پاکستان

سپریم کورٹ بمقابلہ میر شکیل الرحمان

جولائی 25, 2017 4 min

سپریم کورٹ بمقابلہ میر شکیل الرحمان

Reading Time: 4 minutes

کمرہ عدالت نمبر تین سے
سپریم کورٹ نے جنگ گروپ کے مالک میرشکیل الرحمان، پرنٹر میرجاوید رحمان اور دی نیوز کے رپورٹر احمد نورانی کے خلاف توہین عدالت کے اظہار وجوہ نوٹس کی سماعت کی۔ تین رکنی بنچ کی سربراہی جسٹس اعجازافضل نے کی جن کے دائیں جسٹس عظمت سعید اور بائیں جسٹس اعجازالاحسن موجود تھے۔ عدالتی کارروائی کے آغاز پر جسٹس عظمت سعید نے پوچھا کہ میر شکیل، میر جاوید اور احمد نورانی کہاں ہیں۔ ایڈووکیٹ آن ریکارڈ نے بتایاکہ عدالت میں موجود ہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے پوچھا کہ کیا کوئی جواب آیا ہے؟۔ ایڈووکیٹ نے بتایاکہ تحریری جواب جمع کرایا جا چکاہے۔ عدالت کی ہدایت پر تینوں افرادکی جانب سے دیا گیا جواب پڑھ کر سنایا گیا۔ جس کے بعد عدالت نے حکم لکھوایا کہ جواب پر مزید دلائل کیلئے کیس بائیس اگست تک ملتوی کیا جاتاہے۔ اس مرحلے پر جنگ گروپ کے مالک میرشکیل الرحمان نے عدالت سے کچھ کہنے کی اجازت طلب کی اور پھر کہاکہ تمام ایڈیٹرز اور رپورٹرز کی جانب سے عدالت سے درخواست کرتاہوں کہ ہمارے باے میں جو ریمارکس دیے گئے اور یہ کہا گیاکہ ہمیں پتہ ہے کہ یہ کس کی ایما پر ہو رہا ہے،ان ریمارکس پر ہمیں شدید صدمہ پہنچا ہے، میں معذرت چاہتاہوں مگر مجھ سے اگر ہم عصروں میں سے کوئی پوچھے کہ کس کے کہنے پر شائع کر رہے ہیں تو میں بھی ان سے پوچھوں گا کہ کس کے کہنے پر یہ سوال کر رہے ہو۔ اسی طرح اخبارات کو جاری اشتہارات کی تفصیل بھی مانگی گئی، عدالت نے صرف تین ماہ کے اشتہارات کی تفصیل طلب کی ہے، اللہ کے فضل سے ہمارا میڈیا گروپ سب سے زیادہ پڑھاجانے والاہے، پختون خوا میں عمران خان کی حکومت ہے مگر جنگ گروپ کوسب سے زیادہ اشتہارات ملتے ہیں، اس وجہ یہ ہے کہ جو میڈیا گروپ بڑا ہوتا ہے اس کے اشہارات کا نرخ بھی زیادہ ہوتاہے اور اشتہارات میں اس کا حصہ بھی بڑا ہوتا ہے۔  عدالت سے درخواست ہے کہ صرف تین ماہ نہیں بلکہ پانچ سال کا ریکارڈ منگوائیں اور گزشتہ حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے اشتہارات کی تفصیل طلب کرکے اس کا بھی جائزہ لیاجائے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے میر شکیل کی بات کاٹتے ہوئے کہا کہ یہاں یہ ایشو نہیں ہے، ایشو یہ ہے کہ غلط خبر شائع کی گئی، غلط رپورٹنگ ہوئی، عدالتی حکم کو غلط انداز میں شائع کیاگیا، غلط معلومات پھیلائی گئیں، جان بوجھ کر جے آئی ٹی کو نشانہ بنایاگیا۔ جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ جے آئی ٹی ہی نہیں بلکہ اس عدالت کو بھی نشانہ بنایاگیا، بہترہوگا کہ آپ وکیل کے ذریعے اپنا دفاع کریں، آپ پاکستان کے شہری ہیں، آپ کے بنیادی حقوق ہیں ان کا تحفظ بھی کرناہے۔میر شکیل الرحمان نے دوبارہ اپنی بات شروع کی تو جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ ہم نے نوٹ کیاہے کہ آپ کے اخبارات جان بوجھ کر ایک تسلسل کے ساتھ خبریں شائع کرتے ہیں، کچھ رپورٹس میں عدالت کو بدنام کیاگیا، آپ کو دفاع کا پورا موقع دیاجائے گا۔ میرشکیل نے کہاکہ اپنے ادارے کی تمام خبروں کو درست سمجھتا ہوں، ہمارے ایڈیٹرز کہتے ہیں کہ شائع کی گئی تمام خبریں درست ہیں، اگر غلط ہوتیں تو عدالت نوٹس لیتی۔ جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ اب آپ کو مثال دیتا ہوں، جے آئی ٹی کی رپورٹ ہمارے پاس بعد میں آئی، آپ کے ادارے نے پہلے چھاپ دی اور جب بری طرح باﺅنس ہوئی تو اگلے دن معافی مانگی۔ میر شکیل نے کہاکہ ایک خبر غلط ہوئی اور ہم نے معافی مانگی، باقی تمام خبریں درست نکلیں۔جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ صرف ایک خبرغلط ہونے کی بات نہیں، لاہور ہائیکورٹ کے بارے میں خبر چلانے پر بھی آپ کو معافی مانگنا پڑی تھی (جج صاحب کا اشارہ لاہور ہائیکورٹ کے اسٹاف کی رشوت لینے کی ویڈیو نشر کرنے کی جانب تھا جو دس برس قبل جیو نیوز کے پروگرام  گمنام  میں چلائی تھی)، معافی وہ ہوتی ہے جو آپ نے دن میں پانچ بارٹی وی پر چلائی۔ میر شکیل نے کہاکہ اگر میرے ادارے نے غلط خبریں شائع کی ہیں تو عدالت آئی ایس آئی اور واٹس ایپ کال والی خبروں پر بھی نوٹس لے تاکہ اس پر اپنے رپورٹروں اور ایڈیٹرز کی سرزنش کر سکوں، امید کرتا ہوں کہ ان خبروں کا بھی نوٹس لیں گے۔جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ بہتر ہوگا کہ وکیل کے ذریعے بات کریں۔ ہم بہت سی باتوں پر چپ اس لیے ہوتے ہیں کیونکہ فریڈم آف پریس ہمیں بہت مقدم ہے، اپنے کئی فیصلوں میں بھی لکھ چکا ہوں، فیئر کیا ان فیئر (غیرمنصفانہ) تنقید بھی برداشت کرلیںگے۔ میر شکیل نے کہاکہ میری ایک گزارش ہے کہ آپ صاحبان جو ریمارکس دیتے ہیں وہ آرڈر شیٹ میں بھی لکھ دیاکریں تاکہ ریکارڈ پر آسکے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ ٹھیک ہے آپ کے مقدمے میں لکھ بھی دیں گے پھر ان کو حذف کرنے کیلئے درخواست مت دیجیے گا۔ میر شکیل نے کہاکہ عدالت کا بیس جون کا حکم زیادہ تر اخبارات اور ٹی وی چینلز نے غلط رپورٹ کیا، ان پر کیوں ایکشن نہیں لیا گیا؟۔ رپورٹر بھی انسان ہیں ان سے بھی غلطی ہوجاتی ہے، یہاں عدالت میں تو دیکھ رہاہوں کہ ججوں کی بات سننے اور سمجھنے میں بہت دشواری ہے۔ غلطی کی معافی کیلئے عدالت سے کہاہے لیکن ہماری اب تک کی زیادہ تر خبریں درست ہی سمجھی جائیں گی کیونکہ سپریم کورٹ نے ان پر کوئی نوٹس نہیں لیا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ فریڈم آف پریس ضروری ہے، تنقید کریں، جتنی مرضی ہے کریں مگر گند اور کیچڑ نہ اچھالیں۔ ا ے وحید مراد

Array
One Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے