پاکستان

زرداری کیوں اور کیسے بری ہوئے؟

اگست 30, 2017 4 min

زرداری کیوں اور کیسے بری ہوئے؟

Reading Time: 4 minutes

سابق صدر آصف زرداری کے قومی احتساب بیورو کے آخری کرپشن کیس میں بھی بری ہونے سے ملک میں اس وقت یہی بحث چل رہی ہے کہ پھر کرپٹ کون ہے اور آج تک جو کچھ کہا گیا وہ کیا تھا؟۔
گزشتہ ہفتے کے روز آصف زرداری جو احتساب عدالت نے کرپشن کے چھٹے اور آخری مقدمے یا ریفرنس میں بھی کلین چٹ دی تو عدالتی رپورٹنگ کا تجربہ رکھنے والوں اور مقدمے کی باریکیوں پر نظررکھنے والے وکیلوں نے اسے ’دوستانہ اور کمزور استغاثہ ‘ کا نتیجہ قرار دیا ۔ راول پنڈی کی احتساب عدالت نے سترہ اگست کو جس درخواست پر فیصلہ سنایا اس کیس میں بریت کی استدعا صرف نو یوم قبل ان کے وکیل نے کی تھی، یہ زرداری کی اندرون و بیرون ملک بنائے گئے مبینہ غیرقانونی اثاثوں کا ریفرنس تھا۔
احتساب عدالتیں اس سے قبل آصف زرداری کو گزشتہ تین برس میں پانچ مختلف کرپشن ریفرنسز میں بری کرچکی ہیں جن میں ایس جی ایس، کوٹیکنا، ارسس ٹریکٹرز، پولوگراﺅنڈ اور اے آروائے گولڈ ریفرنس شامل ہیں۔ غیر قانونی اثاثوں کے ریفرنس میں احتساب بیورو کی جانب سے بے زاری کے ساتھ دلائل دیے گئے اور آصف زرداری کے وکیل فاروق نائیک کے دلائل کا جواب دینے میں بھی نیب کے پراسیکیوٹر ناکام رہے۔
آصف زرداری کے خلاف اس آخری ریفرنس میں نیب عدالت نے اگست کے دوسرے ہفتے سے ہی روزانہ کی بنیاد پرسماعت کا آغازکیا۔ آصف زرداری کی جانب سے بریت کیلئے ضابطہ فوجداری کی شق دوسو پینسٹھ ک کے تحت دائر کی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ٹرائل کے دوران استغاثہ کی پیش کی گئی شہادتیں ناقابل قبول اور انتہائی کمزور ہیں۔
عام طور پر اس شق کے تحت درخواست اسی وجہ سے ملزم کی جانب سے دائر کی جاتی ہے کہ عدالت کا وقت ضائع ہورہاہے اور اس مقدمے میں سے کچھ نکلنے والا نہیں اس لیے بری کیاجائے۔ تاہم اس ریفرنس میں بریت کی یہ درخواست اس وقت دی گئی جب استغاثہ نے اکتالیس میں سے چالیس گواہ پیش کردیے تھے اور یہ مقدمہ اگلے ایک ماہ میں مکمل ہو جانا تھا۔
سابق صدر زرداری کے خلاف یہ ریفرنس شروع دن سے ہی انتہائی سست روی سے چل رہا تھا اور اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کے وکیل فاروق نائیک کی دیگر عدالتوں میں مصروفیات اور بیماری بھی تھی۔ اس ریفرنس کی سماعت میں تیزی حالیہ ماہ ہی آئی جب کہ ملک میں پانامہ کیس فیصلے کا چرچا ہے جس کے تحت نوازشریف کو نااہل کیا گیا۔
روزنامہ ڈان کی خبر کے مطابق نیب میں ان کے ذرائع کا کہنا ہے کہ چونکہ موجودہ چیئرمین نیب دس اکتوبر کو اپنی آئینی مدت مکمل کرکے ریٹائرہونے والے ہیں اس لیے ’شراکت دار‘ چاہتے تھے کہ اس سے پہلے یہ مقدمہ مکمل کر لیاجائے۔ دوسری جانب پاکستان 24ڈاٹ ٹی وی کی قومی احتساب بیورو کے اہم افسران سے بات ہوئی ہے جس میں وہ یہ ماننے سے انکاری ہیں، اور دعوی کرتے ہیں کہ ان کے تمام وکلاء مکمل تیاری اور دیانتداری سے کام کر رہے ہیں اور جج صاحب کو فیصلہ لکھنے سے قبل ریفرنس کی اصل دستاویزات ہائیکورٹ سے منگوانا چاہیے تھی جو ان کی عدالت سے ہی اٹھا کر لے جائی گئیں۔ نیب حکام کا نام نہ بتانے کی شرط پر یہ بھی اصرار ہے کہ وہ جب ہائیکورٹ میں اپیل کریں گے تو یہ تمام نکات سامنے لائیں گے۔
نیب حکام کے سامنے جب یہ بات رکھی گئی کہ ان کے وکیل یعنی جو استغاثہ کا کردار ادا کرتے ہیں حکومتوں کی جانب سے لگائے جاتے ہیں تو نیب حکام کا جواب تھا کہ جج بھی حکومت میں موجود لوگوں کی سفارش سے ہی لگائے جاتے ہیں۔ یہ بات اہم ہے کہ ایک جانب زرداری کے خلاف مقدمہ چلانے والے نیب کے وکیل کو زرداری حکومت میں نیب میں لگایا گیا تھا تو دوسری جانب یہ بھی تاریخ کاحصہ ہے کہ عدلیہ بحالی تحریک کے دوران جب فاروق نائیک وزیرقانون تھے انہوں نے ’نائیک فارمولے‘ کے تحت سپریم کورٹ سے لے کر ہائیکورٹ تک میں کئی ججوں کو سودے بازی کرکے لگایا تھا۔ نائیک فارمولے کے تحت حلف اٹھا کر عدلیہ بحالی سے پہلے جج بننے والوں میں سابق چیف جسٹس ناصرالملک بھی شامل تھے۔
آصف زرداری کی قانونی ٹیم کی سربراہی فاروق نائیک کررہے تھے جن کے ساتھ آزاد کشمیر کی احتساب بیورو کے حاضرسروس قانونی مشیر سردار ذوالقرنین بھی شامل تھے، فاروق نائیک نے اپنی ٹیم میں کئی دیگر وکلاءکو بھی شامل کیا جن کی ماتحت عدالتوں میں اچھی جان پہچان ہے۔ یہ بات بھی سامنے آئی کہ فاروق نائیک کے معاون وکیل ذوالقرنین استغاثہ کے نیب وکیل یعنی ڈپٹی پراسیکیوٹر طاہر ایوب کے بہت قریبی دوستوں میں بھی شامل ہیں۔
فاروق نائیک نے اپنے دلائل میں استغاثہ کے بنائے مقدمے میں کئی اہم قانونی سقم اجاگر کیے مگر نیب کے وکیل نے عدالت میں زرداری کے ایک سابق فرنٹ مین اوصاف علی آغاکی گواہی پڑھ کرسنائی جس کے مطابق اس نے آصف زرداری کیلئے چارشوگر ملیں لگائیں، تاہم نیب وکیل آصف زرداری کے دفاع میں اٹھائے گئے نکات کا جواب دینے میں ناکام رہے۔ فاروق نائیک کے مطابق قانون کہتاہے کہ ہر برآمدگی کا ایک میمو بنتاہے اور اس کے دوگواہ ہوتے ہیں جن کے سامنے برآمدگی کی جاتی ہے مگر نیب نے کسی بھی ریکوری میں یہ قانونی طریقہ اختیار نہیں کیا اور اس کی تمام شہادتیں مکمل مشکوک اور قانون کی نظر میں ناقابل قبول ہیں۔ فاروق نائیک نے کہا کہ عدالت فوٹوکاپی پرمشتمل شہادت کو قبول نہیں کرسکتی۔اور شک کا سارا فائدہ قانون کے مطابق ملزم کو جاتاہے۔ فاروق نائیک نے دفاع کے دلائل چار دن میں مکمل کیے جبکہ نیب کے وکیل نے جوابی دلائل میں صرف ایک گھنٹہ صرف کیا۔
واضح رہے کہ اثاثوں کے اس ریفرنس کے علاوہ پانچ دیگر مقدمات بھی سنہ دوہزار اسات میں اس وقت بند کردیے گئے تھے جب ڈکٹیٹر پرویز مشرف اور بے نظیر بھٹو میں این آراو کامعاہدہ ہواتھا، اس معاہدے کے تحت مشرف نے سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے خلاف کرپشن سمیت کئی مقدمات ختم کردیے تھے، لیکن جب اس معاہدے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تو سنہ ہزار نو میں عدالت نے اسے کالعدم قراردے کر تمام مقدمات دوبارہ کھول دیے تھے۔ اس کے بعد جب آصف زرداری صدر بنے تو پانچ سال تک یہ ریفرنسز ان کو آئین کے آرٹیکل دوسو اڑتالیس کے تحت حاصل استثنا کی وجہ سے بند رہے ۔

 

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے