پاکستان

ججوں کا ایک اور اسکینڈل

اکتوبر 14, 2017 2 min

ججوں کا ایک اور اسکینڈل

Reading Time: 2 minutes

سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے ججوں کا بہت بڑا اسکینڈل منظر عام پر آیا ہے، زمین کی بھوک پلاٹوں کی شکل میں بڑھتی اور قبر کی صورت میں مٹتی ہے، سپریم کورٹ کے چار حاضر سروس ججوں اور ایک ریٹائرڈ جج نے ایسی پرائیویٹ اور متنازعہ ہاؤسنگ سوسائٹی میں پلاٹ خریدنے کے لیے رقم جمع کرائی ہے جس کے لیے زور زبردستی زمین ایکوائر کرنے کا مقدمہ بھی وہ خود سنتے رہے ہیں، ان کے علاوہ ہائیکورٹ کے اکیس دیگر ججوں نے بھی سستے پلاٹوں کی اس گنگا میں ہاتھ دھونے کی کوشش کی ہے _

یہ سب کچھ سپریم کورٹ کے وکیلوں کی ملی بھگت سے کیا جا رہا ہے، ہم نے پاکستان 24 کے انہی صفحات پر وکیلوں کی ہاؤسنگ سوسائٹی کے مقدمے کی سماعت کے دوران ججوں کی دو نمبری بے نقاب کر کے آپ تک تفصیلات پہنچائیں اور گزشتہ ہفتے جب ایک جج نے مقدمہ سننے سے معذرت کی تو سمجھا کہ وہ پارسا ہیں مگر بعد میں ہاؤسنگ سوسائٹی کے لیے سرگرم ایک وکیل نے بتایا کہ انہوں نے پلاٹ کے لیے رقم جمع کرائی ہے اس لیے چھ ماہ بعد اب مقدمہ سننے سے انکاری ہو گئے ہیں _

اب انگریزی روزنامہ دی نیوز کے فخر درانی نے فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائیز ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کے ذرائع نے آن ججوں کے ناموں کی تصدیق بھی کر دی ہے _

ان ججوں کے خلاف ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی بھی ہو سکتی ہے _ واضح رہے کہ چالیس لاکھ روپے میں مجوزہ ایک کنال کا پلاٹ صرف ایک ہفتے میں دو کروڑ روپے کا بیچا جا سکے گا کیونکہ یہ پارک روڈ کی پرائم لوکیشن پر واقع ہے  _

پلاٹ لینے کے لیے رقم جمع کرانے والوں میں جسٹس اعجاز افضل، جسٹس فیصل عرب، جسٹس مظہر عالم اور جسٹس سجاد علی شاہ شامل ہیں  _ ہائیکورٹس کے دو درجن جج اس کے علاوہ ہیں، آٹارنی جنرل اشتر اوصاف،بابر اعوان اور عاصمہ جہانگیر نے بطور وکیل پلاٹ کے لیے ابتدائی رقم جمع کرائی ہے _

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے