کالم

پانامہ تحقیقاتی ٹیم کا سوالنامہ

مئی 5, 2017 4 min

پانامہ تحقیقاتی ٹیم کا سوالنامہ

Reading Time: 4 minutes

سپریم کورٹ نے پانامہ کیس فیصلے کی روشنی میں چھ رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تو تشکیل دیدی ہے، ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے کی سربراہی میں قائم یہ ٹیم ساٹھ دن میں اپنی رپورٹ مکمل کرے گی، اس تحقیقاتی ٹیم نے کن امور کی تفتیش کرنی ہے اس بارے میں عدالت نے 20اپریل کے پانامہ فیصلے میں سوال دیے تھے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اس سوال کا جواب تلاش کرناہے کہ گلف اسٹیل مل کیسے وجود میں آئی، یہ کیسے فروخت ہوئی اور اس کے ذمے واجب الادا قرض کا کیابنا؟۔ اس کی فروخت سے حاصل رقم کہاں ختم ہوئی؟ یہ رقم جدہ، قطر اور برطانیہ کیسے پہنچی؟۔ کیا حسن اور حسین نوے کی دہائی میں کم عمری کے باوجود اس قابل تھے کہ لندن میں فلیٹ خریدے؟۔ کیا شیخ حمد بن جاسم کے خط کا اچانک ظہور ایک حقیقت ہے یا واہمہ؟۔ بیرر شیئر فلیٹوں میں کیسے تبدیل ہوئے؟نیلسن اور نیسکول کمپنیوں کا حقیقی اور فائدہ اٹھانے والا مالک کون ہے؟۔ ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کمپنی کیسے وجود میں آئی؟حسن نوازکی فلیگ شپ انوسٹمنٹ اور دیگر کمپنیاں بنانے کیلئے رقم کہاں سے آئی؟۔ان کمپنیوں کا ’ورکنگ کیپٹل‘ (سرمایہ) کہاں سے آیا؟۔ حسین نواز کی جانب سے وزیراعظم نوازشریف کو دیے گئے کروڑوں روپے کیسے تحائف کے طور پر دیے گئے؟۔ یہ وہ سوال ہیں جن کا مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے جواب تلاش کرنا ہے۔

آج کی سماعت شروع ہوئی تو تحریک انصاف کے رہنما عدالت میں موجود تھے، وکیلوں اور میڈیا کے نمائندوں کی ایک بڑی تعداد بھی ججوں کے فیصلے کی منتظر تھی۔ جج آئے تو اٹارنی جنرل اشتراوصاف روسٹرم پر کھڑے ہوئے۔
جسٹس اعجازافضل، جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجازالاحسن کرسیوں پربیٹھے۔تین رکنی خصوصی بنچ کے سامنے ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بنک اور سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کے چیئرمین پیش ہوئے اور اپنے گریڈ اٹھارہ کے افسران کی فہرست جمع کرائی۔ جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ اس سے قبل ان دونوں اداروں کے افسران کے جونام آئے تھے ان کے بارے میں معلومات حاصل کیں تو بہت منفی رپورٹ آئی، کسی کی سیاسی وابستگی تھی تو کوئی متعلقہ اہلیت پر ہی پورا نہیں اتررہا، ہم ان افسران کے نام سامنے نہیں لائیںگے لیکن یہ کچھ اچھا نہیں ہے۔ اٹارنی جنرل اشتراوصاف نے کہاکہ سوشل میڈیا پر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم اور ججوں کے حوالے سے پروپیگنڈا شروع ہواہے، یہ اچھی بات ہے کہ عدالت نے ان افسران کے نام ظاہر نہیں کیے۔ جسٹس اعجازالاحسن بولے کہ افسران کے نام عدالت میں آنے سے قبل ہی ان کے ادارے سے میڈیا میں لیک ہوئے، یہ سب کیسے ہوا، اس کے ذمہ دار اداروں کے سربراہ ہیں، یہ کام جان بوجھ کرکیاگیا، جے آئی ٹی کو متنازع بناکر کس کو فائدہ ہوگا؟نام لیک کرکے مجرمانہ کام کیا گیا۔اٹارنی جنرل نے ججوں کو مخاطب کرکے کہاکہ سوشل میڈیا کے علاوہ الیکٹرانک میڈیا پر جو کچھ کہاجارہاہے،اس کو بھی عدالت نے دیکھا ہوگا۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ ہم میڈیا نہیں دیکھتے، ہم دیکھیں گے بھی نہیں، ہمیں کوئی پروا نہیں کہ ٹی وی پر کیا کہا جا رہاہے، آسمان گرجائے ہم نے قانون کے مطابق فیصلے دینا ہیں،ہم آئین اور قانون کی تنی ہوئی رسی پر چلتے ہیں، میڈیا اور سیاستدان کیاکہتے ہیں کوئی پروا نہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ لوگوں کو بدنام کیا جارہاہے اس کو روکاجائے۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ ہم نے ایسی کوئی بات نہیں کی جو سیاستدان باہر بولتے ہیں، ایک لیڈر نے کہاکہ عدالت کے پانچ ججوں نے وزیراعظم کو جھوٹا کہا ہے، دراصل اس لیڈر نے قوم کے سامنے عدالت کے بارے میں جھوٹ بولا، ہم ان لیڈروں کی سطح تک نہیں اتر سکتے، جج ، سیاسی رہنماﺅں اور مقدمے کے فریقین سے بہت اوپر ہوتے ہیں، ہم نے غیر معمولی تحمل دکھایاہے اور ضبط سے کام لیں گے لیکن ہم خبردار کرتے ہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ ہم سوشل میڈیا کے پروپیگنڈا کرنے والوں کو ٹریس کرسکتے ہیںاور میڈیا کو کنٹرول کرنا بھی آتاہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ یہ انتہائی اہم معاملہ ہے، ایک طرف ہم نے عدلیہ کے وقار کو ملحوظ خاطر رکھناہے اوردوسری جانب اظہار رائے و میڈیا کی آزادی کو بھی برقرار رکھناہے۔جسٹس اعجازافضل بولے کہ جو شخص خود کو لیڈر کہتاہو، یا جس نے مستقبل میں لیڈر بنناہے اس کو اس طرح ’لوزٹاک‘ نہیں کرناچاہیے، خواہ وہ شخص یا لیڈر کوئی بھی ہو، کہیں سے بھی تعلق رکھتاہو، کل سے جو بھی ججوں کانام لے کر اس طرح کی غلط بات پھیلائے گا اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ ہم آج ہی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دیں گے، ہمیں جتنا بھی گمراہ کرنے کی کوشش کی جائے حکم جاری کرکے جے آئی ٹی بنائیں گے۔
عصر کے بعد عدالت سے اعلامیہ جاری ہوا، اور پانامہ فیصلے پر عمل درآمد کیلئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دیدی گئی ، سپریم کورٹ سے جاری اعلامیے کے مطابق وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر واجد ضیاءجے آئی ٹی کے سربراہ ہوںگے، تحقیقاتی ٹیم کے دیگر ارکان میں سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کے بلال رسول، اسٹیٹ بنک کے عامرعزیز، قومی احتساب بیورو کے عرفان نعیم منگی، آئی ایس آئی کے بریگیڈئر محمد نعمان سعید اور ملٹری انٹیلی جنس کے بریگیڈئر کامران خورشید شامل ہیں۔عدالتی حکم نامے میں کہاگیاہے کہ تحقیقاتی ٹیم کا دفتر وفاقی جوڈیشل اکیڈمی میں قائم ہوگا جبکہ وفاقی حکومت ابتدائی طور پر جے آئی ٹی کو دوکروڑ روپے جاری کرے، عدالت نے کہاہے کہ کوئی بھی شخص کسی بھی مرحلے پر جے آئی ٹی سے تعاون سے انکار کرے تو سپریم کورٹ کو فوری آگاہ کیاجائے تاکہ مناسب کارروائی کی جاسکے۔ عدالتی حکم کے مطابق جے آئی ٹی اپنی پہلی عبوری رپورٹ 22مئی کو پیش کرے جبکہ حتمی رپورٹ پانامہ فیصلے کے مطابق ساٹھ دن میں پیش کی جانی ہے۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے