کالم

پرچی

اگست 13, 2017 5 min

پرچی

Reading Time: 5 minutes

نواز شریف کے اپنے سیاسی کیرئیر کے اہم ترین خطاب میں 6 گھنٹے باقی ہیں مگر کالم کی ڈیڈ لائن 3 بجے کی ہے۔ لاہور پہنچ کر نواز شریف اپنی تقریر میں کیا کہیں گے اور اس کا ملکی سیاست پر کیا اثر ہوگا یہ کہنا مشکل ہے مگر شاید اتنا مشکل بھی نہیں۔ انہوں نے ابھی تک ”کچھ بھی نہ کہا، اور کہہ بھی گئے“۔ ملکی تاریخ اور سیاست کی سوجھ بوجھ رکھنے والے اتنا تو جان چکے ہیں کہ نواز شریف کس بات کا رونا رو رہے ہیں۔ خدا خدا کر کے 1985ء کے نواز شریف کو بتیس سال بعد ووٹ کی پرچی کے تقدس کا خیال آ ہی گیا ہے ۔صبح کا بھولا شام کو گھر آ جائے تو اسے بھولا نہیں کہتے۔ جرنیل کی پرچی کے باعث اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہونےوالا سیاستدان اب تو کئی بار عوام کے ووٹ کی پرچی کے زور پر وزیر اعظم رہ چکا ہے۔ ایسے شخص کو بار بار محض شریک جرم قرار دینے کی بجائے جمہوریت کے مقدمے میں وعدہ معاف گواہ تو بنایا جا ہی سکتا ہے ۔ اگر محمد نواز شریف شراکت جرم سے تائب ہو کر جمہوریت کیلئے کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیے بیٹھے ہیں تو عوام کیلئے بھی ان کی باتوں کو سننا اور سمجھنا لازمی ہو گا۔ جمہوریت کے اس مقدمے کے وعدہ معاف گواہ کو رعائت دینے کی بجائے ان کے ماضی میں اپنے شرکائے جرائم کا حمایتی ہونے کا ذکر اب بے معنی ہے۔ نواز شریف کی نا اہلی کا معاملہ اتنا سادہ ، قانونی یا آئینی نہیں جتنا بتایا جا رہا ہے۔ نا اہلی کے اس فیصلے کے بین الاقوامی اور قومی پہلو ہیں۔چین اور سعودی عرب کی پاکستان میں جمہوریت سے محبت اتنی ہی ہے جتنی امریکی خیراتی اداروں کو رہی ہے۔ ان ممالک کو ہمیشہ سے مشاورت اور عوامی رائے پر یقین رکھنے والے مقبول سیاست دانوں سے زیادہ ”فوری ڈلیوری“ کرنے والے فوجی حکمران پسند رہے ہیں۔اسی تناظر میں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ نواز شریف کو انکے عہدے سے ہٹانے کی کوششیں جنرل راحیل شریف کے دور سے جاری تھیں۔کالی رات میں جب قاتل نے کالے دستانے پہنے ہوں تو آلہءقتل پر قاتل کے نشانات نہیں ملتے۔ جن سیاسی الزامات و عدالتی ریمارکس کے ذریعے کئی سال سے حکمران جماعت اور شریف خاندان کو دھوبی پٹکا لگایا جاتا رہا ان الزامات اور عدالتی تاثرات کا حتمی فیصلہ آج تک نہیں آیا۔ نا اہلی ہوئی بھی تو اس الزام میں جو درخواست گزار نے لگایا نہیں اور سزا سنائی گئی تو اس شخص کو جسے ذاتی طور پر بلایا نہیں ۔مگر سیاسی و قانونی ریشہ دوانیوں میں مصروف لوگوں کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ تذلیل ایک الزام میں ہو اور سزا کسی دوسرے جرم میں۔ پاناما کیس کی سماعتوں اور پریس کانفرسوں میں ریمارکس و بیانات کے ذریعے جتنا کیچڑ اچھالا گیا اس میں نا اہلی کے فیصلے کی اصل وجوہات دب گئیں اور ان کی اہمیت ہی نہ رہی۔ ڈاکٹر ملیریا کا علاج کرتے رہے اور مریض ہارٹ اٹیک سے مر گیا” اللہ کی مرضی”۔ اس صورتحال میں ایک وزیر اعظم اپنی نا اہلی کے ایسے فیصلے پر اگر عوام سے رجوع نہیں کرے گا تو کیا گھر بیٹھ کر مٹھائیاں بانٹے گا۔ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ نواز شریف کی تنقید کا ہدف عدلیہ سے زیادہ فوجی اسٹیبلیشمنٹ ہے مگر یہی بات ڈھکے چھپے الفاظ میں کی جا رہی ہے۔یہ بات بھی درست ہے کہ جب نواز شریف بطور مدعی سست ہوں گے تو بیچارے تجزیہ کار بطور گواہ چست کیونکرہو سکتے ہیں۔ چار سال تک اسٹبلیشمنٹ کی حوصلہ افزائی کرنے والا وزیر اعظم اگر آج مایوسی کے عالم میں ووٹ کی پرچی کی عزت اور ناموس کیلئے آواز بلند کر رہا ہے تو سوالات توویسے ہی ہونگے جو عائشہ گلا لئی سے پوچھے گئے۔ وہی کہ چار سال خاموش کیوں رہے اور ووٹ کی پرچی کی حرمت کو اتنا عرصہ داو¿ پر کیوں لگائے رکھا؟ ان تمام سوالات کی اہمیت اپنی جگہ مگر ایک سیات دان کی سیاسی اور بشری نا اہلیوں کو اسکی آئینی اور قانونی نا اہلی کا جواز نہیں بنایا جا سکتا۔ نواز شریف بطور وزیر اعظم سیاسی اعتبار سے کتنے بھی نا اہل ہوں ان کی اس نا اہلی کی سزا عوام اور آئین پاکستان کو نہیں دی جا سکتی۔ بے شک ان کی سیاسی نا اہلی اس بات سے بھی عیاں ہے کہ وہ آئین سے سنگین غداری کے ملزم جنرل مشرف کا مقدمہ آگے بڑھانے میں نا کام رہے اور اپنا آئینی کنٹرول و ڈسپلن قائم نہیں رکھ سکے۔اسی پس منظر میں آج ہمارے انصاف اور سلامتی کے ضامنوں نے ایک اور وزیر اعظم کو ”نشان عبرت“ تو بنا دیا ہے مگر ساتھ ہی عدل و انصاف و جمہوریت کو بھی سوالیہ نشان بنا دیا ہے۔
بہرحال ”یہ سیاستدان لوگ بھی عجب سادہ ہیں کہ جس کے سبب بیمار ہوئے اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں“۔ جس آئین میں ترامیم کر کر کے تھک گئے کہ ووٹ کی پرچی کی عزت بحال کی جا سکے اسی آئین میں ووٹ کی پرچی کو بوٹوں تلے روندنے والوں نے بھی ایسی ترامیم کیں جو آج تک آئین میں وائرس کی مانند موجود ہیں۔ اب اگر آرٹیکل 62،63 میں ترمیم بھی کر لی جائے تو کیا فرق پڑے گا؟ اٹھارویں ترمیم میں آئین سے سنگین غداری والی شق 6 میں اضافہ کیا گیا کہ کوئی سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ مارشل لاءکی توثیق نہیں کرے گی۔اسی تسلسل میں اعلیٰ عدلیہ کے ضابطہ اخلاق میں کسی مارشل لائی فرمان پر حلف اٹھانے کی ممانعت کی گئی۔ ان ترامیم کے بعد جمہوریت کے محفوظ ہونے کا جشن بھی منایا گیا۔ مگر جب غلیل کے حق میں دلیل آ جائے تو وہ غلیل سے بھی زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔”عذر گناہ بد تر از گناہ”۔
افسوس اس بات کا ہے کہ آج مارشل لاءنہیں ، کوئی ایمرجنسی پلس نہیں، کوئی پی سی او نہیں مگر پھر بھی ایک وزیر اعظم سیاسی و ”غیر سیاسی“ ریشہ دوانیوں کا شکار ہونے کا گلہ کر رہا ہے اور یہ گلہ بے جواز بھی نہیں لگتا۔وہ جو کہتے ہیں کہ انصاف ہونا ہی کافی نہیں انصاف ہوتا نظر آنا بھی ضروری ہے،بد قسمتی سے ایسا نظر نہیں آ رہا۔ جب تک سیاسی اورعسکری قیادت کا بلا تفریق احتساب نہیں ہو گا ، قومی سلامتی کے ادارے پارلیمنٹ اور منتخب حکومتوں کو جواب دہ نہیں ہوں گے، ووٹ کی پرچی کی حرمت کا سوال اٹھتا رہے گا چاہے یہ سوال ”نا اہل“ وزیر اعظم کی طرف سے اٹھایا جائے یا کسی خود ساختہ اہل فوجی حکمران کی طرف سے ۔ہماری عدالتوں کو ووٹ کی پرچی کی حرمت بحال کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا وگرنہ محض آئین پر حلف اٹھا کر خود کو آئین سے وفادار ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ نواز شریف اب لاہور میں جو مرضی اعلان کریں یا نہ کریں وہ انہوں نے ووٹ کی پرچی کی حرمت کا معاملہ اٹھا کر عوام سے ایک ایسا سوال کیا ہے جس کا جواب آئینی عدالتوں میں نہ ملنے کے بعد اب عوامی عدالت میں ہی دیا جا سکتا ہے۔ مگر اسکا ہر گز یہ مطلب بھی نہیں کہ عوامی عدالت پانچ سے دس ہزار نفوس پر مشتمل کسی جلسے جلوس یا ریلی کا نام ہے۔ جس طرح عدالت کے ججز صاحبان کو کمرہ عدالت میں کم اور اپنے تحریری فیصلوں کے ذریعے زیادہ بولنا چاہیے اسی طرح اگر بات عوامی عدالت کی ہے تو پھر اس عدالت کا فیصلہ بھی جلسے جلوسوں اور ان میں کی جانے والے تقریروں میں نہیں بلکہ ووٹ کی اس پرچی سے ہونا چاہیے جس کی عزت و ناموس کا خیال آج سابق وزیر اعظم کو بھی آ گیا ہے۔ ”دیر آئد درست آئد“۔

بشکریہ نوائے وقت

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے