کالم

تحریک انصاف کے گلے کی ہڈی

مئی 23, 2017 6 min

تحریک انصاف کے گلے کی ہڈی

Reading Time: 6 minutes

سپریم کورٹ سے اے وحید مراد
مسلم لیگ ن کے حنیف عباسی کی سپریم کورٹ میں کل تین درخواستیں ہیں، ان میں سے تحریک انصاف کے بطور سیاسی جماعت ممنوعہ ذرائع سے غیرملکی فنڈزلینے کے خلاف ہے۔ ان کے وکیل کے دلائل کے بعد دفاع کے وکیل کے دلائل جاری ہیں۔ آج کی سماعت میں کیا ہوا، جاننے کیلئے پڑھیں۔
تحریک انصاف کے وکیل انور منصور نے کہاکہ کیس کے میرٹ پر دلائل سے قبل یہ کہتاہوں کہ درخواست قابل سماعت ہی نہیں، غیرملکی فنڈز لینے والی جماعت کے خلاف کارروائی کیلئے قانون موجود ہے اس لیے سپریم کورٹ اس درخواست کو سن سکتی ہے اور نہ ہی الیکشن کمیشن کو سماعت کا اختیارہے۔ وکیل نے کہاکہ تحریک انصا ف نے غیرملکی کمپنی کے ذریعے رقم پاکستان منتقل کی، قانون میں ملٹی نیشنل کمپنی سے رقم لینے پرپابندی ہے، غیرملکی اور ملٹی نیشنل کمپنی میں فرق ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ جب درخواست قابل سماعت ہی نہیں تو پھر کمپنیوں کے فرق پر دلائل سے کیا ثابت کرناچاہتے ہیں؟ کیاہم سے کیس سن کر بیرونی فنڈنگ پر فیصلہ چاہتے ہیں؟۔ وکیل نے کہاکہ چاہتاہوں سپریم کورٹ غیرملکی فنڈنگ پر دائر درخواست نہ سنے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کیا آپ کے دلائل یہ ہیں کہ سپریم کورٹ یہ درخواست نہیں سن سکتی کیونکہ الیکشن کمیشن کو اختیارہے؟۔ وکیل نے کہاکہ الیکشن کمیشن کے اختیار اور درخواست سننے کا وقت اب نہیں رہا جس وقت الیکشن ہورہاتھا کمیشن سن سکتا تھا، اب الیکشن کمیشن اس طرح کی درخواست لینے کا فیصلہ بھی نہیں کرسکتا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ پھر درخواست کے قابل سماعت ہونے کا فیصلہ کون کرے گا،اور کون طے کرے گا کہ کس ادارے کے دائرہ اختیار میں یہ معاملہ آتاہے؟۔وکیل نے کہاکہ اس کا فیصلہ عدالت کرے گی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ نہیں، جس فورم کے سامنے معاملہ ہوگا وہی فیصلہ کرے گا۔ وکیل نے کہاکہ قانون کے مطابق پارٹی اکاﺅنٹس کی رپورٹ الیکشن کمیشن میں جمع کی جاتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آپ خطرناک حدود میں داخل ہورہے ہیں، اگر الیکشن کمیشن خود سے اپنے دائرہ اختیار کو استعمال کرے تو تحریک انصاف کی کیا پوزیشن ہوگی؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس کیس میں الیکشن کمیشن کو آرٹیکل تریسٹھ کے تحت نااہلی کا بھی اختیارہے؟ کیا الیکشن کمیشن یہ نہیں دیکھ سکتا کہ ایک سیاسی جماعت جو فنڈز اکھٹے کرتی ہے وہ ممنوعہ ذرائع سے تو حاصل نہیں کیے گئے؟۔ وکیل نے کہاکہ جس وقت اکاﺅنٹس کی رپورٹ جمع کرائی جاتی ہے صرف اسی وقت الیکشن کمیشن معاملہ دیکھ سکتاہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اگر ابتدائی طورپر الیکشن کمیشن نے اپنا اختیار استعمال نہیں کیا تو کیا اب الیکشن کے بعد کچھ بھی ہوجائے، کسی بھی قسم کی تفصیلات سامنے آجائیں کمیشن اپنا اختیار استعمال نہیں کرسکتا؟ کیا الیکشن کے دوران کمیشن کے سامنے جو چیز نہ آئی وہ انتخابات کے چھ ماہ بعد منظر عام پرآجائے اور الیکشن کمیشن سے رجوع کرلیاجائے تو وہ کچھ نہیں کرسکتا اور مزید ساڑھے چار سال انتظار کرنا پڑے گا؟۔ وکیل انور منصور نے کہا کہ قانون میں یہی ہے، سیاسی جماعتیں ہرسال جون جولائی میں الیکشن کمیشن میں اپنے اکاﺅنٹس کی تفصیلات جمع کراتی ہیں، قانون میں یہ اجازت نہیں کہ پرانے معاملے کوازسرنو کھولے، یا اس پر نظرثانی کرے۔ جسٹس عمرعطا نے کہاکہ وہ کون سا قانون ہے جو الیکشن کمیشن کوپرانے معاملے میں ازسرنو کارروائی یا نظرثانی سے روکتاہے؟۔ چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے جس کا کام آئین کے مطابق شفاف اورغیرجانبدارانہ انتخابات کرانا ہے، عدالت اور الیکشن کمیشن کو اپنا آئینی اختیاراستعمال کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا، مجھے حیرت ہے کہ ایک سیاسی جماعت کیوں کہتی ہے کہ پارٹی فنڈ کا معاملہ سپریم کورٹ سن سکتی ہے اور نہ الیکشن کمیشن کو سماعت کا اختیارہے۔ جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ آپ کہتے ہیں کہ پارٹی چونکہ ہرسال کمیشن میں اکاﺅنٹس کی تفصیلات جمع کراتی ہے اس لیے اب کوئی نہیں پوچھ سکتا۔وکیل نے کہاکہ یہ سیاسی جماعت کے اندر کامعاملہ ہے الیکشن کمیشن کو اختیارنہیں، پھر کہاکہ مجھے لگتاہے کہ درست طور پر اپنی بات سمجھا نہیں پارہا، بولے کہ اختیارقواعد میں دیا گیا ہے قانون میں نہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آپ قانون کی ایک شق نہ پڑھنے کی وجہ سے درست طورپر سمجھ نہیں پا رہے۔
اس کے بعد تحریک انصاف کے وکیل نے گزشتہ سماعتوں کے دوران دی گئی پرانی دلیل دہرائی اور کہاکہ اگر اکاﺅنٹس میں کوئی گڑ بڑ تھی تو تمام ذمہ داری چارٹرڈ اکاﺅنٹنٹ پر ہے جس نے آڈٹ کرکے رپورٹ دی۔ وکیل نے کہاکہ سیاسی جماعتوں کےلئے قانون بناتے وقت قانون سازوں کی یہی منشا تھی کہ اکاﺅنٹس کی تفصیلات ہی حتمی تصور ہوںگی جو پارٹی جمع کرائے گی۔ جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ آپ کہتے ہیں کہ پارٹی کے سربراہ نے جس طرح کے فنڈز اور اکاﺅنٹس کی تفصیلات بھی فراہم کیں الیکشن کمیشن اس کا تحقیق کرنے کیلئے جائزہ نہیں لے سکتا، پھر کہاکہ ہوسکتاہے ہماری خواہش کچھ اورہو مگر قانون یہی کہتاہے کہ الیکشن کمیشن جائزہ نہیں لے سکتا۔ جسٹس عمرعطا نے کہاکہ پھر تو بات ہی ختم ہوگئی، چارٹرڈ اکاوئنٹنٹ نے ہی اعتراض نہیں کیاتو کسی کو بھی نہیں کرناچاہیے، آپ کی دلیل تو یہی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن اکاﺅنٹنٹ کے رپورٹ کو ہرصورت ماننے کا پابند ہے۔ وکیل انور منصور بولے کہ یہ کوئی نئی بات نہیں، پہلے دن سے یہی ہورہاہے، برسوں سے سیاسی جماعتیں اکاﺅنٹس کی تفصیلات جمع کراتی ہیں اور الیکشن کمیشن اس کوتسلیم کرتاہے کبھی کوئی اعتراض نہیں ہوا، پہلی بار یہ درخواست آئی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کہتے ہیں کہ یہ کنونشن ہے اور کنونشن قانون بن گیاہے اس لیے اب جواب طلب نہیں کیاجاسکتا، یعنی پہلے کسی نے ایسا نہیں کیا تو اب بھی نہ کیاجائے، چیف جسٹس نے کہاکہ اگر پہلے کسی نے نہیں کیا تو اس طرح کرنے سے آپ کی جماعت کی ساکھ بڑھے گی۔ وکیل انور منصور نے کہاکہ الیکشن کمیشن پر اس لیے نہیں چھوڑ سکتے کہ اس کے خلاف بھی کارروائی جاری ہے۔ جسٹس عمرعطا نے کہاکہ یہ بات آپ نے پچھلی سماعتوں پر بھی کی تھی مگر آج تک وہ کارروائی ہمیں نہ دکھائی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ جمہوری نظام میں شفافیت کیلئے یہ چیزیں اہم ہوتی ہیں۔ وکیل نے کہاکہ لیکن کسی تیسرے فریق کو ہمارے اکاﺅنٹس میں جھانکنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ جسٹس عمر عطا نے کہاکہ عدالت تیسرا فریق نہیں ہے۔
(اسی دوران فواد چودھری اپنی نشست سے اٹھ کر پچھلی نشست پر بیٹھے نعیم الحق کے ساتھ بیٹھ گئے اور سرگوشیاں شروع کردیں، قریب ہی بیٹھے حنیف عباسی، دانیال عزیز اور طلال چودھری اپنی نشستوں پر پہلو بدل کر تحریک انصاف والوں کو دیکھ کرمسکرانے لگے،طلال چودھری اور فواد چودھری کے درمیان ہلکی پھلکی گفتگو ہوئی اور مسکراہٹوں کے تبادلے دیکھے گئے۔)
چیف جسٹس نے تحریک انصاف کے وکیل کو مخاطب کرکے کہاکہ آپ کاکہاہوا ہم نے سند کے طورپر لکھ کر رکھ دیاہے تاکہ بوقت ضرورت کام آئے، چیف جسٹس نے کہاکہ اس پر مطمئن کریں کہ ایک خاص وقت گزرنے کے بعد الیکشن کمیشن کیوں اور کیسے پارٹی فنڈز کا معاملہ نہیں دیکھ سکتا، کیونکہ جس کام سے قانون میں روکا نہ گیاہو اس کی اجازت ہوتی ہے۔وکیل نے کہاکہ اس لیے کہ یہ سزا کا معاملہ ہے۔جسٹس عمر عطا نے کہاکہ اکاﺅنٹس کا جائزہ لینا سزا کامعاملہ نہیں۔
تحریک انصاف کے وکیل انور منصور نے اس کے بعد اپنے دلائل میں جدت لاتے ہوئے کہاکہ الیکشن کمیشن ایک اتھارٹی ہے عدالت یا ٹریبونل نہیں اس لیے خود سے سماعت نہیں کرسکتی، ان کا کہناتھاکہ کیا ایگزیکٹو اتھارٹی خود سے ٹریبونل بن سکتی ہے؟۔چیف جسٹس نے کہاکہ آئین کے مطابق الیکشن کمیشن ہی وہ فورم ہے جس نے اس معاملے کا فیصلہ کرناہے، مجھے کنفیوژن ہے کہ پہلے آپ نے کہاتھا کہ الیکشن کمیشن اس معاملے کو دیکھ سکتاہے۔ وکیل بولے، دوسری جماعتوں کے اکاﺅنٹس پر آڈیٹر نے اعتراضات لگائے مگر کمیشن نے کچھ نہ کیا۔ جسٹس عمر عطا نے کہاکہ پہلے غلط کام ہوا تو کیا آپ چاہتے ہیں کہ سلسلہ جاری رہے؟۔ وکیل نے کہاکہ اگرکسی فورم کو کوئی مخصوص اختیار نہیں دیاگیا تو اسے (قانون میں) پڑھا بھی نہیں جاسکتا۔ فائل کردہ اکاﺅنٹس کی تفصیلات کو دیکھا جاسکتا ہے مگر ان پر کارروائی نہیں کرسکتے، سیاسی جماعتوں کے اکاﺅنٹس کے خلاف درخواستیں آتی رہیں تو الیکشن کمیشن عدالت یا ٹریبونل بن جائے گا۔ ( اس موقع پر وکیل نے ایک کتاب کا حوالہ دیا، تینوں ججوں نے قواعد کی وہ کتاب نکالی، پڑھنا شروع کیا تو تھوڑی دیر بعد وکیل نے کہاکہ اس کو چھوڑ دیں۔ چیف جسٹس کتاب بند کرتے ہوئے مسکرائے اوربولے کہ اس قانون میں ایک ایسی بات ہے جو آپ کے حق میں نہیں جاتی)۔
اسی دوران وکیل انور منصور بولے کہ آپ نے کمیشن بنانے کی بھی بات کی تھی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہم نے صرف تجویز دی تھی۔ وکیل نے کہاکہ ہم کمیشن کے سامنے جانے کیلئے تیارہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہم نے الیکشن کمیشن کو ہی اس معاملے پر کمیشن بنانے کی بات کی تھی۔ (اسی دوران تحریک انصاف کے دوسرے وکیل نے انور منصورایڈووکیٹ کے کان میں سرگوشی کی)۔ چیف جسٹس نے دونوں وکیلوں کو بات کرتے دیکھاتو بولے کہ چونکہ یہ سیاسی جماعت کامعاملہ ہے تو آپ نے ہدایات بھی لینا ہوں گی، پھر کہاکہ ہم نے قانون کو بھی دیکھناہے اگر قانون ہی غیرملکی فنڈنگ کامعاملہ الیکشن کمیشن کو دیکھنے کی اجازت دیتاہے تو پھر ہم کمیشن کیسے بنائیں۔
سماعت کے اختتام پر وکیل نعیم بخاری اٹھے اوربولے کہ انہوں نے عمران خان کی جانب سے تحریری جواب جمع کرادیاہے جس میں بیان حلفی بھی شامل ہے۔ چیف جسٹس نے نعیم بخاری کو مخاطب کرکے مسکراتے ہوئے کہاکہ آپ لندن سے خیریت سے واپس آگئے ہیں، جو کچھ آپ کرنے گئے تھے کرلیا، تیمارداری کیلئے گئے تھے کرلی؟۔ نعیم بخاری نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ جی بالکل۔
چیف جسٹس نے کہاکہ چاہتے ہیں کہ مقدمے کوئی وقت ضائع کیے بغیرجتنی جلدی ممکن ہو مکمل کریں مگر کچھ وقت لگے گا کیونکہ بہت اہم دورے پر بیرون ملک جاناہے۔ وکیل اکرم شیخ بولے کہ وہ رمضان کا آخری ہفتہ سعودی عرب میں گزارتے ہیں اس لیے اس سے قبل ہی سن لیاجائے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے