کالم

ترین کی ایک ارب کی آمدن ظاہر

اکتوبر 12, 2017 4 min

ترین کی ایک ارب کی آمدن ظاہر

Reading Time: 4 minutes

بظاہر لگتا ہے کہ جہانگیر ترین نا اہلی کیس کی سماعت کرنے والے ججز کسی حالیہ فیصلہ کی وجہ سے مشکل میں ہیں، دوران سماعت ججز جب وکیل سکندر بشیر سے جہانگیر ترین کی الیکشن کمیشن اور ایف بی آر میں زرعی آمدن میں تفاوت پر وضاحت مانگتے ہیں تو لگتا ہے کہ ججز کے سوالات پر وکیل مشکل میں ہے، کیونکہ پنامہ کیس میں سپریم کورٹ نے نواز شریف کو وصول نہ کی تنخواہ ظاہر نہ کرنے پر نا اہل کیا تو یہاں اس کیس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جہانگیر ترین نے اپنی ایک ارب روپے کی زرعی آمدن کو الیکشن کمیشن میں ظاہر نہیں کیا،اتنی بڑی آمدن کو ظاہر نہ کرنا ججز کے ذہن میں سوالات کو جنم دیتا ہے ،بہر حال جہانگیر ترین کے وکیل سکندر بشیر اپنے تئیں بہترین دلائل عدالت کے سامنے رکھ رہے ہیں۔
آج بروز جمعرات جہانگیر ترین کے وکیل سکندر بشیر مہمند نے دلائل میں کہا کہ دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں امیدوار کے فارم میں صرف ذاتی ملکتی زرعی زمین کی تفصیلات اور اس پر ادا کیا گیا زرعی ٹیکس کا پوچھا گیا ،ان کے موکل نے فارم میں جو پوچھا گیا سب بتا دیا ،الیکشن فارم میں جہانگیر ترین کی جانب سے کچھ چھپایا نہیں گیا ،چیف جسٹس نے مفروضہ پر مبنی سوال کیا فرض کر یں کسی شخص کی ذاتی زرعی زمین نہیں،وہ لیز پر زمین لیکر کاشت کاری کرتا ہے اور اس کی اربوں میں لیز زمین سے آمدن ہے تو ایسی صورت میں وہ شخص الیکشن فارم میں کیا لکھے گا ،وکیل نے کہا ایسی صورت میں امیدوار فارم میں زرعی زمین کی تفصیل کا کالم خالی چھوڑ دیگا، ہمارا موقف ہے کہ لیز پر لی زمین پر ٹیکس اصل مالک ادا کرتا ہے، ٹھیکیدار کاشت کار کو زرعی آمدن پر ٹیکس نہیں دینا ہو تا ، ویسے بھی یہ ٹیکس کے ایشوز متعلقہ فورم پر زیر التواء ہیں،درخواست گزار کسی دوسری جگہ زیر التواء مقدمات پر سپریم کورٹ سے فیصلہ لینا چاہتا ہے،جسٹس فیصل عرب جو لگتا ہے دیگر ججز کی نسبت زرعی ٹیکس کے معاملہ کو زیادہ سمجھ رہے ہیں نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ متعلقہ فورم پر ٹیکس کے زیر التواء ایشوز وفاقی قانون سے متعلق ہیں،جبکہ زرعی ٹیکس خالصتا ایک صوبائی معاملہ ہے،کیا زرعی ٹیکس کے گوشوارو ں پر صوبائی ٹیکس حکام نے جہانگیر ترین کو نوٹس جاری کیا ،وکیل نے کہا کہ صوبائی اتھارٹی نے جہانگیر ترین کو کبھی زرعی گوشواروں پر نوٹس نہیں کیا ،چیف جسٹس نے پنجاب زرعی ٹیکس قانون کو بغور پڑھنے کے بعد ریمارکس میں کہا کہ قانون کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں،ابھی کوئی حتمی رائے قانون بارے قائم نہیں کر رہے ،قانون کی شقیں پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ ہر وہ شخص جو زرعی زمین سے آمدن لے گا اس پر زرعی ٹیکس کا اطلاق ہو گا ،جہانگیر ترین اٹھارہ ہزار ایکڑ زمین لیز پر کاشت کر رہے تھے ،جس سے انہیں آمدن بھی ہوئی،تو قانون کے مطابق انہوں نے زرعی آمدن پر پانچ فیصد کے اعتبار سے ٹیکس دینا تھا ،وکیل نے کہا سندھ کا زرعی ٹیکس سے متعلق قانون بڑا واضع ہے ،پنجاب کے قانون کے اطلاق میں ابہام ہیں جن پر وضاحت درکار ہے ،ان کے موکل زرعی گوشواروں کو اس وقت کھولا نہیں جا سکتا کیونکہ سو سال کی قانونی معیاد گزر چکی ہے ،چیف جسٹس نے اس موقع پر چبتا سوال کیا کہ ہمارے سامنے سوال ایمانداری کا ہے ،جہانگیر ترین نے مجموعی زرعی آمدنی الیکشن کمیشن کو نہیں بتائی،اس کی وضاحت کیا ہے،وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ بے ایمانداری ثابت اس صورت میں ہو سکتی ہے ،اگر متعلقہ فورم سے فیصلہ جاہنگیر ترین کے خلاف آجائے،ہمارا مقف یہ ہے کہ پہلے متعلقہ فورم کو ٹیکس ایشوز پر فیصلہ کرنے دیا جائے،عدالت زرعی ٹیکس قانون کی جو زبانی تشریح کر رہی ہے اس انداز سے کبھی کسی نے قانون کی تشریح نہیں کی،جسٹس عمر عطاء بندیا ل نے سوال کیا فرض کر لیں قانون کے مطابق لیز زمین پر کاشت کار کا زرعی ٹیکس دینا لازمی ہے ،اگر جہانگیر ترین نے وہ ٹیکس نہیں دیا تو کیا ہو گا ،وکیل سکندر بشیر نے کہا اس صورت میں جہانگیر ترین نا اہل نہیں ہو تے کیونکہ انہوں نے ہمیشہ باقاعدگی سے ٹیکس دیا ،کسی جگہ ان کے موکل نے جھوٹ نہیں بولا،چیف جسٹس نے وکیل کی دلیل پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ کو مخاطب کیا شخ صاحب آپ سر پکڑ کر کیوں بیٹھے ہیں؟عدالتی کاروائی ست بوریت ہو رہی ہے ؟ عنوان ہی ایسا ہے جس سے بوریت ہو جاتی ہے ؟ اکرم شیخ نے عدالتی استفسار پر جواب دیا وہ غور سے کاروائی کو سن رہے ہیں، موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اکرم شیخ نے اپنے میزائل بھی داغ دیے ،وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ جہانگیر ترین کی بد نیتی پہلے دن سے ثابت ہیں،عدالت کو محکمہ مال کا ریکارڈ لا کر نہیں دیا گیا ،سکندر بشیر مرحوم وکیل عبد الحفیظ پیرزادہ کے ساتھ رہے ہیں،انہی کے انداز میں عدالت پر حاوی ہونے کی کوشش کر رہے ہیں،جہانگیرترین کی جانب سے زرعی زمین کے جو لیز معائدے پیش کیے وہ غیر رجسٹرڈ شدہ ہیں،ان معائدوں کے ذریعے منی لانڈرنگ کی گئی،اکرم شیخ کے انداز بیاں پر سکندر بشیر نے تھوڑی خفگی کا اظہار کرنا چاہا تو چیف جسٹس نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم سینیئر وکیل کے انداز میں دلائل دینا آپ کے لیے کریڈٹ کی بات ہیں،اس کو مثبت انداز میں لیں،مقدمہ کی مزید سماعت آئندہ ہفتے منگل کے روز تک ملتوی کردی گئی

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے