پاکستان

پاناما تحقیقاتی ٹیم عدالت میں

جون 7, 2017 2 min

پاناما تحقیقاتی ٹیم عدالت میں

Reading Time: 2 minutes

سپریم کورٹ نے پانامہ فیصلے کے تحت قائم مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی تفتیش کے دوران حسین نواز کی تصویر سوشل میڈیا پر آنے کی درخواست پر جے آئی ٹی سے جواب طلب کیاہے، جسٹس اعجازافضل نے کہاہے کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو تفتیش کیلئے ایک دن بھی زیادہ دینے کے متحمل نہیں ہوسکتے،عدالت نے جے آئی ٹی کو تحفظات تحریری طورپر پیش کرنے کی بھی ہدایت کردی۔
عدالت عظمی کے تین رکنی خصوصی بنچ نے جسٹس اعجازافضل کی سربراہی میں جے آئی ٹی پیش رفت رپورٹ کا جائزہ لیا، حسین نوازکے وکیل خواجہ حارث نے عدالت کو بتایاکہ دوران تفتیش تصویر لیک ہونے پر درخواست دائرکی ہے، ایسا جان بوجھ کر کیا گیا تاکہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے والوں پر دباﺅ بڑھایا جا سکے، اس معاملے کی تحقیقات ہونا ضروری ہیں تاکہ ذمہ داروں کو سامنے لایا جاسکے، وکیل نے کہا کہ تفتیش کی ویڈیو ریکارڈنگ کی قانون میں اجازت نہیں اس لیے یہ نہیں ہونی چاہیے۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ ہم دیکھیں گے کہ کیا اس معاملے کی تحقیق کی ضرورت ہے ۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ ویڈیو لیک نہیں ہوئی، تصویر اسکرین شاٹ ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ تصویر پر وقت اور تاریخ درج ہے اس کو دیکھیں گے۔ عدالت نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ کو ہدایت کی کہ تصویر کے معاملے پر پیر تک اپنا موقف پیش کریں۔ عدالت نے جے آئی ٹی کی جانب سے تفتیش میں اب تک کی پیش رفت کی دو جلدوں پر مشتمل رپورٹ دیکھنے کے بعد تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ کو کہاکہ جتنے بھی خدشات اور مشکل ہیں ان کو تفصیل کے ساتھ الگ درخواست میں لکھ کر پیش کیاجائے، عدالت نے ہدایت کی وہ تمام مسائل اور رکاوٹیں جن کا جے آئی ٹی کو سامناہے پیش کی جائیں، ا س کے بعد اٹارنی جنرل کو بلاکر پوچھیں گے۔ جسٹس اعجازافضل نے تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ کو مخاطب کرکے کہاکہ ایک بار پھر کہتے ہیں کہ وقت بہت محدود ہے، اسی کے اندر رہتے ہوئے کام کرناہے، امید ہے کہ تحقیقاتی ٹیم مقررہ وقت کے اندر مطلوبہ کام مکمل کرے گی، ٹیم کے پاس کام کرنے کیلئے عدالتی فیصلے کے مطابق ساٹھ دن ہیں، اس سے ایک دن بھی زیادہ دینے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے