کالم

فنڈز تحریک انصاف کے گلے میں

جولائی 31, 2017 11 min

فنڈز تحریک انصاف کے گلے میں

Reading Time: 11 minutes

سپریم کورٹ سے اے وحید مراد
تحریک انصاف کی ممنوعہ غیرملکی فنڈز پر حنیف عباسی کی دائر درخواست کی سماعت چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔
تحریک انصاف کے وکیل انورمنصور نے حنیف عباسی کی درخواست کے جواب میںدفاعی دلائل دیتے ہوئے کہاکہ تحریری گزارشات میں تفصیل لکھ دی ہے، الیکشن کمیشن غیرملکی فنڈز کا معاملہ نہیں دیکھ سکتا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کیا آپ کی دلیل یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کا قانون (پولیٹیکل پارٹیز آرڈر دوہزاردو) غیر موثر ہو چکا ہے؟۔وکیل نے کہاکہ اس قانون میں تبدیلی کی گئی، اب اس میں آرٹیکل چھ مختلف صورت میں موجود ہے، اسی طرح پی پی او میں آرٹیکل تیرہ کو بھی دیکھاجائے، اس میں لکھاہے کہ پارٹی فنڈز کا آڈٹ الیکشن کمیشن نہیں کرے گا۔ قانون میں یہ تبدیلی پارلیمان نے کی ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ کیا کسی سیاسی جماعت کے فنڈز کا آڈٹ اس کے آڈیٹر نے کرلیا اوراس کی رپورٹ الیکشن کمیشن میں جمع کرادی تو اس کے بعد کمیشن کوئی کارروائی نہیں کرسکتا؟ کیا کمیشن پر کوئی پابندی ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر پی پی او کا آرٹیکل چھ غیر موثر ہو جائے گا۔ وکیل نے کہاکہ میری بات کچھ مختلف ہے، یہ کہہ رہا ہوں کہ الیکشن کمیشن آڈیٹڈ فنڈز کا دوبارہ آڈٹ نہیں کرسکتا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ پی پی او کے آرٹیکل سترہ میں پارٹیز کو فنڈنگ ذرائع بتانے کا پابند کیاگیا ہے۔ وکیل نے کہاکہ عدالت کے سامنے سرجھکاتا ہوں مگر کچھ اور بات کر رہا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ یہی کچھ اور بات آپ کافی دیر سے کررہے ہیں مگر واضح نہیں ہو رہی۔ وکیل نے کہاکہ کمیشن کو صرف انہی تفصیلات پر انحصار کرنا ہوگا جو سیاسی جماعت نے پارٹی فنڈز کے حوالے سے فراہم کی ہوں۔جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ خود سے تو کوئی جماعت کبھی غیرملکی فنڈز کی تفصیل فراہم نہیں کرے گی۔ وکیل بولے کہ اس کو غیرملکی فنڈز نہ کہیں، اگر الیکشن کمیشن خود سے تمام ریکارڈ دیکھتا تو الگ بات تھی یہاں ایک درخواست پر کارروائی شروع ہوئی۔
چیف جسٹس نے کہاکہ اگر الیکشن کمیشن تحریک انصاف کے فنڈز گوشواروں پر کلیئرنس سرٹیفیکیٹ جاری کرچکاہوتاتو صورتحال مختلف ہوتی۔ کیا اب کمیشن پر کوئی پابندی ہے کہ وہ فنڈز کی اسکروٹنی نہیںکرسکتا؟۔وکیل بولے کہ قانون میں اس کی اجازت نہیںہے، انیس سو باسٹھ سے لے کر آج تک غیرملکی فنڈنگ پرکسی سیاسی جماعت کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ کیا آپ کے پاس یہی دفاع ہے اور آپ اس کو موثر سمجھتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اگر یہ روایت ہے تو کیا کسی شکایت پر بھی الیکشن کمیشن کارروائی نہ کرے۔
وکیل انورمنصور نے کہاکہ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے خلاف جواب میں جو زبان استعمال کی اس کو بھی دیکھاجائے، کمیشن نے عدالت کو بتایاہے کہ غیرملکی فنڈنگ فراڈ ہے۔ جسٹس عمرعطا نے کہاکہ یہ الزام ہو سکتا ہے کمیشن نے اپنی طرف سے ایسا نہیں لکھا۔ وکیل نے کہاکہ تحریک انصاف کے خلاف تعصب ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ یہ معاملہ الیکشن کمیشن کو بھیج کر کہاجا سکتا ہے کہ بلاتعصب فیصلہ کرے۔ وکیل نے کہاکہ مسلم لیگ ان لندن میں بطور کمپنی رجسٹرڈ ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اس طرح کی معلومات کمیشن کو فراہم کریں وہ کارروائی کریں گے۔ جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ قانون میں یہ کوئی دفاع نہیں کہ صرف مجھ اکیلے کو سزا نہ دیں باقیوں کو بھی شامل کریں۔وکیل نے کہاکہ یہ معاملہ تعصب کاہے، الیکشن کمیشن عدالت نہیں۔ جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ آپ کے پاس کمیشن کے فیصلے کے خلاف اپیل کاحق ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ الیکشن کمیشن کو آپ نے ایگزیکٹو فورم مانا تھا، یہ سپریم جوڈیشل کونسل کی طرح ہے، جو کسی بھی جج کے کنڈکٹ پر بطور ایگزیکٹو فورم کارروائی کرتا ہے۔
اس دوران الیکشن کمیشن کے وکیل ابراہیم ستی عدالت میں کھڑے ہوئے اور کہاکہ عدالت اس پیراگراف کو دیکھ لے جس پر تحریک انصاف کے وکیل نے اعتراض کیاہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ ہم سمجھ گئے ہیں، کمیشن نے مختلف بات کی ہے۔ وکیل انور منصور نے کہاکہ کمیشن نے اپنے جواب میں ہمارے کیس کا حوالہ دے کر فراڈ کی بات کی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کمیشن نے ایک عام بات کی ہے تحریک انصاف سے منسوب کرکے نہیں کہا۔چیف جسٹس نے کہاکہ قانون کہتاہے کہ کسی بھی جماعت کے فنڈز ممنوعہ ثابت ہونے پر بحق ریاست ضبط ہوں گے۔ وکیل نے کہاکہ الیکشن کمیشن ایسی انکوائری کرنے کا مجاز نہیں جو بہت زیادہ چھان پھٹک پر مبنی ہو۔جسٹس عمرعطا نے کہاکہ الیکشن کمیشن کسی بھی مرحلے پر سیاسی جماعت کے گوشواروں کی اسکروٹنی کرسکتاہے، قانون میں کوئی پابندی نہیں۔ وکیل انورمنصور نے ایک بار پھر پرانی دلیل دہرائی کہ گوشوارے جمع کراتے وقت ہی اسکروٹنی کی جاسکتی ہے بعد میں نہیں۔کمیشن صرف انہی دستاویزات کو دیکھ سکتاہے جو ریکارڈ پر دستیاب ہوں۔
چیف جسٹس نے کہاکہ فرض کریں اسی شکایت آتی ہے کہ پارٹی سربراہ نے غلط بیانی کی ہے، جیسا کہ اس درخواست میں یہ معاملہ آرٹیکل ایک سو چوراسی تین کے تحت آیا ہے، اگر پی پی او کے آرٹیکل چھ کے تحت یہ معاملہ الیکشن کمیشن کو بھیجنے کا پوچھیں تو آپ کاجواب کیا ہوگا؟۔ کوئی بھی پارٹی اس طرح کی درخواست لاتی ہے تو الیکشن کمیشن کو بھیج سکتے ہیں، برابری کا اصول سب کیلئے ہوگا۔ وکیل نے جواب دیاکہ عدالت اس معاملے پر کمیشن بنا سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ جب متعلقہ فورم یعنی الیکشن کمیشن موجود ہے تواس چھوڑ کرکمیشن کیوں بنائیں؟۔ وکیل بولے کہ قانون میں ایسا طریقہ کارنہیں دیا گیا، الیکشن کمیشن جائزہ نہیں لے سکتا۔ جسٹس عمر عطا نے پوچھاکہ کیا قانون میں تمام ارکان پارلیمان کے اثاثے ظاہر کرنے کی شق ہے؟۔ وکیل نے کہاکہ یہ عوامی نمائندگی کے قانون میں ہے۔ جسٹس عمرعطا نے کہاکہ ایسا قانون میں نہیں بلکہ الیکشن کمیشن نے شفافیت کیلئے خود سے کیاہے۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ کے پاس اس کے علاوہ کیا دلیل ہے کہ آڈیٹر کی رپورٹ کی حیثیت حتمی ہے۔ وکیل نے کہاکہ قانون کے تبدیل ہونے کی بات کررہاہوں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ قانون میںہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے فنڈز کا حساب دیں گی، الیکشن کمیشن یہ حساب لے گا اور اسے یہ اختیار قانون نے دیاہے۔ کہاں لکھاہے کہ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کا دیاگیا حساب کتاب مان لیاتھا؟ کیا انتخابی نشان الاٹ ہونے کا مطلب ہے کہ حساب کتاب تسلیم کرلیاگیا؟۔ وکیل نے کہاکہ اس کا مطلب یہی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ نشان ہرسال الاٹ نہیں ہوتا، پارٹی کے فنڈز گوشوارے ہرسال جمع کرانا ہوتے ہیں۔
جسٹس فیصل عرب نے پوچھاکہ اگر پارٹی کو کسی ممنوعہ ذریعے سے فنڈز آئے تو الیکشن کمیشن کیا کرے گا؟۔ وکیل نے کہاکہ ممنوعہ غیرملکی فنڈز پر کارروائی کا اختیار وفاقی حکومت کو ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت دو چیزوں کاجائزہ لے رہی ہے، کیا غیرملکی ممنوعہ فنڈز لےے گئے، کیا سپریم کورٹ اس معاملے کو براہ راست دیکھ سکتی ہے یا اس کیلئے دوسرا فورم ہے۔وکیل نے کہاکہ تحریک انصاف نے فنڈز کی تمام تفصیلات دی ہیں، سپریم کورٹ اس معاملے کو آرٹیکل ایک سو چوراسی تین کے تحت دیکھ سکتی ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ باہر سے آنے والے فنڈز کا ذریعہ اگر پاکستانی ہیں تو معلوم ہوجائے گا، الیکشن کمیشن اس کی تفتیش کرلے گا، فنڈز دینے والوں کی شناخت سامنے آجائے گی۔ وکیل بولے کہ الیکشن کمیشن اس کی تفتیش نہیں کرسکتا، قانون میں اجازت نہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ تفتیش و تحقیق پر کوئی پابندی نہیں، قانون میں اجازت ہے۔
وکیل انور منصور نے کہاکہ فنڈز کا آڈٹ آڈیٹر نے ہی کرنا ہے اور وہ ایک مکمل آزاد اتھارٹی ہے۔ جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ آڈیٹر پارٹی کا ہوتاہے۔ وکیل نے کہاکہ اگر آڈیٹر نے کوئی غلط کام کیا تو اس کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ یعنی غلط کام پر آڈیٹر کا لائسنس منسوخ ہوجائے گا لیکن جس پارٹی نے ممنوعہ فنڈز لیے وہ ضبط نہیں ہوںگے۔جسٹس عمرعطانے کہاکہ آپ کے دلائل سے ہی دیکھ لیا جائے تو آڈیٹر سے اس غلطی کا سوال کون پوچھے گا؟۔ چیف جسٹس نے کہاکہ قانون کی کسی بھی تشریح سے ایسا نہیں ہوسکتا جو آپ کہہ رہے ہیں۔وکیل نے کہاکہ بغیر قانون اور اتھارٹی کے اکاﺅنٹس کھول کر ازسرنو پڑتال نہیں کی جاسکتی۔
تحریک انصاف کے وکیل نے دفاعی دلائل مکمل کیے تو درخواست گزار کے وکیل اکرم شیخ نے جوابی دلائل کا آغازکیا۔ وکیل نے کہاکہ تحریک انصاف کی جانب سے فنڈز دینے والے افراد کی دستاویزات جعلی اور خودساختہ ہیں، عدالت میں جعل سازی سے تیار کی گئی دستاویزات جمع کرائی گئی ہیں، صرف ایک نہیں تمام کاغذ جعلی ہیں اور یہ ثابت کروں گا۔ اگرکئی شخص مستقل طورپر ترک وطن کرکے بیرو ن ملک چلا گیاتو وہ غیر ملکی تصور ہوگا، اسے پاکستان اوریجن کہنا اس کے فنڈز کو درست ثابت کرنے کیلئے کافی نہیں۔کیس آٹھ ماہ سے چل رہاہے، اوراب یہ دستاویزات تیار کرکے سامنے لائی گئی ہیں، ہم نے امریکا کی فارن ایجنٹس ریگولیٹری اتھارٹی (فارا) کی ویب سائٹ سے تحریک انصاف کے فنڈز کی تفصیلات حاصل کرکے جمع کرائی تھیںان پرمدعا علیہ نے اپنے جواب میں اعتراض نہیں کیا۔
اس موقع پر وکیل انور منصور نے اپنی نشست سے اٹھ کر کہاکہ درخواست گزار اپنی ضمنی درخواست کی نقل مجھے فراہم کریں۔ اس بات پر وکیل اکرم شیخ اچانک جلال میں آگئے اور کہاکہ یہ کوئی طریقہ نہیں ہے، عدالت میں مجھ سے درخواست کی نقل کیوں مانگی گئی، کیا انورمنصور جیسے سینئر وکیل کو نہیں معلوم کہ نقل دینے کا طریقہ کار کیاہے؟۔ میں نے ان کے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کو نقل فراہم کررکھی ہے، وہاں سے لے لیں۔ اتنے بڑے وکیل کو عدالت میں اس طرح نہیں کرنا چاہیے۔ اکرم شیخ کے اس اچانک حملے سے جج اور وکیل سب بھونچکا رہ گئے۔ انور منصور شرمندہ ہوکر اپنی نشست پر بیٹھ گئے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اس طرح ردعمل نہ دیاجائے تو بہترہے، اب آگے بڑھیں۔ اسی دوران اکرم شیخ نے اپنے منشی کو آواز دی، یعقوب، محترم اورقابل عزت انور منصور کو ہماری درخواست کی نقل نہایت ادب واحترام سے پیش کی جائے۔
اس کے بعد اکرم شیخ نے عدالت سے استدعا کی کہ تحریک انصاف کی غیرملکی فنڈنگ امریکی فارا کی ویب سائٹ پر دیکھی جائے۔
اکرم شیخ نے کہاکہ وکیل کاکام مقدمے کو آسان بنانا ہوتاہے، میں ویسے بھی مشکل پسند نہیں، آٹھ برس کی عمر سے غالب کو پڑھنا شروع کیا، اب ستاون سال کی عمر میں بھی چچا غالب کی شاعری پوری طرح سمجھ نہیں آتی۔ مائی لارڈ، دل تھام کے رکھیے، اب اہم چیز سے شروع کرنے لگا ہوں، تحریک انصاف کی دستاویزات میں جس رقم کی انٹری دوہزار بارہ میں دکھائی گئی ہے وہ اسی دستاویز میں دوسرے صفحے پر دوہزار دس میں بطور فارن فنڈنگ لی گئی۔تحریک انصاف نے اصل فنڈز سے کم فنڈنگ دکھائی، حلال کو حرام سے الگ کرکے پاکستان بھیجنے کا دفاع لیاہے۔ وکیل انورمنصور اپنی نشست سے اٹھے اورکہاکہ دوہزار دس میں لیے گئے فنڈز کی دوہزاربارہ میں انٹری کی وضاحت جواب میں کی گئی ہے۔جسٹس عمرعطا نے مسکراتے ہوئے کہاکہ آپ کامطلب ہے کہ دستاویزات کے صفحات پر غلط عنوان لگ گئے ہیں۔ انور منصور نے کہاکہ مجھے افسوس ہواکہ درخواست گزار کے وکیل نے مجھ پر الزام لگایا کہ میں جعلی دستاویزات بنانے کیلئے امریکا گیاتھا۔ اکرم شیخ نے کہاکہ میں نے یہ نہیں کہا، میں نے کہاکہ انورمنصور کا بھی اس دوران امریکاجانا محض اتفاق ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ انورمنصور صاحب، آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں، دل ک مریض ہیں زیادہ سٹریس نہ لیں۔ پھر وکیل اکرم شیخ سے مخاطب ہوکر چیف جسٹس نے کہاکہ جو دستاویزات فارن فنڈز دینے والے افراد کی فہرستوں پر مشتمل ہیں ان کو دیکھنے میں تو ہمیں مہینوں لگ جائیں گے۔وکیل اکرم شیخ بولے، مائی لارڈ‘آپ کی عقابی نظریں کبھی ایسے مواد سے صر ف نظر نہیں کریں گی، تمام دستاویزات جعلی سازی اور فراڈ سے تیار کیے گئے۔ ان کو قانون شہادت کی دفعات باسٹھ اور ایک سو چونسٹھ کے تحت شواہد ریکارڈ میں دیکھاجاتاہے۔
چیف جسٹس نے تحریک انصاف کے وکیل سے پوچھاکہ کیا غیرملکی فندز دینے والے تمام افراد کے نام فارا کی ویب سائٹ پر ہوتے ہیں؟۔ وکیل نے جواب دیاکہ عطیات دینے تمام افراد کے نام نہیں ہوتے، صرف بڑی رقم والوں کے کوائف موجود ہوتے ہیں۔عدالت کو بتادوں کہ یہ دستاویزات میں نے نہیں بنائیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ آپ نے نہیں بنائیں مگر آپ دفاع کے وکیل ہیں ، جواب آپ کے ذمے ہے۔ اس مرحلے پر ہم کوئی نتائج نہیں اخذ کررہے۔ جسٹس عمرعطا نے پوچھاکہ کیا عدالت میں جمع کرائی گئی عطیہ دہندگان کی دستاویزات فارا کی ویب سائٹ کی فہرست سے مطابقت رکھتی ہے؟۔وکیل نے کہاکہ ہونا تو ایسے ہی چاہیے، جن لوگوں نے عطیات دیے ہیں فارا کے پاس ان کاریکارڈ ہوگا۔
وکیل اکرم شیخ نے کہاکہ میرا مقدمہ عمران خان کے جھوٹے بیان حلفی کاہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ بیان حلفی کے غلط کاانحصار ممنوعہ غیرملکی فنڈز ثابت ہونے پر ہے۔ وکیل نے کہاکہ مائی لارڈ‘ آپ نے کہاتھا اگر ضرورت پڑی تو وزرات داخلہ کو فریق بنائیں گے، صرف الیکشن کمیشن ہی اس کا فورم نہیں، فارن فنڈنگ حساس معاملہ ہے، افسوس کہ اسی طرح کے الزامات پر ہمارے ملک میں منتخب سیاسی حکومتیں ختم کی گئیں، ضروری ہوگاکہ ان چیزوں کو واضح طرح طے کیاجائے، وزارت داخلہ کو فریق بنانے کی درخواست بھی دی تھی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کاعلم ہے، قانون کے مطابق کام کررہے ہیں۔
وکیل نے کہاکہ میرا مقدمہ تحریک انصاف پر پابندی یا اس کے فندز ضبط کرنے کا نہیں، وہ حکومت اور الیکشن کمیشن کاکام ہے۔میرا مقدمہ پی ٹی آئی کے سربراہ کے جھوٹے بیان حلفی کاہے۔جو جعلی دستاویزات پارٹی نے دی ہیں اس پر تو معلوم نہیں پابندی سے زیادہ کیا کچھ ہوسکتاہے۔ جسٹس عمرعطا نے پوچھاکہ جن افراد نے عطیات دیے ان کی شہریت بھی معلو م کرنا ہوگی، آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ فراہم کی گئی دستاویز اور فارا میں آئے عطیہ دہندگان کے نام مختلف ہیں؟۔ وکیل نے کہاکہ ہم نے فارا سے لے کر ناموں کی فہرست دی تھی اس کی مدعا علیہ نے نفی نہیں کی اور اپنی فہرست دیدی جس میں مختلف نام ہیں۔اس کیلئے ضروری ہے کہ امریکا کے قانون کو دیکھ لیاجائے، فارا کے قانون میں تمام عطیہ دہندگان کے کوائف ویب سائٹ پر شائع کیے جانا ضروری ہے۔جسٹس عمرعطا نے کہاکہ مدعا علیہ نے اپنے جواب میں جو مﺅقف یا دفاع لیاہے اس کو آپ وزن نہیں دے رہے۔ وکیل نے کہاکہ عدالت فارا کی سائٹ یا قونصلر کے ذریعے بھی عطیہ دینے والوں کی تصدیق شدہ فہرست منگواسکتی ہے۔جسٹس عمر عطا نے کہاکہ ہم اور آپ ایک جگہ ہیں، اگلی بات اہم ہے اس پر چلیں۔ وکیل نے کہاکہ کلائمکس اور ڈراپ سین میں وقفہ کم سے کم ہو تاکہ دلچسپی زیادہ سے زیادہ رہے۔ مدعا علیہ کہتاہے کہ حلال فنڈز پاکستان بھیج دیے، حرام وہیں چھوڑ دیے۔ جسٹس عمر عطا نے کہاکہ یہ لفظ استعمال نہ کریں، اصل لفظ ممنوعہ ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ پی پی او کے آرٹیکل چھ کے تحت الیکشن کمیشن یہ معاملہ دیکھ سکتاہے۔ وکیل نے کہاکہ ہم سپریم کورٹ مقدمہ لے کر آئے ہیں، مدعا علیہ بھی عدالتی اختیار کو مانتا ہے۔ جسٹس عمر نے کہاکہ درخواست گزار اور مدعا علیہ کے ماننے سے عدالت کو سماعت کا اختیار نہیں مل جاتا۔
جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ آپ عدالت سے فارن فنڈنگ پر فیصلہ نہیں بلکہ بیان حلفی پر ڈیکلریشن چاہتے ہیں۔ وکیل بولے کہ محدود کیس لایاہوں، یہ عدالت کےلئے کافی وشافی ہے، ہم پر اپنے جواب میں تحر یک انصاف نے اقلیتوں کی توہین کا الزام لگایا جیسے خود یہ اقلیت کی بہت تکریم کرتے ہوں، انہوں نے سات سو صفحات کی دستاویزات میں اقلیت کے عطیہ دہندگان کے نام ہی غائب کر دیے ہیں، مدعا علیہ نے دستاویزمیں جو میناکاری کی ہے اب اس سے باہر نہیں جاسکتے۔ وکیل انور منصور نے عدالت کے سوال پر بتایاکہ بعض عطیہ دہندگان کی معلومات حاصل نہیں ہوسکیں کیونکہ بہت سے لوگ کارڈ سے پیسے بھیجتے ہیں اور نام ظاہرنہیں کرتے۔ جسٹس عمر عطا نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ کارڈ سے پانچ ہزار ڈالرز دینے والے بھی اپنی شناخت نہیں بتاتے۔
چیف جسٹس نے کہاکہ مدعا علیہ کو عدالت میں عطیہ دینے والوں کی کوائف کے ساتھ وضاحت کرنی چاہیے۔وکیل نے کہاکہ جو ممنوعہ فنڈز تھے وہ امریکا میں ہی رہ گئے۔جسٹس عمر نے پوچھاکہ ممنوعہ فنڈز وہاں کن مقاصد پر خرچ کیے گئے۔ وکیل انورمنصور نے کہاکہ یہ پارٹی کے ایجنٹ کو ہی علم ہوگا، اگر کوئی شخص امریکا میں غلط کام کرتاہے تو یہاں پارٹی کی لیڈر شپ اس کی ذمہ دار نہیں، ہم نے ایجنٹ کو بتایا ہوا تھا کہ کون سے پیسے فنڈ کے طور پر لیے جاسکتے ہیں، اگر اس نے ہدایات پر عمل نہیں کیا تو پارٹی کیاکرے۔وکیل اکرم شیخ اس پر بولے کہ ممنوعہ فنڈز سے پارٹی انکار نہیں کررہی ، یہ کہتے ہیں کہ صرف حلال یہاں لے کرآئے۔جسٹس عمر عطا نے کہا کہ جب وہاں پارٹی کا ایجنٹ پارٹی کی پالیسی اور منشور کی تشہیر کرتاہے تو اس کے اس اقدام کی بھی پارٹی ذمہ دار نہیں ہوگی؟۔ وکیل اکرم شیخ نے کہاکہ عمران خان نے ممنوعہ فنڈز نہ لینے کا بیان حلفی دیا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اگر اتنی بڑی تعداد میں مختلف ذرائع سے بیرونی فنڈز آتے ہوں تو بیان حلفی دینے والا صرف اپنی معلومات کے مطابق کہنے کا ذمہ دارہے۔ یہ معاملہ بہت تفصیلی انکوائری کا متقاضی ہے۔ وکیل نے کہاکہ انکوائری کس چیز کی ہوگی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہرچیز کی انکوائری ہونا چاہیے۔عمران خان کا سرٹیفیکیٹ اگر ان کی معلومات کے مطابق ٹھیک تھا تو اس کے کیا اثرات ہوسکتے ہیں؟۔ فرض کریں اگر سوروپے کاعطیہ ملا، ستر روپے پاکستان آئے اور تیس جو ممنوعہ تھے وہاں رہ گئے ، تب کیا کہیں گے؟۔وکیل نے کہاکہ اس ملک میں ہم نے ایک وزیراعظم کو پھانسی پر چڑھایا کہ اس نے ایک شخص کو قتل کرنے کی ہدایت کی تھی۔ امریکا میں ایجنٹ نے پی ٹی آئی کے کہنے پر فنڈز اکھٹے کیے۔ پارٹی نے جواب میں یہ نہیں لکھاکہ ایجنٹ نے ہماری اجازت کے بغیر ممنوعہ فنڈز لیے۔ پھربولے کہ فقہ سے مثال دیتاہوں کہ ایک من دودھ میں اگر پیشاب کا ایک قطرہ مل جائے تو اسے نجس کردیتاہے۔جسٹس عمر نے کہاکہ یہ دوسری مثال ہے جو آپ نے تہذیب کے مطابق نہیں دی، آپ نہایت نفیس اور شائستہ شخصیت ہیں، مہذب مثالیں دیں، پہلے آپ نے وزیراعظم والی مثال دی۔ (اشارہ بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کی طرف تھا)۔
وکیل اکرم شیخ نے کہاکہ میں نے تو حدیث سے مثال دی ہے اگر مائی لارڈ کی جمالیاتی حس پر گراں گزری تو معافی چاہتا ہوں۔ عدالت پوچھے کہ کیا تحریک انصاف نے ممنوعہ فنڈز لینے پر اپنے ایجنٹ کے خلاف کوئی کارروائی کی؟۔ سماعت کل تک کیلئے ملتوی کردی گئی۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے