کالم

اس کے بعد کیا

اگست 9, 2017 4 min

اس کے بعد کیا

Reading Time: 4 minutes

خود کو آئینی اعتبار سے اس ملک کے تمام اداروں پر ”بالادست“ کہلوانے کے گھمنڈ میں مبتلا ہماری قومی اسمبلی پیر کی شام ہوئے اپنے اجلاس میں یہ طے ہی نہ کر سکی کہ تحریک انصاف کے رہنما پر سنگین نوعیت کے الزامات لگانے والی عائشہ گلالئی اس کی رکن ہیں بھی یا نہیں۔ ڈاکٹر شیریں مزاری، جنہوں نے برسوں تک اس ملک کے بچوں اور بچیوں کو ”دفاعی امور“ کی گہرائیاں اور پیچیدگیاں بطور نصاب پڑھائی ہیں، اس بات پر بضد رہیں کہ خواتین کے لئے مخصوص نشستوں پر ”نامزد“ ہوئی عائشہ گلالئی، اپنے چیئرمین کے خلاف مبینہ طورپر جھوٹے الزامات لگاکر ایوان کی رکنیت کے لئے نااہل ہوچکی ہیں۔ نازک اندام دِکھتی عائشہ کے خلاف ڈاکٹر صاحبہ کی قیادت میں تحریک انصاف کی تمام خواتین اراکین اسمبلی آوازیں کستی رہیں وہ مگر اپنی نشست پر براجمان رہیں اور بالآخر ڈپٹی اسپیکر کو اپنا خطاب سننے پر مجبور بھی کردیا۔ پیر ہی کی صبح نو منتخب وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے وزیراطلاعات کی درخواست پر قومی اسمبلی کے سپیکر کو قائل کردیا کہ عوام کے براہِ راست ووٹوں سے منتخب ہوئی قومی اسمبلی کی کارروائی ٹیلی وژن چینلوں پر Live دکھانا ضروری ہے۔ عائشہ گلالئی کی تقریر اور اس کی وجہ سے برپا ہوا ہنگامہ لاکھوں افراد نے گھر بیٹھے دیکھ لیا۔ انہیں یقیناً قومی اسمبلی کی پہلی کارروائی کو براہِ راست کسی بھی ایڈیٹنگ کے بغیر دیکھ کر خوب اندازہ ہوگیا ہوگا کہ ہمارا ”معزز ا یوان“ قومی امور کے بارے میں کتنا ”سنجیدہ“ ہے۔ دریں اثناءسپریم کورٹ سے نااہل قرار پائے نواز شریف اپنی معزولی کے بعد چند روز مری میں گزار کر اسلام آباد کے پنجاب ہاﺅس میں براجمان ہو چکے ہیں۔ سینئر صحافیوں کے وفود سے ان کی ملاقاتیں بھی ہو رہی ہیں۔ صحافیوں کو بتانے کے لئے ان کے پاس مگر کچھ بھی نہیں۔ ہر سوال کے جواب میں”آپ کا اس ضمن میں کیا مشورہ ہے“والا جوابی سوال اٹھادیتے ہیں۔ ہمارے صحافیوں کے ذہن اللہ کے فضل سے ویسے ہی بہت زرخیز ہےں۔ قوم کی رہنمائی کا ذمہ بھی انہوں نے اپنے سر لے رکھا ہے۔ میاں صاحب کے سوالات ایک طویل خطاب کی گنجائش پیدا کردیتے ہیں۔ میرے کئی سینئر اور قابلِ احترام ساتھیوں نے اس گنجائش کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ کہا یہ جارہا ہے کہ نواز شریف صاحب اپنی معزولی کے بعد اسلام آباد سے بذریعہ موٹروے لاہور جانے کا ارادہ باندھے ہوئے تھے۔ چند صحافیوں نے مگر انہیں یاد دلایا کہ موٹروے کے ذریعے ان کی لاہور روانگی ”جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا“ والا ماحول پیدا کرے گی۔ بہتر یہی ہے کہ وہ شیر شاہ سوری کی بنائی جرنیلی سڑک سے جسے سرکاری طورپر جی ٹی روڈ اور اب شاید M-1 یا M-2کہا جاتا ہے، کے ذریعے سفر کریں۔ اپنے دونوں اطراف گنجان آبادی والی اس شاہراہ پر میاں صاحب نمودار ہوئے تو افتخار چودھری کی برپا کی ہوئی عدلیہ بحالی کی تحریک کا زمانہ لوٹ آئے گا۔ تاج اچھالنے اور تخت گرانے کے امکانات روشن ہو جائیں گے۔ ”سادہ لوح“ میاں صاحب ان ”جذباتی“ صحافیوں کے جھانسے میں آگئے۔ اپنی اتوار کے روز لاہور کے لئے روانگی کومو¿خر کردیا۔ اب ”پوری تیاری“ کے ساتھ بدھ کی صبح جی ٹی روڈ سے سفر کرنے کا ارادہ ہے۔ اپنی جان کی امان پاتے ہوئے میں یہ دعویٰ کرنے پر مجبور ہوں کہ اپنی معزولی کے بعد مری میں بیٹھے نواز شریف صاحب نے ارادہ جی ٹی روڈ سے جانے ہی کا بنا رکھا تھا۔ ان کی اپنی جماعت کے بے تحاشہ سرکردہ لوگ مگر انہیں اس سفر سے بازرکھنا چاہ رہے تھے۔ مجھے ان سرکردہ لوگوں کے نام بھی معلوم ہیں۔ وقت آنے پر بتا بھی دئیے جائیں گے۔ نام لینا اس وقت ضروری نہیں۔ زیادہ اہم ”اس کے بعد کیا؟“ والا سوال ہے۔ یہ بات درست ہے کہ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت نے جس کے فیصلے کے خلاف اپیل کی کوئی گنجائش نہیں نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ کے عہدے کے لئے نااہل قرار دے کر انتہائی ذلت آمیز انداز میں گھر بھیج دیا۔ اس ”نااہلی“ کے باوجود نوازشریف کے نامزد کردہ شاہد خاقان عباسی بھاری بھر کم اکثریت کے ساتھ وزیراعظم منتخب ہوگئے۔ بعد ازاں انہوں نے نواز شریف صاحب ہی سے طویل مشاورت کے بعد اپنی کابینہ بھی تشکیل دے دی۔ اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلا اور آبادی کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ 2008ءسے نواز شریف صاحب کے چھوٹے بھائی کے مکمل کنٹرول میں ہے۔
شاہد خاقان عباسی اور شہباز شریف کی اولین ترجیح لہذا آفتوں کے اس موسم میں سرجھکا کر ا پنی حکومتوں کی آئینی مدت مکمل کرنا ہے۔ نواز شریف جی ٹی روڈ پر سفر کرتے ہوئے ”سب کچھ“ بتانا شروع ہوگئے تو ”ٹلیاں کھڑک“ جائیں گی۔ ہماری ریاست کے دائمی ادارے جو اب تک بہت سکون سے نواز شریف کو انگریزی محاورے والے Thousands Cutsلگاکر تاریخ کے کوڑے دان میں پھینکنے کو تیار تھے کوئی ”غیرمعمولی اقدام“ اٹھانے کے لئے مشتعل ہوسکتے ہیں۔شاہد خاقان عباسی اور شہباز شریف ریاستی اداروں کو اشتعال دلانا نہیں چاہتے۔ پنجابی والے ”نیویں نیویں“ ہوکر بُرا وقت گزارنا چاہتے ہیں۔ اس امید کے ساتھ کہ ان کا صلح جو رویہ شاید ریاست کے دائمی اداروں میں نواز شریف کو معاف کردینے کی گنجائش پیدا کردے۔ نواز شریف ان حضرات کے سامنے خود غرض اور خودکش نظر آنا نہیں چاہتے۔ ”خود تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے“ والا الزام بھی اپنے سر نہیں لینا چاہتے۔ میرے چند محترم صحافیوں نے انہیں جی ٹی روڈ کے ذریعے سفر کرنے کا ”مشورہ“ دے کر نواز شریف کی مشکل آسان کردی۔ اپنے صلح جو وفاداروں کو معزول ہوئے وزیراعظم بآسانی یہ دکھاپائے کہ ”لوگ“ ان سے کیا توقع رکھتے ہیں۔ قصہ مختصر میرے محترم اور بزرگ صحافی خواہ مخواہ بدنام ہوئے۔ انہوں نے درحقیقت وہی ”مشورہ“ دیا جو نواز شریف کے اپنے ذہن میں تھا۔ نواز شریف کو خوب علم ہے کہ جی ٹی روڈ کے ذریعے ان کا لاہور تک کاسفر ہماری ریاست کے دائمی اداروں میں موجود چند طاقت ور اور فیصلہ ساز لوگوں کو پسند نہیں آئے گا۔ منگل کی صبح یہ کالم لکھتے ہوئے مجھے اس وقت بھی شدید خدشہ ہے کہ کسی نہ کسی طرح نواز شریف کو بذریعہ جی ٹی روڈ لاہور جانے سے روک دیا جائے گا۔ وہ اگر یہ روٹ اختیار کرنے پر بضد رہے تو کچھ نہ کچھ ایساضرور ہوگا جو انہیں اپنا سفر لاہور پہنچنے سے پہلے ہی روکنے پر مجبور کردے گا۔میرے تمام ترخدشات کے باوجود میاں صاحب بدھ کی صبح اسلام آباد سے بذریعہ جی ٹی روڈ سفر کرتے ہوئے لاہور پہنچ بھی گئے تو ان کا اگست 1977ءہونا لازمی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو پر اس مہینے قتل کا مقدمہ قائم ہوا تھا۔ اگست 2017ءمیں طاہر القادری کینیڈا سے ”قصاص“ کا مطالبہ کرتے ہوئے لاہور آگئے ہیں۔ انہیں اس زمانے کا احمد رضا قصوری بنانا عین ممکن دکھائی دے رہا ہے۔

بشکریہ نوائے وقت

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے