کالم

اگر دعویٰ درست ثابت ہوا تو

اپریل 28, 2017 5 min

اگر دعویٰ درست ثابت ہوا تو

Reading Time: 5 minutes

یہ بات ہرگز ضروری نہیں کہ ایک منہ پھٹ آدمی ہمیشہ سچ بولنے کا عادی بھی ہو۔ عالمی سطح پر مثال کے طور پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سوچے سمجھے بغیر کچھ بھی کہہ دینے پر فطرتاً مجبور نظر آتا ہے۔ اس کی بہت دبنگ انداز میں کہی باتیں لیکن عموماً قطعاً غلط اور بے بنیاد ہوتی ہیں۔ ٹرمپ ایسے جھوٹوں کا کمال مگر ان کی ڈھٹائی ہوا کرتی ہے۔ ظفر اقبال کے ایک شعر والا ”صاحب کردار“ جو جھوٹ بول کر اس پر قائم بھی رہتا ہے۔
انتہائی اعتماد کے ساتھ کچھ بھی کہہ دینے کے حوالے سے راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ موصوف کی ”گستاخیاں“ لاہور کے سٹیج ڈراموں میں لگائی جگتوں کی طرح لوگوں کو خوب ہنساتی ہیں۔ Ratings کی تلاش میں خوار ہوتے اینکر خواتین و حضرات کو اپنی ”سٹار ویلیو“ کے باعث یہ صاحب صرف One on One انٹرویوز عطا کرتے ہیں۔ ان کے پاس سنانے کو کہانیاں بھی بہت ہیں۔
دُنیا بھر کے تجربہ کار سیاست دانوں کے پاس کہانیوں کا ایک انبار ہوا کرتا ہے وہ ان میں سے اکثر کو بیان کرنے کےلئے مواقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ہم صحافیوں کو یہ کہانیاں سننے کا بہت اشتیاق ہوتا ہے لیکن ہمارے پیشے کی مجبوری یہ بھی ہے کہ جب کوئی شخص داستان گوئی میں مصروف ہو تو ہم کوئی نہ کوئی سوال اُٹھاکر اس کی صداقت کو یقینی بنائیں۔ ہمارا یہ فرض Fact Checkingکہلاتا ہے۔
راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر کے ساتھ لیکن Ratings کےلئے خوار ہوتا کوئی اینکر Fact Checkکی زحمت ہی نہیں اُٹھاتا۔ وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ چین میں ایک طویل جدوجہد اور لانگ مارچ کے بعد انقلاب لانے والے چیئرمین ماﺅکو 1960ءکی دہائی کے اختتامی مہینوں میں سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اب آگے کیسے بڑھاجائے۔ لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر ان دنوں راولپنڈی کے ”شہرئہ آفاق“ طالب علم رہ نما سمجھے جاتے تھے۔ انہیں چیئرمین ماﺅنے خصوصی دعوت دے کر اپنے ملک بلوایا اور درخواست کی کہ وہ دنیا بھر میں مدبر کے طورپر مشہور ہوئے چو این لائی کو کار حکومت کے چند صدری نمونے عطا فرمائیں۔ مجھے اکثر یہ شبہ ہوتا ہے کہ چو این لائی کی جب ہمارے Ratings کے شیر سے کچھ سیکھنے کےلئے ملاقاتیں ہوئیں تو ڈینگ سیاﺅپنگ نام کے کوئی صاحب بھی اِردگرد موجود ہوا کرتے تھے جو چین کو عالمی اقتصادی قوت بنانے کے اصل معمار تسلیم کئے جاتے ہیں۔
بہرحال بات سچائی اور منہ پھٹ ہونے کے باہمی تعلق سے شروع ہوئی تھی۔ ٹرمپ سے کئی برس پہلے ہمارے ملک میں عمران خان صاحب بھی ”منہ آئی بات“ کو نہ روکنے کی وجہ سے مشہور ہوئے تھے۔ ان کے پرستاروں اور ذاتی دوستوں کو مگر پورا یقین ہے کہ وہ ڈھٹائی کے ساتھ غلط بیانی نہیں کرتے۔ ہمیشہ سچ بولتے ہیں۔ ایمان داری کی بات یہ بھی ہے کہ میں نے عمران خان صاحب سے ہوئی چند ملاقاتوں میں انہیں ہمیشہ صاف گو پایا۔ اگرچہ ان کی بیان کردہ چند باتیں ایسی بھی تھیں جو سنی سنائی تھیں۔ اپنی سادگی کے باعث خاں صاحب کو مگر ان کے درست ہونے کا ہمیشہ یقین رہا۔
عمران خان صاحب کی عمومی شہرت کو ذہن میں رکھتے ہوئے میرے لئے بہت مشکل ہے کہ میں ان کے اس حالیہ دعوے کو جھٹلاﺅں کہ تحریک انصاف کے پانامہ دستاویزات بھول جانے کےلئے شہباز شریف صاحب نے اپنے اور عمران خان کے ایک مشترکہ دوست کے ذریعے دس ارب روپے کی پیش کش کی تھی۔
عمران خان صاحب کے اس دعوے پر اعتبار کرنے کو دل اس لئے بھی مجبور ہے کیونکہ جمعرات 20 اپریل 2017ءکے تاریخی دن ہمارے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے ایک دبنگ اور عزت مآب منصف جناب کھوسہ صاحب نے جو اختلافی نوٹ لکھا اس میں شریف خاندان کو ”گاڈفادر“ کے خاندان والے رویے اختیار کرنے کا عادی بتایا گیا ہے۔ اس اختلافی نوٹ کے تناظر میں عمران خان کا دعویٰ ان کی چاہت میں مبتلا لوگوں کو بالکل درست سنائی دے گا۔
میں بھی اکثر عمران خان صاحب کی چاہت میں مبتلا ہو جاتا ہوں۔ میرا دل ان دنوں ان کے دعوﺅں پر ایمان لانے کو بہت ساری وجوہات کی بناءپرمجبور ہورہا ہے۔ لہذا مجھے یہ بات تسلیم کرلینے میں ہرگز کوئی دِقت محسوس نہیں ہورہی کہ ایک مشترکہ دوست کی وساطت شہباز صاحب نے عمران خان کو دس ارب روپے کی خطیر رقم بطور رشوت پیش کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہوگا۔
عمران خان کے دعوے کو بادی النظر تسلیم کرنے کے بعد البتہ میرا دل اب یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ شہباز شریف میں ”گاڈفادر“ والی صلاحیتیں بدرجہ اتم موجود ہیں ۔ میں نے ”گاڈ فادر“ نامی ناول نہیں پڑھا۔ ادب کا ایک یبوسیت زدہ قاری ہوتے ہوئے مجھے یہ ناولPulp Fictionکی صف میں موجود محسوس ہوا۔ اس کے بے تحاشہ ذکر کے باوجود لہذا اسے پڑھنے کی خواہش ہی محسوس نہیں ہوئی۔ اس ناول پر مبنی فلم کوالبتہ میں دیکھنے کو اس لئے مجبور ہوا کہ اس میں ”گاڈفادر“ کا کردار مارلن برانڈو نے ادا کیا تھا۔ مجھے وہ ادا کار بہت پسند تھا۔ اداکاری کی ایک صنف Method Actingکہلاتی ہے۔ برانڈو نے اس صنف کو انتہائی کمال تک پہنچایا۔
مجھے اب یاد نہیں کہ کیوں اور کس سین میں شاید برانڈو ہی کی زبان سے اس فلم میں مافیا کے ایک کارندے کو بتایا گیا کہ فلاں شخص کو ایسی پیش کش کرو جسے ٹھکرانے کے بارے میں وہ سوچ ہی نہ پائے۔ شہباز شریف اگر ”گاڈفادر“ کے حقیقی پیروکار ہوتے تو اپنے اور عمران خان کے ایک مشترکہ دوست کی وساطت سے کپتان کو ”خریدنے“ کی جسارت ہی نہ کرتے۔
عمران خان کے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔ بنی گالہ کے ایک وسیع و عریض محل نما مکان میں اکیلے رہتے ہیں۔ خوراک ان کی بہت سادہ ہے۔ پہلے دیسی مرغی کا سالن چپاتیوں کے ساتھ شوق سے کھایا کرتے تھے۔ان دنوں ٹرکی کہلاتے پرندے کا گوشت اُبال کر سلاد کے ساتھ کھاکر پیٹ بھرلیتے ہیں۔ برانڈڈ کپڑے پہننے کا بھی انہیں کوئی شوق نہیں ہے۔ قیمتی گاڑیاں ان کے گرد ایک کاررواں کی صورت موجود ہوتی ہیں۔ وہ پاکستان کے کسی بھی شہر میں کسی بھی وقت پہنچنا چاہیں توجہانگیر خان ترین کا طیارہ ان کے سفر کےلئے ہمہ وقت تیار ہے۔ ایسے شخص کو جیب میں سوروپے رکھنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔
شہباز شریف اگر ”گاڈفادر“ کے حقیقی پیروکار ہوتے تواپنے دوست کی وساطت سے عمران خان کی شخصیت کو پوری طرح سمجھتے ہوئے دس ارب روپے دے کر ان کا منہ بند کروانے کی کوشش ہرگز نہ کرتے۔ خاص طور پر یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہمارا منہ پھٹ کپتان اگر کسی بات پر خفا ہوجائے تو ”رولا“ بہت ڈالتا ہے۔ کوئی بات کہہ دے تو اس پر ڈٹ بھی جایا کرتا ہے۔
عمران خان کے دس ارب روپے والے دعوے پر ان دنوں میڈیا میں بہت شور برپا ہے۔ مجھے لیکن یہ فکر کھائے جارہی ہے کہ اگر ان کا دعویٰ درست ثابت ہوا تو شہباز شریف محض دو نمبر کے ”گاڈفادر“ ثابت ہوں گے۔ مسئلہ میرا شہباز شریف کی اس ضمن میں رسوائی بھی نہیں۔ اصل میں یہ سوال بہت دُکھ پہنچا رہا ہے کہ میرے وطن میں ہر شے”دونمبر“ کیوں ثابت ہوتی ہے۔ خواہ وہ جرائم کی دُنیا کا ”گاڈفادر“ ہی کیوں نہ ہو۔

بشکریہ نوائے وقت

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے