کالم

وزیراعظم اور وزیرداخلہ

جولائی 24, 2017 5 min

وزیراعظم اور وزیرداخلہ

Reading Time: 5 minutes

حسبِ عادت اتوار کی صبح اُٹھ کر یہ کالم لکھنے بیٹھ گیا ہوں۔ چودھری نثار علی خان کی پریس کانفرنس مگر سہ پہر کے بعد ہونی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ میں ان کے فرمودات سننے کے بعد کچھ لکھتا۔ پیر کی صبح اخبارات پڑھتے ہوئے آپ یقینا اس سوال کا جواب معلوم کرنے کو بے تاب ہوں گے کہ چودھری نثار علی خان کو ”ناراض“ کرلینے کے بعد نواز شریف کا کیا ہوگا۔ موصوف کی پریس کانفرنس سنے بغیر مگر میں آپ کو پورے اعتماد کے ساتھ یہ بتاسکتا ہوں کہ نواز شریف کے ساتھ وہی ہوگا جو منظورِ خدا ہوگا۔ چودھری نثار علی خان کی ”آنیوں جانیوں“ کا اس سے ہرگز کوئی تعلق نہیں ہوگا۔
نواز شریف کے چاہنے والوں کو البتہ یہ پیغام ضرور جائے گا کہ خود کو مبینہ طورپر لاہور سے آئے سیاستدان کا ان کے بیٹوں، حسن اور حسین جتنا وفادار ہونے کا دعویٰ کرنے والے چکری کے خاندانی راجپوت نے مشکل وقت میں ساتھ چھوڑ دیا۔
راجپوتوں کی اپنے دوستوں سے وفاداری کے ہمارے داستان گومعاشرے میں بہت چرچے رہے ہیں۔ چودھری صاحب کو اپنے راجپوت ہونے پر بہت ناز بھی ہے۔ مجھے خبر نہیں کہ وہ ”سورج بنسی“ ہیں یا ”چندربنسی“۔ نواز شریف پر یہ وقت مگر بہت کڑا ہے۔ اس وقت ان سے بہت ہی جائز وجوہات اور شکایات کے باوجود چودھری نثار صاحب کی دوری ہرگز ضروری نہ تھی۔ بہتر یہی تھا کہ کچھ دن اور اپنی پہاڑ جیسی انا کو زیر کرتے ہوئے خاموش رہ لیتے۔ اپنی خوددار وفاداری کا بھرم رکھتے۔ مناسب وقت کا انتظار کرتے۔
یہ بھرم رکھنا اس لئے بھی ضروری تھا کیونکہ جمعے کی رات سے ”بریکنگ نیوز“ یہ مشہور ہے کہ چودھری صاحب مبینہ طورپر اتوار کی سہ پہر ایک پریس کانفرنس کے ذریعے اپنے دل کے پھپھولے جلانے پر اس لئے مجبور ہوگئے کہ ”فیصلہ“ ہوگیا۔جمعہ کے دن سپریم کورٹ نے پانامہ پر اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔ وہ فیصلہ محفوظ ہونے کے بعد وزیر اعظم کے قریبی مشیروں کا ایک طویل اجلاس ہوا۔ ہمہ وقت مستعد رپورٹروں نے اپنے چینلوں کو Beepers دیتے ہوئے اطلاع یہ دی کہ نواز شریف کا وزیر اعظم کے عہدے سے فارغ ہونا ٹھہرگیا ہے۔ یقینی دِکھتی اس فراغت کو ذہن میں رکھتے ہوئے نواز شریف صاحب کے لئے ضروری تھا کہ اپنے جاں نشین کا انتخاب کر لیتے۔ ہمارے مستعد رپورٹروں نے طے کردیا کہ خواجہ آصف کو نواز شریف کی ممکنہ نااہلی کی صورت نیا وزیر اعظم منتخب کرنے کا فیصلہ ہوگیا ہے۔
خواجہ آصف مجھے ذاتی طورپر بہت پسند ہیں۔ ذاتی تعلقات میرے چودھری نثار علی خان سے بھی کافی خوش گوار رہے ہیں۔ وہ دونوں مگر کئی مہینوں سے ایک ہی کابینہ کے اہم ترین وزیر ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے کے ساتھ سوکنوں والی لڑائی میں مصروف رہے ہیں۔ خواجہ صاحب کا مبینہ انتخاب لہذا وہ نظر بظاہر برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ ”پیا“ نے خواجہ آصف کو ”سہاگن“ ٹھہرادیا تو چودھری صاحب نے اتوار کی سہ پہر والی پریس کانفرنس کا فیصلہ کرلیا۔
چودھری صاحب نے اپنے ترجمان کے ذریعے اگرچہ اس تاثرکو جھٹلانے کی کوشش کی ہے۔ وزارتِ اطلاعات کے سدھائے ”ترجمان“ سے مگر بات بن نہیں پائی۔ چودھری صاحب اب پنجابی محاورے میں بتائے ”تتے توے“ پر بھی بیٹھ کر اصرار کرتے رہیں کہ ان کی پریس کانفرنس کا خواجہ آصف کی ممکنہ جاں نشینی سے کوئی تعلق نہیں تو لوگ اعتبار نہیں کریں گے۔ Perception سیاست میں حقائق سے کہیں زیادہ اہم ہوتا ہے۔ وزارتِ اطلاعات کے سدھائے افسروں کو محض صحافیوں کو خوش رکھنا یا دھمکاناآتا ہے۔
Perception Managementان کے بس کی بات ہی نہیں۔ چودھری نثار علی خان کی پریس کانفرنس کے بعد پیغام صرف یہی جائے گا کہ وہ خواجہ آصف کی ممکنہ جاں نشینی سے ”جل“ گئے۔ مجھے خبر نہیں کہ چودھری نثار کی راجپوتی انا اس Perceptionکو کیسے ہضم کر پائے گی۔
میں ان دنوں کل وقتی رپورٹنگ چھوڑ چکا ہوں۔ اس کالم کے ذریعے ”تجزیہ نگاری“ کی پھنے خانی دکھاتا ہوں۔ ایک ٹی وی پروگرام میں بھاشن بھی دیتا ہوں۔ کل وقتی رپورٹنگ سے تقریباََ لاتعلق ہوتے ہوئے بھی لیکن میرا اصرار ہے کہ چودھری نثار علی خان کی اتوار والی پریس کانفرنس کا خواجہ آصف کی مشہور ہوئی ”جاں نشینی“ سے ہرگز کوئی تعلق نہیں۔ میرا یہ دعویٰ بھی لیکن لوگوں کی اکثریت کو اس وقت درست محسوس نہیں ہوگا۔ آنے والے کئی دنوں تک چودھری نثار کی پریس کانفرنس خواجہ آصف کی جاں نشینی کے امکانات سے جڑی رہے گی۔
چودھری نثار کو بطور رپورٹر میں نے 1985کے انتخابات کے بعد سے Watchاور رپورٹ کرنا شروع کیا تھا۔ اس سال قائم ہوئی قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہونے سے پہلے وہ جنرل ضیاءکی مجلس شوریٰ کے نامزدرکن بھی ہوا کرتے تھے۔ ہمیں بتایا گیا کہ راولپنڈی کے نواحی قصبے چکری کے راجپوت خاندان کے اس ہونہار بروا کی مجلس شوریٰ کے لئے نامزدگی ان کے والد مرحوم کی وجہ سے ہوئی جو خطہ پوٹھوہار کے ایک نمایاں بریگیڈئر ہوا کرتے تھے۔چودھری نثار کو قریب سے جاننے کے دعوے داروں کا اصرار یہ بھی تھا کہ چودھری نثار علی خان ”دل سے“ پیپلز پارٹی کو پسند کرتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت اور سیاست سے بہت متاثر ہیں۔ مجھے ان کے ذاتی خیالات یا خاندانی پس منظر سے مگر کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
میں قومی اسمبلی کی کارروائی کوپریس گیلری میں بیٹھ کر دیکھتا اور اس کے بارے میں ایک کالم لکھتا تھا۔ اس کالم میں چودھری نثار کی اکثر تحسین اس لئے کرنا پڑتی کہ وزارتِ خزانہ کے پارلیمانی سیکرٹری ہوتے ہوئے وہ اس محکمے کے بارے میں اٹھائے سوالات کا جواب دیتے تو بہت تیاری کے ساتھ ایوان میں آئے نظر آتے ۔ ڈاکٹر محبوب الحق مرحوم ان دنوں وزیر خزانہ تھے۔ وہ ایک عالمی شہرت یافتہ ماہر معیشت تھے۔ جموں کے ایک سکول ماسٹر کا یہ بیٹا بڑی محنت سے اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہوا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کامیاب ہوکر مگر خودپسند بھی ہوگئے تھے۔ ذہین نوجوانوں کی سرپرستی فرمانا ان کی عادت نہیں تھی۔ چودھری نثار علی خان کو مگر انہوں نے اپنی جگہ بنانے کا بھرپور موقع فراہم کیا۔ چودھری نثار کے پاس یقینا کوئی منتر ہوگا جس نے ڈاکٹر صاحب کے دل میں ان کے لئے شفقت کے جذبات پیدا کئے۔
جوابی ستائش یا صلہ کی تمنا کئے بغیر چودھری صاحب کے بارے میں تواتر کے ساتھ لکھے تحسینی کلمات نے مجھے ان سے آشنائی میں آسانیاں پیدا کیں۔ وہ عموماََ رپورٹروں کے ہاتھ نہیں آتے۔ میں اگر ملنے کی درخواست کرتا تو وقت ضرور نکال لیتے۔ سچی بات یہ بھی ہے کہ نازک اور حساس ترین لمحات کے بارے میں بھی جب کبھی میں نے ان سے حقائق کوجاننا چاہا تو چودھری نثار علی خان نے ”آف دی ریکارڈ“ ہی سہی جو بات ان کے علم میں تھی بتاکر میرا ذہن صاف رکھنے میں ہمیشہ مدد فراہم کی۔
ان کے ساتھ ہوئی کئی ملاقاتوں کے بعد میں ان کا مزاج شناس ہونے کا دعوے دار ہوں۔ جب سے وہ نواز شریف کی تیسری حکومت میں وزیر داخلہ ہوئے ہیں میری ان سے اسلام آباد کے پنجاب ہاﺅس میں صرف ایک ملاقات ہوئی۔ وہ اس کالم میں لکھی کئی باتوں پر بہت رنجیدہ تھے۔ دوپہر کے کھانے پر اکیلے میں ملاقات ہوئی۔ میں ڈھیٹ بنا ان کا رنج بھرا خطاب سنتا رہا اور فیصلہ کرلیا کہ ان کی حساس طبیعت کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان کے بارے میں اس کالم میں تحسین یا تنقید والی ایک سطر بھی نہیں لکھوں گا۔
میں آج بھی اس عہد پر قائم رہنا چاہتا تھا مگر میڈیا میں گزشتہ 48گھنٹوں سے ان کی اتوار کی سہ پہر ہونے والی پریس کانفرنس کے چرچے ہیں۔ وہ کانفرنس ہوجائے تو بہت کچھ مزید لکھنا بھی ضروری ہوجائے گا۔ فی الوقت میرا اصرار صرف اتنا ہے کہ چودھری صاحب کی پریس کانفرنس کا خواجہ آصف کی ممکنہ جاں نشینی سے ہرگز کوئی تعلق نہیں۔
چودھری صاحب کی نواز شریف سے دوری کی وجوہات بہت گہری ہیں اور یہ برسوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ ایک انگریزی محاورے میں البتہ جسے ”آخری کیل“ کہا جاتا ہے وہ جنرل راحیل کے اختتامی دنوں میں لگا تھا۔ تعلق اس کا اس خبر سے تھا جو ڈان اخبار میں 6 اکتوبر 2016کی صبح چھپی تھی۔ اس خبر کی وجہ سے پرویز رشید کو وزارتِ اطلاعات سے ہٹا کر قربانی کا بکرا بنایا گیا تھا۔ اس قربانی کے بعد سے JITکی ہرگز ضرورت نہیں تھی جو اس خبر کی سورس کی تلاش کرنے کے نام پر بنائی گئی۔ چودھری نثار مگر بضد رہے کہ ”معاملہ صاف ہونا چاہیے“۔ اگرچہ ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب جنرل راحیل شریف بھی درگزر کو تیار ہوگئے تھے۔نواز شریف اور چودھری نثار علی خان کے درمیان حتمی دراڑ درحقیقت اس خبر کی ”سورس“ تلاش کرنے کی کوششوں کے دوران گہری ہوئی ہے۔ باقی سب کہانیاں ہیں۔

بشکریہ نوائے وقت

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے