کالم

عمران خان کی رسیدیں

جولائی 13, 2017 5 min

عمران خان کی رسیدیں

Reading Time: 5 minutes

سپریم کورٹ سے اے وحید مراد
عمران خان کی نااہلی کیلئے دائر حنیف عباسی کی درخواست پر سماعت کا آغاز ہوا تو وکیل اکرم شیخ، نعیم بخاری اور ججوں نے پہلا آدھا گھنٹہ اس بات پر بحث میں ضائع کر دیا کہ عدالت کا وقت ضائع ہونے سے کیسے بچایا جائے اور وکلاء اپنی حاضری، بروقت دستاویزات کی فراہمی اور متعلقہ دلائل کو کیسے ممکن بنائیں۔ عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے کہاکہ انہوں نے تحریک انصاف کے وکیل انور منصور سے فون پر بات کی ہے، وہ امریکا میں زیرعلاج ہیں، ستائیں یا اٹھائیس جولائی کو ہی سپریم کورٹ میں پیش ہو کر دلائل دے سکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ تحریری جواب جمع کرانے کے عدالتی حکم پر عمل ہوا یا نہیں؟۔ اس پر انور منصور کی معاونت کرنے والے وکیل فیصل چودھری نے عدالت کو بتایا کہ تحریک انصاف کی فارن فنڈنگ کا سات سال کا ریکارڈ جمع کرانا ہے اور اس کیلئے وقت درکار ہوگا، ہمیں پہلے دن ہی درخواست کر دینا چاہیے تھی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ابتدا میں اس مقدمے کی سماعت زیادہ بہتر طریقے سے تسلسل کے ساتھ ہو رہی تھی اور کارروائی آگے بڑھ رہی تھی۔ حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے کہاکہ سپریم کورٹ نے 9مئی کو حکم جاری کیا تھا لیکن آج تک متعلقہ دستاویزات جمع نہیں کرائی گئیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ انور منصور کی صحت کا مسئلہ ہے، اس لیے کچھ نہیں کیا جاسکتا، ججوں کی بھی چھٹیاں ہیں انہوں نے بھی جانا ہے، جج دس ہفتوں کی بجائے تین ہفتے کی چھٹیاں کر رہے ہیں۔ اکرم شیخ نے کہاکہ اگر وکیل انور منصور جلدی واپس آجائیں تو مقدمے کی سماعت مکمل ہوسکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ پھر بھی یہ مقدمہ اتنی جلدی نہیں نمٹ سکتا کیونکہ جہانگیر ترین کے خلاف درخواست بھی ساتھ ہی منسلک ہے اس کو بھی سن کر ہی کیس مکمل ہوگا۔ اکرم شیخ نے کہاکہ وہ درخواست اتنی اہم نہیں جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ کیا آپ وہ درخواست واپس لے رہے ہیں؟۔ اکرم شیخ نے کہاکہ ایسا نہیں ہے مگر یہ کیس زیادہ اہم ہے اور جلدی نمٹنا چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ مقدمے میں اہم سوال درخواست گزار کے وکیل نے نہیں بلکہ عدالت نے اٹھائے ہیں، فلیٹ کے بینیفیشل اونر کی تصدیق کا بھی ہم نے پوچھا ہے، شفافیت کیلئے ہم اپنی پوری تسلی کرنا چاہتے ہیں، ہم نے کہاکہ صرف وہ ثبوت دیدیں کہ فلیٹ کیسے خریدا، گہرائی میں جاکر جاننا ہے اور جس کمائی سے خریدا اس کی تصدیق بھی ضروری ہے۔ وکیل نعیم بخاری نے کہاکہ کیس لندن فلیٹ کا ہے، عمران خان اس کی ملکیت تسلیم کرتے ہیں۔ وکیل اکرم شیخ نے کہاکہ یہ فراڈ کامقدمہ ہے اور فراڈ میں سب کچھ آتا ہے، صادق و امین کی تشریح بھی دیکھنا ہوگی، میں نے اس پر کئی لغات کا مطالعہ کیا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ ہم نے بھی صادق و امین کی تشریح دیکھی ہے۔ ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ کیا فلیٹ خریداری کیلئے رقم عمران خان نے ہی ادا کی۔ اکرم شیخ نے کہاکہ عمران خان کے وکلاء وقفے وقفے سے دستاویزات جمع کراتے ہیں، ایسے ہوتا رہا تو ان کا جواب کیسے اور کب دوں گا؟۔ چیف جسٹس نے عمران خان کے وکیل کو مخاطب کرکے کہاکہ بخاری صاحب، تمام دستاویزات کب دیں گے؟۔ ویسے آپ کے پاس ہے کیا، آپ نے شاید خود بھی نہیں پڑھا۔ نعیم بخاری نے کہاکہ درخواست گزار کے وکیل عمران خان کی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھانے پر سوال اٹھا رہے ہیں، اگر ایسا کرنا بددیانتی میں آتا ہے تو پھر وہ تمام لوگ بددیانت ہوں گے جنہوں نے ٹیکس استثنا کی اسکیم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے اثاثے ظاہر کیے۔
جسٹس عمر عطا نے کہاکہ آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کب، کیسے لاگو ہوگا اور اس کو لگانے کا معیارکیا ہے اس پر بھی معاونت درکار ہوگی۔چیف جسٹس نے کہاکہ درخواست گزار کے وکیل اکرم شیخ اپنا سوال درست طریقے سے نہیں اٹھا رہے، اس لیے عدالت اپنے طور پر معاملے کی تحقیق کیلئے سوال پوچھ رہی ہے، جاننا یہ ہے کہ عمران خان نے 1983 سے سنہ دوہزار تک آف شور کمپنی اور فلیٹ ظاہر نہیں کیا تو کیا اس پر قانون لاگو ہوتا ہے؟۔ اور کیا ایسا کرنا دیانتداری کے خلاف ہے؟۔ جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ اگر فلیٹ عمران خان کا تھا تو خریداری کی رسید دکھا دیں۔ وکیل نعیم بخاری نے کہاکہ فلیٹ ایک لاکھ سترہ ہزار پاﺅنڈز میں خریدا، دستاویزات عدالت کو فراہم کی جائیں گی لیکن درخواست میں عدالت سے ایسی کوئی استدعا نہیں کی گئی، جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت کے سامنے ایک عوامی عہدہ رکھنے والے شخص کی دیانتداری کا سوال آیا ہے۔ نعیم بخاری نے کہاکہ عدالت کے سامنے درخواست میں انکم ٹیکس اتھارٹی کو عمران خان کے گوشواروں کی انکوائری کیلئے کہا گیا ہے، اس کے باوجود عدالت چاہتی ہے تو دستاویزات دے دوں گا۔ عمران خان کو کاﺅنٹی کرکٹ کھیلنے پر ایک سال کا اضافی بونس ایک لاکھ نوے ہزار پاﺅنڈ دیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ معاملہ بہت آسان ہے، ایک سوال یہ ہے کہ غیرملکی کمائی کا کوئی ثبوت ہے؟۔ دوسرا ثبوت اس چیز کا درکارہے کہ فلیٹ بیچنے والے کو عمران خان نے ایک لاکھ سترہ ہزار پاﺅنڈ ادا کیے۔ وکیل نعیم بخاری نے کچھ کہنے کی کوشش کی تو چیف جسٹس نے کہاکہ دستاویزات ٹکڑوں میں نہ فراہم کی جائیں اور مکمل ریکارڈ جمع کرانے کیلئے جتنا وقت درکار ہے بتا دیں، ہم شاید باربار دستاویزات جمع کرانے کی اجازت اب نہ دیں۔حنیف عباسی کے وکیل نے کہاکہ عدالت اس بارے میں حکم جاری کرے تو چیف جسٹس نے کہاکہ ایسا حکم دینے سے مدعا علیہ کا استحقاق مجروح ہوگا اور مستقبل میں قانونی مثال بن جائے گی اس لیے بہتر ہے کہ ان کو دستاویزات خود سے جمع کرانے کا موقع دیاجائے۔
اس کے بعد وکیل اکرم شیخ نے عدالت کی معاونت کیلئے اپنی جانب سے ٹیکس قوانین کے ماہر کو پیش کیا۔ ماہر اشفاق تولہ نے ٹیکس قوانین پر معاونت سے زیادہ بار بار عمران خان کے اثاثوں کے بارے میں اپنی رائے دے کر ٹیکس قانون کے اطلاق کی بات کی تو چیف جسٹس اور دیگر جج ان کو کہتے رہے کہ آپ صرف قوانین پر معاونت تک خود کو محدود رکھیں۔ اشفاق تولہ مگر خود کو محدود نہ رکھ پائے اور آخرمیں کہاکہ اگر کسی نے تحفہ لیا ہے اور واپس کیا ہے تو اس کی بھی مارکیٹ ویلیو کا جائزہ لیاجائے گا، جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ یہ کس جانب اشارہ ہے، کیا کہنے کی کوشش کر رہے ہیں؟۔ ٹیکس ماہر بولے کہ بنی گالہ کی جائیداد کے بارے میں بات کر رہا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کا بنی گالہ سے کیا تعلق؟۔ ہم آپ سے ٹیکس قوانین پر معاونت کی توقع کر رہے ہیں، کیوں اپنی ساکھ کو متاثر کرنے پر تلے ہیں، آپ تشریف رکھیں۔ بنی گالہ جائیداد اور کیس پر دلائل اکرم شیخ ہی دے سکتے ہیں۔ اکرم شیخ نے کہاکہ عمران خان نے اپنی کمائی پر ٹیکس دیا ہی نہیں۔ چیف جسٹس بولے جن چیزوں کی تصدیق ابھی ہونا ہے ا ن پر کسی کو نااہل کیسے کیا جاسکتا ہے؟۔ چیف جسٹس نے پوچھاکہ اگر کسی نے ٹیکس استثنا اسکیم سے فائدہ اٹھایا تو پھر اس کے خلاف ناجائز اثاثوں پر مقدمہ کس قانون کے تحت چلایا جا سکتا ہے؟۔ اکرم شیخ بولے کہ نیب قانون لاگو ہوگا۔ جسٹس عمر عطا نے کہاکہ مقدمہ تب چلے گا جب کیس درج ہوگا، انہوں نے کہاکہ آپ کا کیس انیس سو ستانوے میں عمران خان کی جانب سے الیکشن کاغذات میں اثاثے ظاہر نہ کرنے کا بن سکتا تھا مگر اس وقت ایسا قانون ہی موجود نہیں تھا، اثاثے ظاہر کرنے کاقانون دوہزار دو کے انتخابات سے قبل لایا گیا۔ اکرم شیخ سماعت کے اختتام پر بولے کہ عمران خان نے اپنا فلیٹ کرائے پر چڑھایا تھا اور اس کا کرایہ نیازی سروسز کمپنی وصول کرتی تھی، فلیٹ بیچنے کے برسوں بعد بھی یہ کمپنی ختم نہیں کی گئی۔ عدالتی وقت ختم ہونے پر مقدمے کی سماعت پچیس جولائی تک ملتوی کردی گئی۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے