پاکستان

بحریہ ٹاﺅن کراچی کیس

جون 7, 2017 2 min

بحریہ ٹاﺅن کراچی کیس

Reading Time: 2 minutes

ُسپریم کورٹ میں طویل وقفے کے بعدکارروائی کیلئے مقرر ہونے والے بحریہ ٹاﺅن کراچی کے مقدمے کی سماعت گزشتہ دوماہ سے بغیر کسی پیش رفت کے ملتوی ہورہی ہے۔ جسٹس اعجازافضل کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کے سامنے سندھ حکومت کی جانب سے ہزاروں ایکڑ سرکاری زمین بحریہ ٹاﺅن کو دیے جانے کامقدمہ زیرسماعت ہے۔ گزشتہ سماعت پر بحریہ ٹاﺅن کے وکیل اعتزازاحسن نے کیس کو اس وجہ سے ملتوی کرادیاتھاکہ انہوں نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کیلئے جارہے ہیں۔ آج مقدمے کی سماعت کے دوران سندھ حکومت کی جانب سے مختلف مقدمات میں پیش ہوکر اکیس کروڑ روپے فیس لینے والے وکیل فاروق نائیک نے عدالت کو تین ضخیم جلدوں پر مشتمل کتابیں پیش کیں تو ججوں نے کہاکہ ان کو پڑھنے کیلئے ہمیں ایک سال چاہیے ہوگا اس لیے ان کاخلاصہ تحریری طورپر پیش کیاجائے۔ ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے پیش ہونے والے فاروق نائیک نے کہاکہ عدالت اس مقدمے کو عید کے بعد تک ملتوی کردے تو ججوں نے آپس میں صلاح مشورہ شروع کردیا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ بنیادی باتیں جاننے کی دستاویزات کاجائزہ لینا ضروری ہے، عدالت کو بتایاجائے کہ کہاں کہاں اورکتنی زمین ملیرڈویلپمنٹ اتھارٹی نے بحریہ ٹاﺅن کو ہموار کرنے کیلئے دی اور کتنی زمین کاکہاں کہاں تبادلہ کیاگیا، اس کو جانے بغیر آگے بڑھنا مشکل ہوگا۔ عدالت نے مقدمہ آئندہ ہفتے تک ملتوی کرنے کی بات کی تو بحریہ ٹاﺅن کے وکیل اعتزاز احسن اپنے دوست وکیل فاروق نائیک کی حمایت میں کھڑے ہوکر بولے کہ یہ بہت مصروف وکیل ہیں ان کو دیگر مقدمات بھی لڑناہوتے ہیں اس لیے عید تک مہلت دیدیں، اس موقع پر جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ اعتزاز صاحب، فاروق نائیک آپ جیسے بڑے وکیل کے سائے میں کام کرتے ہیں، جس پر اعتزازاحسن طنز یا مزاح کو سمجھے بغیر بولے کہ نہیں، میں ان کے سائے میں کام کرتاہوں۔ عدالت نے مقدمہ ملتوی کرنے کی تاریخ دی تو اعتزازاحسن پھربولے کہ انیس جون سے چھٹیوں پر جارہاہوں اس لیے اس ہفتے کے دوران نہ سناجائے۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ چودہ جون کو کچھ وقت کیلئے سن لیں گے تاکہ مقدمہ کچھ تو آگے بڑھے، جس پر اعتزازاحسن بولے کہ پندرہ کو رکھ لیں۔ اس دوران سپریم کورٹ بار کے صدر رشید رضوی محکمہ مال سندھ اورسابق صدر بار علی ظفر بحریہ ٹاﺅن کی جانب سے پیش ہوئے۔ عدالت میں نامی گرامی وکیلوں کو مقدمہ ملتوی کرانے اور مرضی کی تاریخ لینے کی دلائل دیتے دیکھ کر دیگر مقدمات میں آنے والے سائل حیران ہوئے جبکہ تینوں جج زیرلب مسکراتے دیکھے گئے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے