کا قانون، دوسرا مغربی پاکستان زمین حوالگی کاقانون اور تیسرا ملیرڈویلپمنٹ اتھارٹی کا قانون، جس کے تحت وہ زمین کا تبادلہ کرکے اس کو قابل استعمال بنا سکتا ہے، عدالت کو تمام تفصیل سے آگاہ کریں گے مگر تیاری کیلئے موقع دیاجائے۔
ملیر اتھارٹی کے وکیل رشید اے رضوی بولے، ہم نے زمین قانون کے مطابق ہی بحریہ ٹاﺅن کے حوالے کی تھی ،کل تیرہ ہزار ایکڑ کی ڈویلپمنٹ کا طے ہوا تھا، بعد میں مالیت پر تنازعہ سامنے آیاجو اب طے ہو رہا ہے۔ جسٹس مقبول باقر بولے، وہ تو آپ کے چہرے پر چھائی خوشی سے معلوم ہو رہا ہے کہ ’دل تبدیل کر دیا ہے‘۔
بحریہ ٹاﺅن کے وکیل علی ظفر آگے بڑھے اور بولے، ملیرڈویلپمنٹ اتھارٹی کے پاس زمین کو ہموار کرکے قابل استعمال بنانے کیلئے رقم نہیں تھی، ہمارے حوالے کرنے کی منظوری سندھ حکومت نے بھی دی تھی۔ اب اگر ملیراتھارٹی کو مزید رقم کی بھی ضرورت ہے تو ہم منہ مانگے پیسے دینے کو تیار ہیں۔ بحریہ ٹاﺅن کی جانب سے وکیل اعتزازاحسن بھی آگے بڑھ کر بولنے لگے تو جسٹس اعجازافضل نے کہا، آپ کو بھی سن لیں گے فی الوقت معاملے کی بنیاد کا جائزہ لینا ضروری ہے، اس کیلئے محکمہ مال سندھ کے وکیل نے مہلت طلب کی ہے، مقدمہ انیس اپریل تک ملتوی کرتے ہیں۔
پھر بحریہ ٹاﺅ ن کی جانب سے راولپنڈی اسلام آبادمیں جنگلات و سرکاری زمین پر قبضے کا مقدمہ شروع ہوا۔ پنجاب حکومت کے وکیل نے کہاکہ سپریم کورٹ نے 22اگست 2014 کو ایک فیصلہ دیاتھا جس پر نظرثانی اپیل دائر کی گئی ہے۔ کل 684 ایکڑ زمین پر ناجائز تجاوز کا معاملہ ہے، یہ محکمہ جنگلات کی زمین تخت پڑی کے علاقے میں واقع ہے، محکمہ مال کی اس پر تین رپورٹس آئی ہیں۔جسٹس اعجازافضل بولے کہ جب آپ کہتے ہیں کہ محکمہ جنگلات کی زمین ہے تو پھر تجاوز کیسے کہہ رہے ہیں، یہ تو قبضہ ہوگا۔ پنجاب حکومت کے وکیل نے کہاکہ عدالتی حکم کے بعد 8 سوکنال اراضی واگزار کرائی گئی مگر بعد میں اس پر بھی دوبارہ قبضہ کرلیا گیا۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ کہاں سے پڑھ رہے ہیں؟۔ وکیل نے کہا کہ یہ ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کی رپورٹ ہے۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ یہ رپورٹ کہاں ہے، ریکارڈ سے دکھائیں کب اور کیسے قبضہ ہوا؟ واگزار کس نے کب کیا؟اور کس سے کیا، پھر کون قابض ہوا، اس کی ایف آئی آرکہاں درج ہے؟۔ پنجاب سرکار کے وکیل آئیں بائیں شائیں کرنے لگے ۔
اس موقع پر درخواست گزار محکمہ جنگلات کا ریٹائرڈ ملازم ستر سال کی عمر میں عدالت میں کھڑا ہوا، ملک شفیع نے بتایا کہ یہ مقدمہ ڈیڑھ سال بعد سماعت کیلئے لگا ہے،آخری سماعت پر تمام چیزیں کھل کرسامنے آگئی تھیں مگر جسٹس جواد خواجہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد مقدمہ نہ لگا۔ ملک شفیع نے کہا کہ یہ صرف راولپنڈی کی 684ایکڑ زمین کامعاملہ نہیں، اس کے علاوہ بھی 714ایکڑ زمین ہے جس پر قبضہ کیا گیا، ڈیڑھ کھرب روپے کی زمین ہے ، یہ بہت بڑا اسکینڈل ہے۔ اس وقت جب ہم اس عدالت میں کھڑے ہیں تمیر کے ہزاروں کنال جنگلات پر قبضہ جاری ہے، میری زندگی کو خطرہ لاحق ہے، میری بیوی اور بچے کہتے ہیں کہ چھوڑو، ان مقدموں سے ہمیں کیا ملنا ہے، مگر میں صرف اللہ کیلئے اور اس ملک کیلئے یہاں کھڑا ہوں، کسی سے کوئی جھگڑا نہیں۔ وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ نے زمین کی نشاندہی کیلئے سروے آف پاکستان، محکمہ مال راولپنڈی اور اسلام آباد سمیت تین اداروں سے رپورٹ طلب کی تھی مگر آج تک کسی نے بھی عمل نہیں کیا۔
اسی وقت اعتزاز احسن، علی ظفر، زاہد بخاری سمیت کئی وکیل اپنی اپنی کرسیوں سے اٹھے اور بولے کہ ہم سب ملک ریاض کے دفاع کیلئے پیش ہو رہے ہیں، ہمیں بھی سن لیا جائے۔ جسٹس اعجازافضل نے کہا کہ حوصلہ رکھیں، ابھی ہم کوئی فیصلہ نہیں کررہے، صرف سرکاری اداروں سے پوچھ رہے ہیں کہ ان کی جانب سے زمین کی نشاندہی کی رپورٹ کہاں ہے؟۔
عدالت نے حکم دیا کہ کل راولپنڈی اور اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنرز اور کلکٹرز پیش ہوکر بتائیں کہ جنگلات کی زمین کانقشہ اور اس کی نشاندہی کی کیا صورتحال ہے۔
(یہ وہی کچھ ہے جو عدالت میں دیکھا اور سنا، میرا ذاتی تبصرہ شامل نہیں ، اس لیے کہ یہ خبر کوئی اخبار یا ٹی وی نہیں چلائے گا)

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے