کالم

نااہلی یا احتساب ریفرنس

جولائی 18, 2017 11 min

نااہلی یا احتساب ریفرنس

Reading Time: 11 minutes

سپریم کورٹ سے اے وحید مراد
عدالتی کارروائی کے آغاز پر وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے بیس اپریل کو دیے گئے پانامہ پیپرز فیصلے کے متعلقہ پیراگراف پڑھے، اور عدالت کو بتایا کہ جے آئی ٹی کو تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ نے اس کی حدود بتائی تھیں، فیصلے میں کل تیرہ سوال اٹھائے گئے تھے جن کے جواب تلاش کرنے کیلئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو مینڈیٹ دیا گیا تھا۔ خواجہ حارث نے کہاکہ عدالت نے جے آئی ٹی کو شواہد اور ریکارڈ کا جائزہ لینے کی ہدایت کی تھی، یہ نہیں کہا تھاکہ بند کیے گئے مقدمات جن پر ہائیکورٹ فیصلہ دے چکی ہے ان کی بھی چھان بین کرے، جے آئی ٹی نے خود سے کچھ سوال اخذ کرکے بھی تحقیقات کیں اور انیس سو بانوے ترانوے میں درج کی گئی ایف آئی آرز کو بھی رپورٹ میں شامل کیا۔ جسٹس اعجازافضل نے کہا کہ آپ کے کہنے کا مطلب ہے کہ تفتیشی ٹیم کو مدعا علیہان کے تمام اثاثوں کی چھان بین نہیں کرنا چاہیے تھی؟۔ وکیل بولے میرا کہنا ہے کہ جو مقدمات ختم ہوگئے ان کی ازسرنو پڑتال نہیں ہو سکتی۔ حدیبیہ پیپرز ملزکیس اور پچیس برس پرانی ایف آئی آرز نہیں کھولی جاسکتیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے پوچھا کہ بند مقدمات بھی اگر لندن فلیٹوں کی ملکیت سے جڑے ہوں تو پھر کیاکیا جائے۔ اسحاق ڈار کابیان اور لندن کی التوفیق کمپنی سے قرض سمیت تمام معاملات کو دیکھے بغیر تفتیش مکمل ہی نہیں ہو سکتی۔ اصل چیز منی ٹریل کا سراغ لگانا تھا۔ وکیل نے کہاکہ جائزہ لینا الگ اور ازسرنو تفتیش کرنا الگ معاملہ ہے، تفتیش کار بند مقدمات کھولنے کی سفارش نہیں کرسکتے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ جے آئی ٹی سفارشات پیش کرسکتی تھی اوراس نے یہی لکھا ہے، اب ان میں سے عدالت نے اپنے دیے گئے سوالوں کے جواب دیکھنا ہیں۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ آئین کے آرٹیکل تیرہ اور فوجداری قانون کی شقوں کے تحت تفتیش پر فیصلے ٹرائل عدالت نے کرنا ہوتے ہیں، سپریم کورٹ صرف اس وقت فیصلے کرتی ہے جب تسلیم شدہ حقائق اور دستاویزات موجود ہوں، اس مرحلے پر یہ نہیں کہہ سکتے کہ جے آئی ٹی رپورٹ کا کون سا حصہ درست اورکس حصے میں اپنے اختیار سے تجاوز کیاگیا ہے۔ وکیل خواجہ حارث نے کہاکہ میرا مقدمہ یہ ہے کہ ٹرائل کورٹ سے پہلے یہ عدالت تفتیشی کے کام کے معیار کو دیکھ لے، یہ تفتیش کاروں کی حدود میں ہی نہ تھا کہ ازسر نو مقدمات کھولنے کیلئے کہتے۔ جسٹس عظمت اور جسٹس اعجاز بولے کہ آپ کا یہ نکتہ لکھ لیا ہے اب آگے بڑھیں۔ وکیل خواجہ حارث نے کہاکہ عدالت کو دیکھنا ہوگا جے آئی ٹی نے اپنے اختیارسے تجاوز کیا، جے آئی ٹی نے چیئرمین نیب کو مقدمات کے ریکارڈ سمیت بلایا جس کا سپریم کورٹ نے اسے اختیار نہیں دیا تھا۔ جسٹس عظمت سعید بولے کہ محتاط ہو کر الفاظ استعمال کر رہے ہیں کہ مقدمے پر اثر نہ پڑے، نیب کے پاس سترہ سال سے کیس موجود تھے کسی کو پروا نہیں، اس پر کیا کہوں، کیا چیئرمین نیب کو معلوم نہیں تھاکہ پانامہ پیپرز میں کیا سامنے آیا ہے؟۔ وکیل خواجہ حارث نے کہاکہ نیب کو معاملات دیکھنا چاہئیں تھے، لیکن ہم نے پانامہ پیپرز کے عدالتی فیصلے اور قانون کے دائرے میں رہنا ہے، سپریم کورٹ چاہے تو پرانے مقدمات دوبارہ کھول سکتی ہے مگر جے آئی ٹی کو یہ اختیار نہیں تھاکہ ایسے نتائج اخذ کرتی۔ جسٹس اعجازالاحسن بولے کہ اسی لیے کہہ رہے ہیں کہ تمام معاملات آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ جسٹس عظمت نے کہاکہ ہم پر رپورٹ میں مرتب کردہ سفارشات ماننا لازم تو نہیں، آپ بتائیں کس پر اعتراض ہے۔ وکیل نے کہاکہ عدالت میں یہی بتانے کیلئے کھڑا ہوں۔ جسٹس اعجاز بولے کہ یہ تمام نکات آچکے ہیں اب آگے بڑھیں۔ خواجہ حارث نے کہاکہ سپریم کورٹ پانامہ پیپرز فیصلے میں جو کچھ کہہ چکی ہے اب اس سے آگے نہیں بڑھ سکتی۔ جسٹس عظمت بولے کہ آپ کہتے ہیں سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیدیا اس پر نظر ثانی نہیں کرسکتی۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ آپ کا یہ نکتہ بھی لکھ لیاہے کہ حدیبیہ پیپرز مل کیس کو دیکھنا جے آئی ٹی کے دائرہ اختیار میں نہیں تھا لیکن جے آئی ٹی آمدن اور اثاثوں میں فرق تلاش کرنے کیلئے ہی بنائی تھی، اس نے اپنی رپورٹ میں یہ بتا دیا ہے۔ وکیل خواجہ حارث نے کہاکہ رپورٹ میں یہ بات سامنے آنے کے باوجود عدالت کو ہمارا موقف سننا ہوگا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ جب ہر چیز دستیاب ہے تو پیش کیوں نہیں کی جارہی؟ ۔ اسی چیز کو دیکھنے کیلئے بیٹھے ہیں۔ وکیل نے کہاکہ تفتیش کوئی خفیہ کام نہیں ہوتا، ہمارے خلاف لائی گئی کسی ایک دستاویز پر بھی ہم سے سوال نہیں کیے گئے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ عدالت میں کسی ایک دستاویز پر بھی اعتراض نہیں کیا گیا، وکیل نے کہاکہ ہم نے عدالت میں ہر ایک دستاویز پر اعتراض کیا۔
جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ رپورٹ نہیں بلکہ جے آئی ٹی کی جانب سے اکھٹے کیے گئے مواد کو دیکھا جائے گا، عدالت تفتیشی کے لائے گئے مواد کو پرکھتی ہے، رپورٹ پر دلائل دے کر وقت ضائع نہ کیاجائے، دستاویزات کے بارے میں بات کی جائے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ حسین نواز کو چھ مرتبہ بلایا گیا، آپ کہہ رہے ہیں کہ پوچھا نہیں گیا، آپ وزیراعظم کے وکیل ہیں جنہوں نے جے آئی ٹی کے سامنے کہا کہ ان کو کچھ معلوم نہیں، وزیراعظم نے تقاریر میں کہا تھا کہ ریکارڈ موجود ہے مگر جے آئی ٹی کو کہاکہ یاد نہیں، ہو سکتا ہے اسپیکر کو دیا ہو، ایسی صورتحال میں تفتیش کار کیا کرتے؟۔وکیل نے کہاکہ تفتیشی ٹیم اپنے پاس موجود دستاویزات وزیراعظم کو دکھاتی جن کو رپورٹ میں شواہد یا ثبوت کہا گیا ہے، جے آئی ٹی نے وزیراعظم سے کسی دستاویز پر کوئی سوال نہیں کیا جس پر وہ جواب دیتے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ وہ کہتے ہیں مجھے معلوم نہیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ وزیراعظم سے فلیٹوں کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ معلوم نہیں، ممکن ہے حسن نواز مالک ہو۔ خواجہ حارث بولے کیا اس سے وزیراعظم پر کوئی جرم ثابت ہوتا ہے؟۔ جسٹس اعجازالاحسن بولے کہ تفتیشی ٹیم کے سامنے شریف خاندان کی اپروچ یہ تھی کہ کچھ نہ بتایاجائے، وزیراعظم نے کہاکہ وہ محمد حسین کو نہیں جانتے حالانکہ وہ ان کے خالو تھے، شریف خاندان کی کوشش تھی کہ جے آئی ٹی سب کچھ خود تلاش کرے۔ ریمارکس سامنے آنے پر وکیل خواجہ حارث نے بند باندھنے کی کوشش کی اور بولے کہ مائی لارڈ، ایسے نہیں، ایسے نہیں، محمد حسین چالیس سال قبل وفات پاگئے تھے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ محمد حسین گلف اسٹیل مل میں شراکت دار تھے کیسے یاد نہ آیا۔ وکیل نے کہاکہ چالیس سال پرانی بات صرف نام لینے سے یاد نہیں آتی، جب جے آئی ٹی نے حوالہ دیاتو وزیراعظم نے جواب میں رشتہ داری بتائی۔ وزیراعظم کے تمام اثاثے ٹیکس گوشواروں میں ظاہر ہیں۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ شریف خاندان انیس سو بانوے سے فلیٹوں میں رہتے ہیں یا ان کے قبضے میں ہیں مگر وزیراعظم کو جے آئی ٹی کے سامنے یاد نہ آیا کہ کون سا بیٹا مالک ہے۔ وکیل بولے کہ یہ درست ہے وہ فلیٹوں میں رہائش پذیر رہے، وزیراعظم نے بیٹے کی ملکیت کا بتایا، ایک کی بجائے دوسرے کا نام لے لیا، یہ کوئی ایسی بات نہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ وزیراعظم سے پوچھا گیا کہ ہل میٹل کمپنی سے ملے پیسے سیاست میں لگائے، ان کا جواب نفی میں تھا جبکہ دستاویزات موجود ہیں کہ انہوں نے پارٹی کو سو ملین دیے۔ خواجہ حارث بولے کہ یہ تمام چیزیں ٹیکس گوشواروں میں موجود ہیں، وزیراعظم نے سو نہیں ایک سو پینتالیس ملین دیے تھے، یہ ریکارڈ میں موجود ہے کہ سو ملین عطیہ اور باقی پارٹی کو قرض دیاتھا لیکن جے آئی ٹی نے یہ سوال وزیراعظم کے سامنے رکھا ہی نہیں۔ خواجہ حارث نے عدالت کے پوچھنے پر بتایاکہ ایف زیڈ ای کمپنی کے مالک حسین نواز تھے، وزیراعظم کے پاس کمپنی کے بورڈ چیئرمین کا عہدہ تھا لیکن جے آئی ٹی نے یہ سوال پوچھا ہی نہیں۔ جسٹس عظمت سعید بولے کہ جے آئی ٹی نے نہیں پوچھا، ہم نے پوچھ لیا۔ اس بات پر عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ وزیراعظم نے اقامہ تو لیاتھا نا۔ وکیل بولے کہ اقامہ سنہ دوہزار گیارہ کاہے، کمپنی سے تنخواہ نہیں لی، چونکہ تفتیش شفاف نہیں تھی اس لیے اس کی بنیاد پر عدالت کوئی کارروائی نہیں کرسکتی، یہ اعتراضات قانونی نوعیت کے ہیں، بعدازاں ہر دستاویز پر بھی تفصیلی دلائل دینے کیلئے تیار ہوں۔جسٹس عظمت نے پوچھا کہ کیا وزیراعظم کا سعودی بنک الراجی میں اکاونٹ ہے، وکیل نے اثبات میں جواب دیا۔
اس کے بعد وکیل نے جے آئی ٹی کی جانب سے دیگر ممالک سے قانونی معاونت کے رابطوں کی حیثیت پربحث شروع کی۔ جسٹس عظمت نے کہاکہ جے آئی ٹی کے دیگرملکوں سے رابطوں کی تمام درخواستوں کی تفصیل موجود ہے، ان ممالک کے نام بھی درج ہیں لیکن ہوسکتا ہے کہ تفتیش کی دسویں جلد آپ کے کام کی نہ ہو۔ خواجہ حار ث نے کہاکہ یہ عدالت کی مرضی ہے کہ جن دستاویزات کو کھولنا مناسب نہ سمجھے نہ کھولے، اگر کوئی چیز خفیہ ہے تو اسے کھولنے کیلئے نہیں کہہ سکتے۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ ہم کسی چیز کو خفیہ نہیں رکھنا چاہتے، شفافیت کیلئے ہردستاویزسامنے لائی جائے گی۔ وکیل نے کہاکہ تفتیش جاری ہے اگر کوئی مزید چیز سامنے لانے کیلئے دستاویزات نہیں کھولی جا رہیں تو عدالت کا اختیار ہے جس پر جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ مزید کوئی تفتیش نہیں ہو رہی، ہم نے جے آئی ٹی کو اپنا دفتر بند کرنے کی ہدایت کی تھی، اگر دوسرے ملکوں سے کیے گئے رابطوں کاجواب دیر سے آیاتو اس کو بھی کھلی عدالت میں لائیں گے، تخیل کی پرواز کسی کو کہیں بھی لے جاسکتی ہے، ہم اس پر کچھ نہیں کہہ سکتے۔ جسٹس عظمت بولے کہ تخیل کی پرواز کسی شخص کو لکسمبرگ اور سوئٹزر لینڈ بھی لے جاسکتی ہے، آپ کیا سمجھتے ہیں کہ جے آئی ٹی کے نام کوئی غیرملکی دستاویز آئی اور آپ کے حق میں ہوئی تو کیا ہم اسے چھپا دیں گے؟۔
وکیل خواجہ حارث نے کہاکہ نیب قانون میں طریقہ کار موجود ہے کہ دوسرے ممالک سے دستاویزات کیسے حاصل کی جائیں گی جن کی عدالت کے سامنے حیثیت ہوگی اور مقدمے میں تصدیق شدہ مانی جائیں گی، جے آئی ٹی نے اس طریقہ کار کی خلاف ورزی کی اور نجی طور پر برطانیہ میں پرائیویٹ فرم کی خدمات حاصل کیں۔جسٹس اعجازالاحسن نے پوچھاکہ اگر سورس ڈاکومنٹ قانون شہادت میں دیے گئے طریقہ کار کے مطابق ہو تو کیا ہوگا؟۔ وکیل نے جواب دیاکہ ہم کہتے ہیں جے آئی ٹی نے دستاویزات کے حصول کیلئے قانونی طریقہ ہی نہیں اپنایا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ یہ تو دستاویز پر بنانے والوں نے خود ہی دستبراداری ( ڈس کلیمر) کا اعلان چسپاں کیا ہوا ہے۔ وکیل بولے کہ اس ڈس کلیمر پر میں اپنا ڈس کلیمر لگاتا ہوں۔جسٹس عظمت نے کہاکہ قانون میں غیرملکی حکومت سے قانونی رابطے کا طریقہ کارموجود ہے، یہ تو نہیں ہوتاکہ برطانوی ملکہ کو دستاویزات کی تصدیق کیلئے چھٹی لکھی جائے گی۔انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر ایک حکومت دوسری حکومت سے رابطہ کرتی ہے اور جواب نہیں آتا تو کیاہوگا؟۔وکیل خواجہ حارث نے جواب دیاکہ نیب قانون کا سیکشن اکیس کہتا ہے کہ بیرون ملک سے لائے گئے دستاویزات اگرسرکاری طورپر حاصل کیے گئے ہوں تب ہی قانون کی نظر میں تصدیق شدہ تصور ہوں گے۔جے آئی ٹی نے بیرون ملک سے دستاویزات نجی ذریعے سے لائیں۔جسٹس اعجازافضل نے پوچھا کہ کیا صرف اسی وجہ سے باہر سے لائی گئی دستاویز مسترد کردی جائے گی؟۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ اس کیلئے قانون میں دی گئی غیرملک کی تشریح پر بھی نظر ڈالنا ہوگی، قانون میں غیرملک کی کوئی مخصوص تشریح نہیں، اداروں، اتھارٹیز اور کارپوریشنز کو بھی غیرملک کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ جسٹس عظمت نے کہاکہ ریاست پاکستان کی جانب سے غیرملک سے کون رابطہ کرے گا قانون میں لکھا ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ پاکستان کے دوسرے ممالک سے قانونی معاونت کے باہمی رابطوں کے معاہدے ہیں تو بتائیں۔ کیا دستاویزات اس لیے نہ مانی جائیں کہ قانون میں دیے گئے طریقہ کار کے مطابق نہیں لائی گئیں؟۔ مثلا سری لنکاکی حکومت اگر دستاویز بھیجتی ہے تو کیااس کو وہاں پاکستان کے قونصیلٹ سے تصدیق کرانا لازمی ہوگا، وکیل نے کہاکہ ایسا کرنا قانونی تقاضاہے۔ جج بولے کہ تصدیق کی ضرورت اس وقت ہوگی جب اس پر عدالت میں سوال اٹھایاجائے۔ جسٹس عظمت بولے کہ نجی فرم سے حاصل دستاویزات کی سرکاری تصدیق ضروری ہوگی، سری لنکا میں منسٹری آف کرابس کے نام سے ایک ہوٹل بھی ہے اگر اس کی دستاویز لائی گئی تو قبول نہیں کی جائے گی۔ (عدالت میں جن لوگوں کو یہ مذاق سمجھ آیا انہوں نے لطف لیا)۔
جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ کیا تصدیق شدہ دستاویز اگر کوئی شخص ذاتی حیثیت میں لائے گا اس پر بھی قانونی تقاضے پورے کرنا ضروری ہوں گے؟۔وکیل بولے کہ دستاویزات سرکاری ذریعے سے ہی لانی چاہئیں، نجی طورپر نہیں لائی جاسکتیں۔نجی قانونی فرم صرف دستاویزات کے حصول میں سہولت کار بنائی جاسکتی ہے۔چونکہ دستاویزات تصدیق شدہ نہیں اس لیے اس رپورٹ پر ریفرنس بھی نہیں بن سکتا۔دستاویزات فراہم کرنے والوں کی شہادت بھی ریکارڈ نہیں کی گئی۔جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ اثاثوں کی ملکیت تسلیم کی گئی ہے تو اس کے پیچھے ذرائع آمدن بھی ہوں گے، جب تفتیش کاروں کو ذرائع آمدن پر مطمئن نہیں کیاجاتا تو کیا ہوگا؟۔ جسٹس اعجازالاحسن بولے کہ اس مرحلے پر سوال ثبوت کا نہیں بلکہ دستاویزات کی فراہمی کاہوگا، شریف خاندان نے خود منی ٹریل اور ذرائع آمدن بتانے کاکہاتھا، جے آئی ٹی کے سامنے شریف خاندان کو موقف پیش کرنے کا پورا موقع دیاگیا۔ وکیل نے کہاکہ سوال یہ ہے کہ جے آئی ٹی نے حاصل شدہ دستاویزات کو گواہوں کے سامنے کیوں نہ رکھا۔ جسٹس عظمت نے کہاکہ بنیادی معاملہ فلیٹوں کا ہے جن کی ملکیت تسلیم کی گئی۔منروا کمپنی کو خدمات فراہمی کا کس نے کہاتھا، اگر سپریم کورٹ یا جے آئی ٹی کو بتادیاجاتا تو معاملہ صاف ہوجاتا، حسین نواز کو فلیٹوں کامالک بتایا گیا مگر اس ملکیت کے ثبوت میں کاغذ کا ایک ٹکڑا تک نہ دیاگیا، صرف ٹرسٹ ڈیڈ سامنے لائی گئی، یہ معاملہ بہت سنجیدہ نوعیت کاہے کیونکہ ٹرسٹ ڈیڈ پر اہم سوال اٹھ چکے ہیں۔ نیب سترہ سال سے کیس لے کربیٹھا ہے، ان کو معاملے کا پتہ بھی نہیں چلا۔ جسٹس اعجازالاحسن بولے کہ وزیراعظم نے سولہ مئی کی تقریر میں کہاتھاکہ لندن فلیٹوں کی خریداری کے ذرائع موجود ہیں، یہ دستاویزات اسپیکر کو دی گئیں تو عدالت یا جے آئی ٹی کو کیوں نہ دی گئیں؟۔کیا یہ توقع کی جاتی ہے کہ ملک کا وزیراعظم ایوان میں یہ کہے اور پھر کہے کہ آپ نے ثابت کرنا ہے تو کریں۔وکیل خواجہ حارث نے کہاکہ اس وقت عدالت کے سامنے پانامہ پیپرز میں دیا گیا فیصلہ ہے جس میں تحقیقات کیلئے کہاگیاتھا۔جے آئی ٹی کو چاہیے تھاکہ وہ دستاویزات سامنے رکھ کر سوال پوچھتی۔جسٹس اعجازالاحسن بولے کہ وزیراعظم کی جانب سے پہلے دستاویزات موجود ہونے کا کہاگیا، عدالت نے اپنے اطمینان کیلئے تفتیشی ٹیم تشکیل دی جس کو ساٹھ دن کا وقت دیاگیا، ہم نے دروازے بند نہیں کیے بلکہ موقف پیش کرنے کیلئے تفتیشی ٹیم بنائی، عدالت تفصیلی سماعت کرچکی تھی پھر بھی ایک اور موقع دیاگیا، یہ ذمہ داری تو وزیراعظم نے لی تھی کہ میں بتاﺅں گا۔ وکیل نے کہاکہ عدالتی حکم میں یہ نہیں ہے کہ وزیراعظم جے آئی ٹی کو مطمئن کریں گے۔
جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ یہ بادی النظر میں معلوم ذرائع آمدن سے زیادہ اثاثوں کامقدمہ ہے، یہ وزیراعظم کے ذمے تھا کہ وہ خود جے آئی ٹی کو بتاتے، خواجہ حارث صاحب، آپ کا فوکس اس بات پر ہے کہ جے آئی ٹی کو دستاویزات سامنے رکھ کر پوچھناچاہیے تھا، یہ معاملات کو دیکھنے کا الگ الگ اندازہے بات مگر ایک ہی ہے۔ مگر یہ وزیراعظم پربھی ہے کہ اثاثوں کے ذرائع بتاتے، اب یہ آپ پر ہے کہ قانونی معاونت کریں کہ وزیراعظم اس عدالت کو بتائیں یا پھر احتساب عدالت کے سامنے پیش ہوکر بتانے کا فیصلہ کریں۔خواجہ حارث بولے کہ رپورٹ میں پیش کیے مواد کو دیکھاجائے گا تب ہی معلوم ہوگا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ ہم پیش کیے گئے مواد کو دیکھیں گے کہ کیس نیب کو بھیجیں یا نااہلی کا فیصلہ کریں، ہمارے پاس کیس آئین کے آرٹیکل ایک سو چوراسی تین کے تحت آیاہے۔وکیل بولے کہ جے آئی ٹی رپورٹ یک طرفہ ہے، دستاویزات پر جرح نہیں کی گئی، یہ غیر شفاف تفتیش تھی اس کی بنیاد پر ریفرنس دائر نہیں کیاجاسکتا۔جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ آپ عدالتی فیصلوں کاحوالہ دے رہے ہیں مگر بارثبوت آپ پرہے، آسان تفتیش یہی ہوتی ہے کہ جس کے اثاثے ہوں اسی سے پوچھ لیاجائے۔ وکیل نے کہاکہ یہی بات کر رہا ہوں کہ وزیراعظم سے جے آئی ٹی نے دستاویزات پرسوال ہی نہیں کیے۔جسٹس اعجازالاحسن بولے کہ اب عدالت پوچھ رہی ہے، ہمیں بتادیں۔ وکیل نے جواب دیاکہ اس مرحلے پر اب عدالت جے آئی ٹی کی رپورٹ دیکھ رہی ہے، فیصلہ ہونے سے قبل کسی نے تو تفتیشی رپورٹ پر میرے اعتراض سننے ہیں۔جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ وزیراعظم کے صرف ایک جواب سے معلومات سامنے آسکتی تھیں، وکیل بولے کہ پہلے جن اثاثوں کا مجھے جواب دینا ہے ان کا بتایا جائے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ وزیراعظم نے خود کہاکہ یہ فلیٹ ہمارے ہیں، میں جواب دوں گا۔ وکیل نے کہاکہ یہ توایسے ہی ہے کہ جیسے گھروں میں بات ہوتی ہے۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ وزیراعظم نے سپریم کورٹ میں جواب دیاکہ فلیٹس حسین کے ہیں، جے آئی ٹی میں کہا کہ علم نہیں۔ وکیل خواجہ حارث بولے کہ اس وقت صرف عدالت کے بیس اپریل کے پانامہ فیصلے تک ہی محدود رہا جاسکتاہے، جے آئی ٹی کی لائی گئی دستاویزات پر تحریری جواب بھی دوں گا۔ جسٹس اعجازنے کہاکہ ہم سننے کیلئے بیٹھے ہیں۔ وکیل بولے کہ جے آئی ٹی کاکام صرف شواہد اکھٹے کرنا تھا، پولیس کے تفتیشی افسر کی رائے کی قانون کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ اگر تفتیشی افسر کی رائے کے ساتھ سپورٹنگ مواد بھی ہوتو اس کو قانون میں ماناجاتاہے۔ وکیل بولے کہ عدالتی فیصلے موجود ہیں جن کے مطابق تفتیشی کی رائے ریکارڈ پر نہیں لائی جاسکتی۔ اس کے بعد خواجہ حارث نے وزیراعظم کا جے آئی ٹی کے سامنے دیاگیا تحریری بیان پڑھا، اور پھر سماعت کل تک کیلئے ملتوی کردی گئی۔

 

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے