کالم

”تلاشی“ لینے کے جنون میں

جون 2, 2017 5 min

”تلاشی“ لینے کے جنون میں

Reading Time: 5 minutes

ایک دوسرے کی ”تلاشی“ لینے کے جنون میں مبتلا ہوئے ہمارے سیاستدانوں کے پاس نہ اتناوقت ہے نہ جرات کہ وہ ریاستِ پاکستان کے دائمی اداروں میں براجمان افراد کے روبرو چند سوالات اُٹھاکر ہماری تشفی کر سکیں۔ مجھ ایسا دو ٹکے کا رپورٹر لہٰذا کس حیثیت میں کس سے یہ معلوم کرے کہ میرے وطن کے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے۔ ایک بات اگرچہ میں جبلی طورپر مسلسل محسوس کررہا ہوں کہ بدھ کی صبح کابل کے تاریخی اور پوش علاقے میں جو دھماکہ ہوا ہے اس کے نتائج کافی بھیانک ہوسکتے ہیں۔
بظاہر کوڑا اُٹھانے والا ایک ٹرک تھا۔ اس میں لیکن جانے کئی ٹن بارودی مواد چھپایا گیا تھا۔ یہ ٹرک یقیناکابل ہی کے کسی محلے میں ایک ”چلتا پھرتا بم“ بنایا گیا ہوگا۔ افغانستان کے دارالحکومت کے داخلی اور خارجی راستوں پر جدید ترین سکیورٹی آلات کی مدد سے اس شہر میں داخل ہونے والوں پر کڑی نگاہ رکھی جاتی ہے۔ کابل میں داخل ہوجانے کے بعد بھی وزیر اکبر خان سے منسوب سیکٹر میں جسے وہاں کا ”ریڈ زون“ کہا جانا چاہئے، داخلے کے لئے نہ صرف مقامی بلکہ امریکہ اور نیٹو ممالک کے سکیورٹی حکام نے بھی کئی حصار کھڑے کررکھے ہیں۔ افغان صدر کے محل اور امریکی سفارت خانے تک اسی راستے سے پہنچا جاتا ہے اور پاکستان سمیت کئی ممالک کے سفارت کار بھی وزیر اکبر خان سیکٹر ہی میں رہائش پذیر ہیں۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں یا چمن کے راستے بارود سے لدے ایک ٹرک کواور وہ بھی ایسے ٹرک کو جو کابل کی سڑکوں اور محلوں سے کوڑا اٹھاتا ہو،وزیر اکبر خان سے منسوب علاقے میں لے جانا قطعاََ ناممکن ہے۔
دُنیا میں کسی کے پاس لیکن اس بنیادی حقیقت کو تسلیم کرنا تو دور کی بات ہے جانچنے کی فرصت بھی نہیں ہے۔ اس ٹرک کے پھٹنے سے یقیناً اندوہناک ہلاکتیں ہوئی ہیں۔100کے قریب افراد لقمہ اجل بنے اور 350 سے زیادہ زخمی۔ ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی کثیر تعداد متوسط طبقے کے ان افغانوں پر مشتمل ہے جو کئی حوالوں سے بہت خوش نصیب سمجھے جاتے ہیں۔ ان ہلاکتوں کے بعد کابل کے عام شہری کے دل میں غم وغصے کی جو لہر اُٹھی وہ ہرگز بے بنیاد نہیں ہے۔
افغان طالبان بھی،پاکستان کو جن کا ”سرپرست“ ٹھہرایاجاتا ہے، اس دھماکے کے عواقب سے بہت پریشان ہیں۔ان کے ترجمان نے ایک باقاعدہ تحریری بیان کے ذریعے اس کی شدید مذمت کی ہے۔
افغان حکومت اور میڈیا نے لیکن باہم مل کر دہائی مچانا شروع کردی ہے کہ پاکستان کے بہت ہی ”قریب“ بتایا حقانی نیٹ ورک اس دھماکے کا ذمہ دار ہے۔
امریکی صدر نے افغان صدر کو اس دھماکے کی وجہ سے پھیلی قیامت پر اظہارِ ہمدردی کے لئے جو فون کیا اس کی تفصیلات ہمارے سامنے نہیں آئی ہیں۔ ڈاکٹر اشرف غنی نے مگر یہ فون آنے کے بعد ہی اپنی قوم سے خطاب کیا۔ اس کے ذریعے بدھ کے روز ہوئے دھماکے کے ذمہ داروں کی نشاندہی اور انہیں کیفرِ کردار تک پہنچانے کی یقین دہانی کا اظہار ہوا۔ پاکستان کا براہِ راست نام تو نہیں لیا گیا مگر ایک سرکاری بیان جاری ہوا جس کے ذریعے اعلان کیا گیا ہے کہ افغانستان کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے ساتھ اب کوئی میچ کھیلنے کو تیار نہیں ہوگی۔
کرکٹ کی سیاست سے واقف میرے کئی دوستوں کا اگرچہ یہ دعویٰ ہے کہ پاکستان کے ساتھ کرکٹ میچ نہ کھیلنے کا فیصلہ بدھ کی صبح ہوئے دھماکے سے پہلے کرلیا گیا تھا۔ بدھ کی شام ہوئے اعلان سے لیکن مجھے پیغام یہ ملا ہے کہ وزیر اکبر خان سے منسوب علاقے میں ہوئے دھماکے کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈال دیا جائے گا۔ ہمیں اس الزام سے کیسے نبردآزما ہونا ہے؟ اس سوال کا جواب میرے پاس نہیں۔ اگرچہ ایک طویل وقفے کے بعد پاکستان کے وزیر اعظم نے عسکری اور سیاسی قیادت پر مشتمل قومی سلامتی کمیٹی کے ایک اجلاس کی صدارت بدھ کے روز ہی کی ہے۔ یہ اجلاس چار سے زیادہ گھنٹوں تک جاری رہا۔ اس اجلاس میں کیا ہوا اس کی بابت سرکاری طورپر جاری ہوئے کسی اعلامیے میں خفیف اشارے تک بھی نہیں دیئے گئے ہیں۔
پاکستان میں ”ہرخبر“ کا تعاقب کرنے والے کئی ”پھنے خان“ صحافی موجود ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک بھی بدھ کے روز ہوئے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ہوئی ”اندر کی باتوں“ کا کھوج لگانے کی مگر ہمت نہیں کرے گا۔ کسی بے وقوف نے جرا¿ت دکھائی اور اس کے ادارے نے بہت مشقت کے بعدحاصل کی اس کی خبر کو ”مستند“ سمجھتے ہوئے چھاپ بھی دیا تو ”قومی سلامتی خطرے میں پڑجائے گی“۔ ریاست کے تفتیشی اداروں پر مشتمل ایک اور ”مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی“ بنانا ہوگی۔ وہ رپورٹر کے ”ذرائع“ کا پتہ چلانے میں کئی ماہ صرف کرے گی۔ بالآخر”ذریعہ“ تو ہمیں بتایا نہیں جائے گا مگر وزارتِ اطلاعات کے چند ذمہ داروں کو اس ”جرم“ میں فارغ کردیا جائے گا کہ وہ ”قومی سلامتی کے منافی خبر“ کو چھپنے سے رکوا نہ سکے۔
بدھ کا سارا دن تو ویسے بھی ہمارا میڈیا نہال ہاشمی کی ایک وڈیو کلپ چلاتا رہا۔ یہ کلپ کسی ٹیلی وژن نیٹ ورک کے ملازم کیمرہ مین نے ریکارڈ نہیں کی تھی۔اس نے ایسی دھواں دھار کلپ ریکارڈکی ہوتی تو اس کا ادارہ اس کلپ پر Exclusive والی پٹی بہت فخر سےSuper Imposeکرتا۔
کسی بھی رپورٹر یا کیمرہ مین کو کریڈٹ دیئے بغیر بدھ کا سارا دن ہمارے تمام 24/7یہ کلپ چلاتے رہے۔ نہال ہاشمی نے یقینا اس کلپ میں ہمارے ”اداروں“ کے خلاف توہین آمیز الفاظ استعمال کئے تھے۔ موصوف کے خلاف”سخت کارروائی“ والا مطالبہ اس تناظر میں قطعی مناسب تھا۔
نواز کی ”شریف“ حکومت ویسے بھی ان دنوں معافی تلافی کی بھیک مانگ کر اپنی پانچ سالہ آئینی مدت مکمل کرنے کو بے چین ہے۔ ”بادشاہ“ خود کو مات سے بچانے کے لئے اپنے پیادوںہی نہیں اہم ترین مہروں کی قربانی دینے کو بھی ہمہ وقت تیار ہوتے ہیں۔کسی زمانے میں مشاہد اللہ خان کی حکومتی بساط پروہی حیثیت ہوا کرتی تھی جو شطرنج میں ”فیل“ کی ہوتی ہے۔ موصوف نے 2014ءکے دھرنے کے بارے میں بی بی سی سے کوئی بات کی تو انہیں غیر ملکی دورے سے بلواکر وزارت سے فارغ کردیا گیا۔
پرویز رشید اکتوبر1999ءکے بعد گرفتار ہوا تھا۔ تشدد کا نشانہ بنا۔ کپڑے اس کے کئی مواقع پر اس تشدد کی وجہ سے لہولہان بھی ہوئے تھے۔ اپنے حواس کھوبیٹھا تھا۔ امریکہ اور برطانیہ کے جید ماہرینِ نفسیات نے اسے نارمل انسان بنانے کے لئے بڑے جتن کئے۔ 2013ءمیں نواز شریف تیسری بار اس ملک کے وزیر اعظم بنے تو پرویز رشید کو وزارتِ اطلاعات کا منصب عطا ہوا۔ موصوف اس حیثیت میں شطرنج کے گھوڑے کی طرح ”ڈھائی گھر“ آگے بڑھ کر نواز حکومت کے مخالفین کو للکارتے رہے۔ 6 اکتوبر 2016ءکی صبح ڈان میں ایک خبر چھپی تو اسے رکوانہ سکنے کے جرم میں لیکن فارغ کردیئے گئے۔
مشاہد اللہ خان اور پرویز رشید مگر ایک حوالے سے اب بھی خوش نصیب ہیں کہ بدستور سینیٹ کے رکن ہیں اور وہاں حکومتی بنچوں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ نہال ہاشمی کو سینیٹ سے استعفیٰ دینے پر مجبور کردیا گیا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نون نے اسے بنیادی رکنیت سے بھی محروم کردیا ہے۔ جمعرات کی صبح نہال سپریم کورٹ کے روبروپیش ہوئے۔کچھ اور سزائیں گویا ابھی باقی ہیں۔ نواز شریف صاحب مگر اپنی معیادِ حکومت کو مکمل کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ربّ سے فریاد ہے کہ انہیں اپنے اس مقصد میں کامیاب کرے۔
بدھ کے روز کابل میں ہوئے دھماکے کے بعد میرے وسوسوں بھرے دل میں سوالات کی مگر جو کھد بھد ہو رہی ہے اسے اپنی ریاست کے کس پردھان کے روبرو رکھ کر اپنی تسلی کا بندوبست کروں۔ اپنے سیاست دانوں سے مجھے کوئی حوصلہ مل ہی نہیں سکتا۔ وہ تو ایک دوسرے کی ”تلاشی“ لینے کے جنون میں مبتلا ہیں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے