کالم

سیاسی عدالت

جولائی 12, 2017 4 min

سیاسی عدالت

Reading Time: 4 minutes

احساس / اے وحید مراد
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم یعنی جے آئی ٹی نے اپنی تفتیش مکمل کرلی۔ دس جلدوں اور ہزاروں صفحات پر مشتمل رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی جاچکی ۔ نوازشریف، ان کے بیٹوں، بیٹیوں، بھائی، باپ، ماں اور بیوی کو بھی معلوم ذرائع آمدن سے زیادہ اثاثوں کا مالک قرار دیا گیا ہے۔ پوچھا جارہا ہے کہ اب آگے کیا ہوگا؟۔
یہ سوال شاید اب قانونی سے زیادہ سیاسی ہو چکا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت اور اس کے جج بھی اب قانون کے مطابق فیصلے کرنے کی بجائے سیاست کر رہے ہیں۔ اگر کسی کو یہ الزام نظر آتا ہے، کسی کو اس بات میں تعصب دکھائی دیتا ہے، یا کوئی سمجھتا ہے کہ اس طرح ہم توہین عدالت کے مرتکب ہو رہے ہیں تو ان کی آسانی کیلئے عرض ہے، عمران خان کی نااہلی کیلئے دائر حنیف عباسی کی درخواست پر چیف جسٹس ثاقب نثار کے ریمارکس پڑھ لیں۔ سپریم کورٹ کی جانب سے عمران خان کی کرکٹ سے کمائی گئی دولت کی تصدیق شدہ دستاویزات طلب کرنے کے حکم پر غور کرلے۔ ملک کی اعلی ترین عدالت کے منصف اعظم کی جانب سے عمران خان کے مقدمے میں ریمارکس اور ذرائع آمدن کی تفصیل جمع کرانے کی ہدایت جے آئی ٹی کی رپورٹ آنے کے ایک دن بعد کی گئی۔
آئین اور قانون کے مطابق مقدمے سننے والی عدالتیں اور جج دونوں طرف اسکور برابر کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ سب کچھ سننے اور کھلے دماغ کے ساتھ قانون کے مطابق تجزیہ کرکے فیصلہ دینے کیلئے بیٹھنے والے منصف کسی اخبار کے ایک عام سے رپورٹر سے نہیں الجھتے۔ وہ اس بات پر توہین عدالت کی تلوار لہراتے ہوئے اپنے منصب سے کسی عامی کی سطح پر نہیں اترتے کہ ’ تم کو مجھ سے دوسری بار لینڈ لائن پر فون کرنے کی جرات کیسے ہوئی‘۔ منصف کی کرسی کو رونق بخشنا تو شاید آسان ہو مگر اس منصب کی توقیر یہ نہیں کہ ملک کے منتظم اعلی یعنی وزیراعظم کے خلاف تو کچھ بھی کہنے اور فیصلہ دینے کیلئے تیار ہو لیکن تحقیقاتی ٹیم میں شامل کسی معمولی متعصب شخص کا نام بھی جاننے کی ہمت نہ رکھے کیونکہ اس کے ادارے کے ساتھ ’حساس‘ کا لاحقہ لگا ہوا ہے۔ سچ جاننے کیلئے کسی بھی حد تک جانا ضروری ہے، اور ایسے ریمارکس یا ڈائیلاگ بھی خوش کن اور پاکستان جیسی سرزمین کے باسیوں کے مستقبل کیلئے نہایت امید افزا ہیں لیکن جب تین منصف اسی ہی مقدمے میں ’تصویر لیک‘ کرنے والے کا نام سامنے لانے کی بجائے تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ کو کہیں کہ ’اٹارنی جنرل کو بتا دیں‘۔ تو مایوسی ہوتی ہے ۔
سوال تو پھر پوچھا جائے گا، تبصرے تو پھر ہوں گے، انگلیاں تو پھر اٹھیں گی۔ مائی لارڈ، جے آئی ٹی آپ نے بنائی، اس کے ارکان آپ نے نامزد کیے، اس کو کھلے فنڈز آپ کے حکم پر فراہم کیے گئے، اس کو بااختیار آپ نے بنایا مگر جب انہوں نے ایک غلط کام کیا تو پھر اس کے ذمہ دار کا تعین اور اس کو سزا دینا بھی آپ کا ہی کام ٹھہرے گا۔ اس کیلئے آپ کو ہمت دکھانا تھی، مگر آپ نے مایوس کیا۔ تین منصفین نے یہ ’زحمت‘ ہی نہ کی کہ اس شخص کا نام جاننے کیلئے کہتے۔ اور جب حکومت نے جواب دیا کہ یہ عدالت کا کام ہے تو تحریری حکم میں نہایت ’چالاکی‘ کے ساتھ اس کو صرف اس حد تک لکھا گیا کہ ’حکومت نے کہا ہے کہ اس کو تصویر لیک کرنے والے کا نام سامنے لانے پر کوئی اعتراض نہیں‘۔ اس لئے جے آئی ٹی کے سربراہ کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ اٹارنی جنرل کو ’نام‘ بتادیں اور اس کے بعد ’حکومت اگرچاہے تو اس شخص کے خلاف کارروائی کرے‘۔ مائی لارڈ، حکومت ہی ’حساس‘ لوگوں کا نام کیوں سامنے لائے؟۔ آپ کس مرض کی دوا ہیں؟۔ عدالتیں اور جج کس لیے ہوتے ہیں؟۔ اس لیے نا، کہ جب حکومت اور ’حساس‘ لوگوں میں کسی معاملے پر کوئی تنازع پیدا ہو تو فیصلہ کر سکیں۔ چلیں اس بات کو یہیں رہنے دیتے ہیں ، مگر پھر اس ڈائیلاگ کا کیا کیا جائے جب اسی سانس میں آپ نے کہا کہ ’ایس ای سی پی کے چیئرمین کے خلاف ریکارڈ ٹمپرنگ پر آج ہی مقدمہ درج کیا جائے‘۔ پھر جب یہ کہاجاتا ہےکہ ’ایس ای سی پی کے چیئرمین نے کس کے کہنے پر ٹمپرنگ کی اوران کا باس کون ہے‘۔ تو ہم جیسوں کے دماغ میں سوال کلبلاتا ہے کہ ’کیا اس کے باس کا بھی پتہ چلایا جائے گا جس نے تصویر لیک کی‘؟۔
حضور کا اقبال بلند ہو، آپ کی کبھی توہین نہ ہو۔ مگر سوال یہ بھی ہے کہ عدالت میں بنچ کا سربراہ حکم لکھواتا ہے اور دوسرے جج صرف مشورہ دیتے ہیں لیکن اس بار سب کچھ الٹ ہو رہا ہے۔ درمیان میں بیٹھے منصف سے زیادہ ان کے دائیں بائیں بیٹھے منصفین ہدایات جاری کر رہے ہوتے ہیں۔ عدالت میں جسٹس اعجازالاحسن نے یکم اپریل دوہزار سترہ کے بعد سے جاری کیے گئے سرکاری اشتہارات کی تفصیل فراہم کرنے کا زبانی حکم دیا۔ عدالتی کارروائی کے اختتام پر حکم نامہ بنچ کا سربراہ لکھواتا ہے۔ اب تو یہ عموما دیکھنے میں آتا ہے کہ کھلی عدالت میں جاری کیا گیا حکم اور بعد میں سامنے آنے والے تحریری حکم نامے میں دو سے تین نکات کا فرق ہوتا ہے۔ گزشتہ دس برس میں عدالت کو اس طرح کرتے نہیں دیکھا۔ اب اگر رپورٹر یہ بات نہ لکھے تو کیا کرے؟۔ بعد میں آپ کہتے ہیں کہ غلط رپورٹنگ ہوئی۔ یقین نہیں تو عدالت کی آڈیو ریکارڈنگ نکالیے اور اپنے خلاف یا پھر ہم جیسے رپورٹروں کے خلاف کارروائی کیجیے۔
اب بنیادی سوال کی طرف آتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے جج سیاست کھیلتے ہوئے اب اس مقام پر ہیں کہ واپسی کا سفر قانونی طور پر ممکن نہیں۔ جے آئی ٹی عدالت عظمی نے تشکیل دی تھی۔ تین ججوں نے اس کی رپورٹ کی بنیاد پر وزیراعظم کی اہلیت کا تعین کرنے یا ان کے خلاف ریفرنس بنانے کا فیصلہ دیا تھا۔ اس فیصلے پر اب عمل کیے بغیر آئینی و قانونی فرار کا کوئی راستہ میسر نہیں۔ رپورٹ کا جائزہ لے کر عدالت وزیراعظم کو اپنی صفائی پیش کرنے کیلئے طلب بھی کرسکتی ہے۔ ان کی براہ راست نااہلی کا فیصلہ بھی دے سکتی ہے۔ اور آخری راستہ یہ ہے کہ معلوم ذرائع آمدن سے زیادہ اثاثے بنانے پر قومی احتساب بیورو کو ریفرنس دائر کرکے وزیراعظم اور ان کے بچوں کا ایک مکمل ٹرائل کرنے کا حکم بھی دے سکتی ہے۔ وزیراعظم کی قانونی ٹیم کے پاس سب سے مضبوط دلیل صرف یہی ایک ہوگی کہ جب حسین نواز کی جانب سے وکیل خواجہ حارث نے ایک ماہ قبل جے آئی ٹی کے دو ارکان پر تعصب کا الزام لگایا تھا تو سپریم کورٹ کے ان تین ججوں نے کہا تھا کہ رپورٹ آنے کے بعد ہی تعصب کے معاملے کو دیکھا جاسکے گا، تحقیقات کے مرحلے میں کسی تفتیش کار کو متعصب قرار نہیں دیا جا سکتا، اس کی رپوٹ ہی اس کے تعصب کی نشاندہی کرسکتی ہے۔ بظاہر سیاسی عدالت کو بھی کسی کے خلاف تعصب سے بھرا فیصلہ دینے کیلئے آئین و قانون کا سہارا درکار ہوتا ہے۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے