کالم

وزیر اعظم آتے جاتے رہتے ہیں

جولائی 18, 2017 4 min

وزیر اعظم آتے جاتے رہتے ہیں

Reading Time: 4 minutes

بات اتنی بھی سادہ نہیں جتنی بناکر پیش کی جارہی ہے۔ اپریل 2016میں پانامہ کی ایک لاء فرم کے ریکارڈ سے چرائی دستاویزات منظرِ عام پر نہ بھی آتیں تو ہماری ریاست کے دائمی اداروں کے پاس ’’بوقتِ ضرورت ‘‘شریف خاندان کو گھیرنے کے لئے کافی مواد موجود رہا ہے۔
بہت کم لوگوں کو یہ بات یاد رہی ہوگی کہ قومی احتساب بیورو کے قیام سے پہلے وفاقی حکومت کی بنائی ایک ’’اینٹی کرپشن کمیٹی‘‘ بھی ہوا کرتی تھی۔ مرحوم محمد خان جونیجو کے دور میں اس کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ چکوال سے ان دنوں قومی اسمبلی کے پہلی بار منتخب ہوئے رکن، جنرل مجید ملک صاحب اس کے سربراہ تھے۔ 1988کے بعد جب محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت قائم ہوئی تو اس کمیٹی کا وجود برقرار رکھا گیا۔ بحالی جمہوریت کی تحریک کے دوران محترمہ کے ایک ثابت قدم حلیف ملک قاسم مرحوم اس کے سربراہ بنائے گئے۔
ملک صاحب کا ایمان تھا کہ لاہور کے ایک کاروباری خاندان سے آیا نواز شریف ایک روایتی سیاستدان نہیں ہے۔ وہ صنعت کاروں کے اس گروہ کا نمائندہ ہے جو سیاسی قوت کو اپنا کاروبار بڑھانے اور بینکوں سے بھاری قرضے معاف کروانے کے لئے استعمال کرتا ہے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے طورپر نواز شریف نے وزیر اعظم کی حکومت کو ویسے بھی اسلام آباد تک محدود رکھا تھا۔ ملک صاحب اس وزیر اعلیٰ کو کرپشن کے الزامات میں گھیرنا چاہتے تھے۔
پارلیمان کی عمارت میں موجود ان کا دفتر ہر وقت ملک بھر سے بلائے بینکاروں سے بھرا رہتا۔ وہ دھونس اور شفقت کے تمام ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے شریف خاندان کے کاروبار سے متعلق مواد اکٹھا کرنے کی کوشش کرتے۔ اپنی تمام تر محنت کے باوجود انہیں کوئی خاص کامیابی نہ مل پائی۔
ملک صاحب انگریزکے دور میں بحریہ کے ایک افسر ہوا کرتے تھے۔ سنا ہے کہ ان کا تعلق افسروں کے اس گروہ سے بھی تھا جس نے انگریزوں کے خلاف’’ جہازیوںکی بغاوت‘‘والے قصے سے بمبئی کو ہلاکر رکھ دیا تھا۔ اٹک سے تعلق رکھنے والے ملک صاحب کے کئی فوجی افسروں سے بھی خاندانی بنیادوں پر گہرے رشتے تھے۔ انہیں یقین تھا کہ ’’وہاں‘‘ کے چند اداروں کے پاس شریف خاندان کے خلاف کچھ مواد ضرور موجود ہوگا۔ جنرل اسلم بیگ مگر ان دنوں آرمی چیف تھے اور وہ وزیر اعظم سے خوش نہیں تھے۔
’’وہاں‘‘ سے ملک صاحب کو نواز شریف کے خلاف کوئی موادنہ مل سکا۔ اس وقت کے قائدِ حزب اختلاف،غلام مصطفیٰ جتوئی صاحب کو البتہ ایک بھاری بھر کم فائل ضرور حاصل ہوگئی۔ اس فائل کو مرحوم نے راولپنڈی کے ایک پنج ستاری ہوٹل میں ایک بھرپور پریس کانفرنس کے دوران ستمبر1989کی ایک سہ پہر کو لہرایا۔ چند مہینوں بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کو فارغ کرتے ہوئے صدر اسحاق نے 6اگست 1990ء کی شام اسی فائل میں سے چند واقعات بتائے۔ جتوئی صاحب نگران وزیر اعظم بن گئے۔ آصف علی زرداری گرفتار کرلئے گئے اور انہیں اس فائل میں بیان کئے چند الزامات کی بنیاد پر مختلف مقدمات میں الجھادیا گیا۔
ملک قاسم کے ایماء پر ریاست کے چند سویلین اداروں میں موجود کچھ افسروں نے محترمہ کی پہلی حکومت کو نواز شریف کے خلاف کچھ مواد ضرور فراہم کیا تھا۔ ملک صاحب اس مواد کی بنیاد پر پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے خلاف مقدمات بنانا چاہتے تھے۔ان کی حما یت میں ڈاکٹر شیرافگن نیازی مرحوم اپنی تمام تر پارلیمانی ذہانت استعمال کرنے کو دل وجان سے تیار تھے۔ فاروق خان لغاری بھی اس گروپ میں شامل ہوگئے جسے لاہور سے خواجہ احمد طارق رحیم اور فیصل آباد کے احمد سعید اعوان کی بھرپور حمایت بھی حاصل تھی۔
محترمہ کی کابینہ میں لیکن ان دنوں کے وزیر داخلہ چودھری اعتزاز احسن اور وزیر قانون افتخار گیلانی اس بات پر بضد رہے کہ ’’جمہوریت کے استحکام‘‘ کے لئے محترمہ اور میاں نواز شریف کے مابین کوئی ورکنگ انڈرسٹینڈنگ ہونا چاہیے۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور دیوار سے لگانے پر تل گئے تو فائدہ ان کی لڑائی کا صرف ’’تیسری قوت‘‘ اٹھائے گی۔ نواز شریف کے خلاف جمع ہوا مواد لہذا استعمال نہ ہوپایا۔ اس مواد کی چند جھلکیاں اگرچہ مجھے ’’2017ء میں‘‘ مرتب ہوئی فردِ جرم میں ضرور نظر آئی ہیں۔
یہ ’’فردِ جرم‘‘ جو نواز شریف کے خلاف اپریل سے جولائی 2017کے ’’صرف 60دنوں‘‘ کے دوران تیار ہوئی بتائی گئی ہے بہت سے ایسے مواد پر بھی مشتمل ہے جو غلام اسحاق خان کے پاس اپریل 1993کی اس شام بھی موجود تھا جب موصوف نے نواز شریف کی پہلی حکومت کو کرپشن کے الزامات لگاکر برطرف کیا تھا۔
محترمہ کی پہلی حکومت کو ہٹانے کے بعد 1990میں جو انتخابات ہوئے ان کے نتیجے میں غلام اسحاق خان اور جنرل اسلم بیگ غلام مصطفیٰ جتوئی مرحوم کو وزیر اعظم بنانا چاہتے تھے۔ بڑی محنت سے بنائی اوریونس حبیب کے سرمایے سے چلائی IJIنے بے تحاشہ نشستیں مگر پنجاب سے حاصل کی تھیں۔ اس کامیابی کا سارا کریڈٹ نواز شریف کی محنت کو دیا جارہا تھا۔ چودھری نثار علی خان اور ملک نعیم جیسے ’’فوجی خاندانوں‘‘ سے آئے سیاستدان ان کے جاں نثار مانے جاتے تھے۔ ان لوگوں کے رابطوں سے راولپنڈی کے فیصلہ سازوں کو قائل کردیا گیا کہ پنجاب سے ابھرے ’’جدید ذہن والے‘‘ کاروباری شخص کو موقعہ نہ دیا گیا تو ہماری سیاست بدستور روایتی جاگیر داروں کی غلام رہے گی۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے -پنجاب- خاص کر اس کی مڈل کلاس میں بددلی پھیلے گی۔ ’’احساسِ محرومی‘‘ وغیرہ۔ مرحوم جنرل حمید گل نے اس سوچ کے ساتھ صدر اسحاق کو اپنا ہم نوابنایا۔
صدر اسحاق نے نواز شریف کو نامزد کرنے کا عندیہ دیا تو جتوئی صاحب کے چند وفادار بہت پریشان ہوئے۔ ان کے خصوصی معاون،بیرسٹر کمال اظفر صاحب نے مجھے وزیر اعظم سیکرٹریٹ بلوایا۔ Bugging وغیرہ کے خوف سے وہ اپنے کمرے سے باہر نکل کر کارپارک میں آگئے۔ وہاں انہوں نے مجھے ا یک فائل دکھائی جس میں عبوری وزیر اعظم غلام مصطفیٰ جتوئی سے سفارش کی گئی تھی کہ وہ ’’بدعنوانی‘‘ کے مندرجہ ذیل ’’ثبوتوں‘‘ کی بنا پر نواز شریف کے خلاف نااہلی والا ریفرنس دائر کردیں۔ میں وہ فائل دیکھ رہا تھا تو غلام مصطفیٰ کھر اس پارکنگ میں اچانک نمودار ہوگئے۔
مجھے کمال اظفر کے ساتھ دیکھتے ہی کھر صاحب نے تقریباََ چیختے ہوئے پنجابی میں کہا کہ ’’کمال اظفر پاگل ہوگیا ہے۔ جرنیلوں نے نواز شریف کو وزیر اعظم بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ میں مصطفیٰ جتوئی کو یہ سمجھانے آیا ہوں کہ وہ اس فیصلے میں رکاوٹ نہ ڈالے‘‘۔ کمال اظفر نے ہکا بکا ہوکر وہ فائل میرے ہاتھ سے چھین لی اور تیزی سے اپنے کمرے کی طرف روانہ ہوگئے۔ غلام مصطفیٰ کھر میرے ساتھ تقریباََ ٹہلتے ہوئے جتوئی صاحب کے دفتر کی جانب چلنا شروع ہوگئے۔ اس دوران انہوں نے مجھے بتایا کہ انہیں صدر اسحاق خان نے غلام مصطفیٰ جتوئی کو ’’عقل کی بات‘‘ سمجھانے کے لئے بھیجا ہے۔ کالم کے آخر میں عرض یہ بھی کرنا ہے کہ ’’2017میں تیار ہوئی‘‘ فردِ جرم میں کچھ ایسا مواد بھی موجود ہے جو 1990کی ایک دوپہر میں نے وزیر اعظم سیکرٹریٹ کے کارپارک میں کھڑے ہوئے کمال اظفر صاحب کی بدولت دیکھا تھا۔قصہ مختصر وزیر اعظم آتے جاتے رہتے ہیں۔ ایک مگر ریاست ہوتی ہے۔ اس کے چند دائمی ادارے ہوتے ہیں اور وہاں لوگوں کے خلاف مواد ہمیشہ جمع ہوتا رہتا ہے۔

بشکریہ نوائے وقت

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے