کالم

کاش مجھے کوئی سمجھا پائے

اگست 16, 2017 4 min

کاش مجھے کوئی سمجھا پائے

Reading Time: 4 minutes

اپنے مخالفین کو قائل کرنا نواز شریف صاحب کے لئے یقینا بہت مشکل ہے مگر اپنے ہمدردوں کو بھی وہ ابھی تک واضح انداز میں یہ بتا نہیں پائے ہیں کہ وہ کون ”سازشی“ تھے جنہوں نے سپریم کورٹ کے پانچ عزت مآب ججوں کے ہاتھوں ان کی نااہلی کا بندوبست کیا۔
ہمارے آزاد اور مستعد میڈیا کی بدولت لوگوں کی ایک مو¿ثر تعداد کو خبر تو یہ ملی ہے کہ 2016ءکے اپریل میں پانامہ دستاویزات کسی نہ کسی طرح منظرعام پر آگئیں۔ ان دستاویزات میں دُنیا بھر کے کئی طاقت ور حکمرانوں کے نام بھی شامل تھے جنہوں نے مبینہ طورپر اپنے اختیارات کو حرام دولت جمع کرنے کے لئے استعمال کیا۔ یہ دولت بالآخر آف شور کمپنیاں قائم کرنے میں صرف ہوئی۔ ان کمپنیوں کے ذریعے لندن جیسے شہروں میں بے نامی جائیدادیں خریدی گئیں۔ نواز شریف کے بچوں کے نام بھی ایسی جائیدادیں خریدنے والوں میں شامل تھے۔
شریف خاندان کے نام پانامہ دستاویزات میں آئے تو پاکستان میں سوالات کا طوفان اُٹھ کھڑا ہوا۔ عمران خان،شیخ رشید اور سراج الحق جیسے قدآور سیاستدان ان سوالات کو لے کر سپریم کورٹ چلے گئے۔ سپریم کورٹ نے ان سوالات کو پہلے پہل ”فروعی“ قرار دے کر خود کواس معاملے سے الگ رکھنا چاہا۔ عمران خان اور ان کی جماعت نے مگر ہمت نہ ہاری۔ اپنے حامیوں کو اسلام آباد پہنچ کر اس شہر کو لاک ڈاﺅن کرنے کی کال دے دی۔ لوگ جمع ہوگئے تو سپریم کورٹ نے فساد خلق کو روکنے کے لئے پانامہ دستاویزات کی وجہ سے اُٹھے سوالات کا روزانہ سماعت کی بنیاد پر جواب ڈھونڈنے کا فیصلہ کر لیا۔
نظر بظاہر شریف خاندان پانامہ دستاویزات کے حوالے سے اٹھائے سوالات کا مو¿ثر جواب نہ دے پایا۔ ان جوابات کی عدم موجودگی نے دوعزت مآب ججوں کو نواز شریف کے لئے ”گاڈ فادر“ جیسے الفاظ ادا کرنے پر مجبور کر دیا۔ پانچ رکنی بنچ کے دیگر تین معزز اراکین نے البتہ ریاست کے 6اداروں کے نمائندوں پر مشتمل ایک JITقائم کی۔ اس کمیٹی نے نواز شریف سمیت پانامہ دستاویزات میں آئے ان کے عزیزوں اور بچوں کو بلاکر مختلف سولات اٹھائے۔
نظر بظاہر شریف خاندان JIT کو بھی مو¿ثر انداز میں مطمئن نہ کرپایا۔ اس کی حتمی رپورٹ آجانے کے بعد سپریم کورٹ کا 5رکنی بنچ دوبارہ ملا۔ نواز شریف کو آئین میں طے شدہ صادق اور امین کے معیار کی روشنی میں وزارتِ عظمیٰ کے عہدے کے لئے نااہل قرار دے دیا گیا۔ اب ان کے خلاف بدعنوانی کے الزام میں مقدمات بھی قائم ہوں گے۔ احتساب عدالتوں میں شریف خاندان اپنا مو¿ثر دفاع پیش کرنے میں ناکام رہا تو کڑی سزائیں نواز شریف اور ان کے بچوں کا مقدر ہوں گی۔
پانامہ دستاویزات کے حوالے سے ہوئی عدالتی کارروائی کے بارے میں شریف خاندان کا بھی ایک مو¿قف ہے۔ اس مو¿قف کو اندھی نفرت اور عقیدت میں تقسیم ہوئی ہماری قوم کے ایک معتدبہ حصے نے قبول بھی کیا ہے۔ JITکی تشکیل اور اس کے طریقہ کار پر غیر جانب دار مبصرین کی جانب سے بھی تحفظات کا اظہار ہوا ہے۔ آئین اور قانون کی باریکیوں کی خوب سمجھنے والے کئی افراد کا یہ خیال بھی ہے کہ سپریم کورٹ کو نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ سناتے ہوئے بہت احتیاط سے کام لینا چاہیے تھا۔
چونکہ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت سے ہوئی نااہلی کے خلاف اپیل کی کوئی گنجائش نہیں لہذا کسی رکنِ اسمبلی کی نااہلی کا فیصلہ سناتے وقت انصاف بھرپور انداز میں ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے تھا۔
اپنی نااہلی کے بعد نواز شریف نے جی ٹی روڈ سے لاہور واپسی کا سفر کیا تو اس دوران ان کے حامیوں کی ایک کثیر تعداد نے اس رائے کا اظہار کیا کہ نااہل وزیر اعظم کے ساتھ انصاف نہیں زیادتی ہوئی ہے۔ ان کی اس ضمن میں جذباتی رائے لیکن حقائق کو تبدیل نہیں کرسکتی۔ پاکستان کے تیسری بار منتخب ہوئے وزیر اعظم اپنے عہدے کے لئے نااہل قرار دے کر فارغ کردئیے گئے ہیں۔ ان کی وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر واپسی کا اب کوئی امکان نظر ہی نہیں آرہا۔ نواز شریف صاحب کے بے حد جذباتی حامی بھی بالآخر رو دھوکر اس حقیقت کو ہضم کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔
وہ یہ حقیقت شاید اس لئے بھی ہضم کرنے پر مجبور ہوجائیں گے کیونکہ اپنی فراغت کے بعد سے ابھی تک نواز شریف صاحب انہیں یہ سمجھا نہیں پائے ہیں کہ ہماری ریاست اور عدالتوں میں موجودکن افراد نے کیوں اور کیسے ان کے خلاف ایک گہری سازش تیار کرکے انہیںایسے انجام تک پہنچایا۔ شریف خاندان اس تناظر میں اپنا ورژن ٹھوس انداز میں بیان کرنے کی سکت نہیں رکھتا تو اس کے لئے زیادہ بہتر یہی ہے کہ اپنے جذبات پر قابو پانے کے بعد خود کو کڑی سزاﺅں سے بچانے کے لئے احتساب عدالتوں کے روبرو اپنے مو¿ثر دفاع کی تیاری کرے۔
نواز شریف تواپنے خلاف ہوئی ”سازش“ کو واضح انداز میں ہمیں بتا نہیں پائے ہیں۔ راولپنڈی کی لال حویلی میں لیکن ایک بقراطِ عصر پائے جاتے ہیں۔موصوف عمران خان کے ہمراہ نواز شریف کے خلاف ایک پٹیشن لے کر سپریم کورٹ کے روبرو پیش ہوئے تھے۔ ایک مسلّمہ عقلِ کل ہوتے ہوئے بقراطِ عصر نے ایک ماہر وکیل کی طرح اپنی اپیل کی حمایت میں دلائل بھی دئیے تھے۔ان کی قانونی مہارت وبصیرت کو بہت احترام سے سناگیا تھا۔
نواز شریف کو اپنی قانونی مہارت وبصیرت سے فارغ کروانے کے بعد مگر بقراطِ عصر رعونت بھری یاوہ گوئی پر مجبور نظر آرہے ہیں۔ 13 اگست 2017ءکی شب انہوں نے جشنِ فتح منانے کے لئے راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ایک جلسہ کا اہتمام بھی کیا۔ عمران خان صاحب جو نئے وزیرا عظم کے انتخاب کے دوران ہمارے بقراطِ کو نامزد کرنے کے باوجود انہیں اپنا ووٹ دینے قومی اسمبلی میں تشریف نہیں لائے تھے بطورِ خاص اس جلسے میں تشریف لے گئے اور ایک دھواں دھار تقریر کے ذریعے پاک فوج اور سپریم کورٹ کو یقین دلایا کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ ان دو اداروں کی حمایت میں لاکھوں پاکستانیوں کو ان کے گھروں سے نکال کر سڑکوں پر لے آئیں گے۔
پاک فوج اور سپریم کورٹ آف پاکستان مجھ دو ٹکے کے رپورٹرکی دانست میں قومی ادارے ہیں۔ ان کا احترام ہم سب پاکستانیوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ اپنے احترام کے لئے ان اداروں کو عمران خان صاحب کے فراہم کردہ ”ہاکیوں والوں“ کی ضرورت ہرگز محسوس نہیں ہونا چاہیے۔ عمران خان صاحب کو نجانے کیوں انہیں ”عوامی مدد“ فراہم کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔
بقراطِ عصر نے بھی اپنی دھواں دھار تقریر کے ذریعے کچھ ایسے ہی جذبات کا اظہار کیا۔ اپنی کامیابی کی رعونت سے چور ہوئے ان صاحب نے یہ دعویٰ بھی کردیا کہ پاک فوج کے سربراہ ان کے کالج کے دنوں سے واقف کار ہیں۔ ایک شادی میں ان کی ملاقات جنرل باجوہ صاحب سے ہوئی تو بقراطِ عصر نے انہیں آئین اور جمہوریت کے تحفظ کے لئے ڈٹ جانے کا مشورہ دیا۔ انہیں اس ملک میں قانون کی حکمرانی کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
میں ابھی تک سمجھ نہیں پایا ہوں کہ اندھی نفرت اور عقیدت میں تقسیم ہوئے ہیجانی ماحول میں بقراطِ عصر کو پاک فوج کے سربراہ کا نام لے کر ایسی لاف زنی کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ کاش مجھے کوئی سمجھا پائے۔

بشکریہ نوائے وقت

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے