کالم

انصاف کے سامنے بحریہ ٹاﺅن کا پھاٹک

مئی 13, 2017 5 min

انصاف کے سامنے بحریہ ٹاﺅن کا پھاٹک

Reading Time: 5 minutes

احساس / اے وحید مراد
اٹھائیس اپریل کو بحریہ انکلیو میں اے آر وائے ٹی وی کے پروگرام کی ریکارڈنگ کے دوران اسٹیج گرنے سے زخمی اور مارے جانے والے افراد کی خبر میڈیا کے ایک بڑے حصے پر نہ آسکی مگر بارہ دن بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے واقعے کا نوٹس لیا، چیف کمشنر اور آئی جی پولیس سے رپورٹ طلب کی ۔
اب یہاں ہر ایک یہ اہم سوال پوچھ رہا ہے ، کیا سپریم کورٹ ملک کے طاقتور لینڈ مافیا کے ڈان کے خلاف کوئی حکم جاری کرسکتی ہے؟ اور کیا ایسے کسی حکم پر عمل بھی کرایا جاسکتاہے؟۔ اس کیس میں تو ریاض ٹھیکیدار کے علاوہ نجی ٹی وی چینل بھی شامل ہے، تو کیا متاثرین کو انصاف مل سکے گا؟۔ آٹھ برس سے زائد سپریم کورٹ کی رپورٹنگ کرتے ہوئے اپنے تجربات کی بنیاد پر کچھ زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کرسکتا۔ سپریم کورٹ کے سامنے ملک ریاض کے کئی مقدمات آئے اور بہت سے آج بھی عدالت میں زیرالتواء ہیں مگر فیصلے نہ ہوسکے۔ بحریہ ٹاﺅن کی جانب سے زمینوں پر قبضے کے خلاف بلامبالغہ سینکڑوں متاثرین نے گزشتہ دس برس کے دوران عدالت عظمی سے رجوع کیا، اور ایک بار سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اسلام آباد کے ایک ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو انکوائری کا حکم دیا، جرات مند اور دیانتدار سیشن جج نے پانچ سو صفحات کی ایسی زبردست رپورٹ تیار کی کہ اس میں ریاض ٹھیکیدار کے زمینوں پرقبضے کے طریقہ کار، پٹواریوں کو ساتھ ملانے اور پولیس کے ذریعے متاثرین کو ماربھگانے کا تفصیلی جائزہ لیا گیا تھا۔ جج نے رپورٹ میں بتایاتھاکہ کس طرح ریاست کے تمام ادارے ٹھیکیدار کو قبضے کرنے میں سہولت فراہم کرتے ہیں۔ افتخار چودھری کے سامنے اس کیس میں ملک ریاض کی جانب سے کئی نامی گرامی وکیل آگئے جن میں سے کچھ ان کے وکلاءتحریک کے دنوں کے دوست بھی تھے، سرفہرست ان میں حامد خان رہے، اور پھر اس رپورٹ پر کوئی کارروائی نہ ہوسکی۔
پھر وہ دن آئے کہ افتخار چودھری سے نالاں تمام قوتوں نے ایکا کرلیا اور اس کے بیٹے ارسلان کے ذریعے ایسا کھیل کھیلا کہ آنے والے دنوں میں دوسرے ججوں نے بھی ریاض ٹھیکیدار کے مقدمات کی سماعت سے دوررہنے کو ہی ترجیح دی۔ افتخار چودھری سے ایک طرف تو وہ قوت ناراض تھی جو لاپتہ افراد کے مقدمے میں ملزم تھی اور دوسری جانب پیپلز پارٹی کے آصف زرداری بھی ان سے بدلہ لینے کیلئے ابل رہے تھے تو ریاض ٹھیکیدار نے ان کے ساتھ مل کر اپنے چندکروڑ روپے کی رقم کو آگ لگائی اور چودھری صاحب کے بیٹے کو مشہور زمانہ ماڈل گرل کے ساتھ اسپین مونٹی کارلو کی ایسی سیرکرائی کہ ہر چیز کا دستاویزی ثبوت بھی پاس رکھا۔ اورپھر اپنے اینکر کامران خان کے ذریعے پروگرام کرایا کہ چیف جسٹس کے بیٹے نے مقدمات کافیصلہ حق میں کرانے کیلئے ریاض ٹھیکیدار سے کروڑوں وصول کیے ہیں، اس کے بعد ٹھیکیدار نے میریٹ ہوٹل میں ایک بہت بڑی پریس کانفرنس میں الزامات لگائے ۔ دل ٹھنڈا نہ ہواتو دنیا ٹی وی کے مالک سے مل کر اینکر مبشرلقمان اور اینکرنی مہربخاری کے پروگرام میں ’بہت غیرجانبدار سوالات‘ کے کھل کر جواب دیے۔ افتخار چودھری نے بڑے وکیلوں کے بھرے میں آکر مظلوم متاثرین کی داد رسی نہیں کی تھی، شاید یہ بھی قدرت کا انتقام تھا کہ ٹھیکیدار کے ذریعے سابق چیف جسٹس کو زبردستی تشہیری مہم چلا کر بدنام کیا گیا۔
ایک اور مقدمے میں ہاﺅسنگ سوسائٹی کے گارڈ فیاض کی اہلیہ نے ٹھیکیدار اور اس کے بیٹے پر اپنے شوہر کے قتل ک الزام لگایا، سپریم کورٹ نے جب دباﺅ ڈالا تو ٹھیکیدار نے خزانے کے دھانے کھول دیے۔ بڑے وکیل عدالت میں پیش ہوئے اور آخر کار خون کا سودا کروڑ روپے کے لگ بھگ ہوگیا۔ پھر ٹھیکیدار کے اہم حریف ملک باری کا مقدمہ بھی عدالت عظمی میں لگا، راتوں رات ٹھیکیدار کے ملازم پولیس افسر نے ملک باری کو ہتھکڑی لگائی، ٹھیکیدارسے جہاز کا ٹکٹ لیا اور ملزم کو کراچی لے گیا۔ چیف جسٹس نے ازخود نوٹس لے کر مقدمہ سنا، ایک دن عدالت کو معلوم ہواکہ باری صاحب بہت بڑی رقم لے چکے ہیں۔ معلوم نہیں، آج وہ مقدمہ سپریم کورٹ کی کس فائل میں پڑا سڑ رہا ہے۔
شاید کسی کو یاد ہو، بحریہ ٹاﺅن نے اپنی سوسائٹی میں کار ریس منعقد کی تھی۔ پولیس اور ضلعی انتظامیہ کی اجازت کے بغیر منعقد کی گئی اس ریس میں ایک کار بے قابو ہوکر تماشائیوں کو کچلتی ہوئی نکل گئی۔ پانچ انسانوں کی زندگیاں ٹھیکیدار کے بیٹے کے شوق کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ ریاض ٹھیکیدار کے سامنے سارے ادارے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوگئے تو متاثرین کی درخواستوں پر چیف جسٹس افتخار چودھری نے ازخود نوٹس لے لیا۔ ریس منعقد کرنے والے اور حادثے کا سبب بننے والے اصل ملزمان فرار ہوگئے۔چیف جسٹس ریاست کے اداروں اور تفتیشی حکام کو ایک کے بعد دوسرا حکم دیتے رہے، ٹھیکیدار ایک بارپھر ملک کے نامی گرامی وکیلوں کو عدالت کے سامنے کھڑا کرنے میں کامیاب ہوا۔ ہم جیسے رپورٹر اپنے سامعین اور قارئین کو عدالتی کارروائی سے آگاہ کرتے رہے اور عام لوگ توقعات کے کھیتوں میں اگی فصلوں کو پانی دیتے رہے۔ یقین جانیے، بیرون ملک فرار ملزم کے بھائی نے ایک روز ہم سب رپورٹرز کو عدالت کے احاطے میں کہاکہ ’تم لوگ، تمہاری ریاست اور تمہاری یہ عدالت جتنا زور لگا سکتی ہے لگالے، میرے بھائی کو واپس نہیں لاسکتی، وہ دبئی بیٹھا ہے اور میں دیکھتا ہوں افتخار چودھری میں کتنی ہمت ہے‘۔ یہ شاید اس شخص کاغصہ تھا، مگر سچ یہی ہے کہ اس ملزم کو پاکستان واپس نہ لایا جاسکا، ٹھیکیدار نے مارے جانے والوں کو چند کروڑ دے دیے اور مقدمے کی فائل پر آج کئی انچ کی گردپڑ چکی ہوگی۔
دوبرس قبل سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریاض ٹھیکیدار کے خلاف زمینوں پر قبضے کے دومقدمات سنے۔ ایک مقدمے میں نیب کے سابق چیئرمین فصیح بخاری نے اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ پنجاب سے زمین قبضے کا مقدمہ اپنے پاس منگوایا اور پھر ’تفتیش‘ کرکے ٹھیکیدار اور اس کے بیٹے کو ’بے گناہ‘ قراردے دیا جبکہ پٹواریوں کو اصل ملزم قرار دے کران کے خلاف احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا۔ اینٹی کرپشن والے اس فیصلے کے خلاف ہائیکورٹ گئے اور وہاں سے یہ معاملہ اپیل میں سپریم کورٹ آگیا۔ چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے تین رکنی بنچ نے فیصلہ دیا کہ چیئرمین نیب فصیح بخاری کا کیس منگوانا بدنیتی پر مبنی تھا اور قانون میں اس طرح کی گنجائش موجو نہیں، اس لیے مقدمہ اینٹی کرپشن پنجاب کی عدالت میں ہی چلے گا۔ پھر اسی رات دنیا ٹی وی پر مجیب الرحمان شامی اور جامی نامی ایک اینکر نے پروگرام کیا، ٹھیکیدار کے ذاتی ملازم کرنل ریٹائرڈ خلیل کو فون پر لیاگیا اور جج صاحب پر الزام لگایا گیاکہ انہوں نے اس مقدمے میں اتنی جلدبازی دکھائی کہ جمعے کی نماز کا وقفہ بھی نہ کیا۔ معروف شامی صحافی نے جسٹس جواد ایس خواجہ کی ’مسلمانی‘ پر سنجیدہ سوال اٹھائے۔
جسٹس جواد ریٹائرڈ ہوئے تو ٹھیکیدار کے وکیل اعتزاز احسن نے اس فیصلے پر نظرثانی کی درخواست دائر کردی، دوسرے وکیل زاہد بخاری ہیں، عدالت کو اس نظرثانی اپیل میں بتایا گیاہے کہ جسٹس جواد چونکہ ٹھیکیدار سے تعصب رکھتے تھے اس لیے ہمیں درست طورپرسنے بغیر یہ فیصلہ دیا گیا۔ یہ نظر ثانی ایک ڈیڑھ برس بعد بھی سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے۔جہاں تک ٹھیکیدار کی سوسائٹی کا پنجاب حکومت کی ہزاروں ایکڑ جنگل کی زمین پر قبضے کا مقدمہ ہے تو اس کا فیصلہ جسٹس جواد بھی نہ کرسکے کہ جلد ریٹائرڈ ہوگئے، پندرہ بار اعتزاز احسن نے پیش نہ ہوئے تاکہ مقدمہ ملتوی کیاجاسکے۔ ستمبر دوہزار پندرہ کے بعد یہ مقدمہ گزشتہ دنوں پھر سماعت کیلئے لگا، دوسماعتوں کے بعد ایک اور جج نے سماعت سے معذرت کرلی ہے۔ ٹھیکیدار کے ایک وکیل نے صحافیوں کو گپ شپ میں بتایا کہ جتنی سہولتیں ٹھیکیدار اپنی سوسائٹی میں مجھے رات ٹھہرنے کی دیتاہے میری تو دنیا ہی جنت ہوگئی ہے ۔
اگر کسی کو سپریم کورٹ اور چیف جسٹس ثاقب نثار سے بحریہ انکلیو حادثے کے مقدمے میں انصاف کی امید ہے تو میں اسے مایوس نہیں کرنا چاہتا۔ صرف یہ بتانا تھاکہ اٹھائیس اپریل کے وقوعے کی رپورٹ دس دن بعد بھی متعلقہ تھانے میں درج نہیں کرائی جاسکی تھی۔ اپنا خیال رکھیے گا۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے