کالم

فرزند پاکستان کا تاریخی انٹرویو

اکتوبر 17, 2017 4 min

فرزند پاکستان کا تاریخی انٹرویو

Reading Time: 4 minutes

مشکل یہ آ کھڑی ہے کہ قومی سیاست جن دو اداروں کے گرد گھوم رہی ہے ان کی صرف تعریف کا ہی آپشن ہے، برا بھلا صرف پارلیمنٹ کو کہنے کی گنجائش ہے تو اس کے لئے طبیعت آمادہ نہیں۔ ایسے میں حج یا روزے کے فضائل ہی بیان ہو سکتے ہیں مگر ان دونوں عبادات کا موقع ہی نہیں، کمبختی دیکھئے محرم بھی گزر گیا ورنہ کربلا کا ایسا نوحہ لکھتے کہ میر و انیس بھی بھلا دیتے۔ کئی گھنٹے سوچ بچار کے بعد خیال آیا کہ کیوں نہ شیخ رشید صاحب کا انٹرویو کر لیں اور ان کے خیالات کو کالم کی زینت بنالیں، قارئین کے منہ کا ذائقہ ہی بدل جائے گا۔ اس باب میں بھی مشکل یہ ہے شیخ صاحب بھی خان صاحب کی طرح خوشامدیوں کے سوا کسی کو انٹرویو نہیں دیتے۔ یوں ایک اچھوتی ترکیب یہ سوجھی کہ شیخ صاحب کی جگہ ان کی کتاب ’’فرزند پاکستان‘‘ کا انٹرویو کر لیتے ہیں۔ سوال ہمارے اور جواب شیخ صاحب کی کتاب سے۔
ہم نے پہلا سوال داغتے ہوئے فرزند پاکستان سے پوچھا، انتخابی سیاست میں آمد کیسے ہوئی ؟ فرزند پاکستان نے جواب دیتے ہوئے فرمایا
’’کرنل ترمذی نے جنرل اختر عبد الرحمن سے ملاقات کا بندو بست کرایا۔ پہلی ہی ملاقات میں یوں لگا کہ میری گفتگو اختر عبدالرحمن کو متاثر کر گئی ہے۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ صدر ضیاء الحق سے بات کریں گے۔ میرے کاغذات مسترد ہوگئے تھے، نئے امیدوار کو میدان میں لایا گیا۔ اتنے میں جنرل اختر عبدالرحمن صدر ضیاء الحق سے میرے ’’کونسلر‘‘ کا انتخاب لڑنے کی اجازت لے چکے تھے، پھر کیا تھا، شہر کی سیاست کا نقشہ ہی بدل گیا۔ ۔۔۔۔ الیکشن کی اجازت دلانے کی وجہ سے اب ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی جنرل اختر عبد الرحمن سے میرا رابطہ ہوگیا تھا، میری حیرت کی انتہاء نہ رہی کہ جب ہر دو تین مہینے بعد ایک دو ملاقاتیں ان کی خواہش پر رکھی جاتی تھیں‘‘
(فرزند پاکستان، صفحہ 92)
ہم نے اگلا سوال پیش کرتے ہوئے پوچھا، سنا ہے اچھے وقتوں میں آپ کی نواز شریف سے بہت قربت تھی، اس قربت کی نوعیت کیا تھی ؟
’’میں بلا جھجک اپنی رائے نواز شریف تک پہنچاتا تھا، یہ ان کی مہربانی تھی کہ میں بغیر وقت لئے کسی بھی وقت ان سے مل سکتا تھا، اور نہیں تو کم از کم وزیر اعظم کے لاہور یا کہیں اور جاتے وقت میں وزیر اعظم ہاؤس سے ایئرپورٹ اور ایئرپورٹ سے وزیر اعظم ہاؤس تک ان کی گاڑی میں گھس جاتا تھا‘‘
(صفحہ 147)
ہمیں اپنے بچپن کا وہ وقت یاد آگیا جب کوئی رشتیدار ہمارے گھر آ کر رخصت ہونے لگتا تو ہم ’’چکر‘‘ دلانے کی ضد کے ساتھ اس کی گاڑی میں گھس جاتے۔ ہم نے ماشاء اللہ کہتے ہوئے ان یادوں سے جان چھڑائی اور فرزند پاکستان سے پوچھا، نواز شریف کی گاڑی میں گھسنے والی اس قربت میں آپ نے یقیناًنواز شریف کو سمجھا بھی خوب ہوگا، کچھ ہمیں بھی آگاہ کیجئے !
’’نواز شریف کا پر اعتماد اور نورانی چہرہ مجھے اس (حکومت بحالی والے) روز جیسا نظر آیا وہ پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ نفل پر نفل پڑھتے جا رہے تھے۔ ایسا اعتماد میں نے بہت کم لیڈروں میں دیکھا ہے۔ ویسے بھی میں نواز شریف کو بہت سخت پریشان کن حالات میں بھی پریشانی سے گھبراتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا‘‘
(صفحہ 163)
ہم نے حیرت کے سمندر سے سر نکالتے ہوئے کہا، ہم نے تو سنا ہے نواز شریف بہت رنگین مزاج اور بدھو شخص ہے ؟ اور تو اور صادق و امین بھی نہیں۔ فرزند پاکستان نے جواب دیا
’’نواز شریف بھولا، سادہ اور نہایت شریف انسان ہے، وعدے کا پاس کرنے والا آدمی ہے۔ اس میں اتنی حیا ہے کہ کسی سے زیادتی نہیں کر سکتا اور نہ اس نے اقتدار میں کی ہے۔ وہ منہ بھر کر کسی کو انکار بھی نہیں کر سکتا لیکن آدمی کی شناخت میں وہ بلا کا ذہین آدمی ہے‘‘
(صفحہ 179)
ہمیں اپنے کانوں پر یقین نہ آیا، ہم نے معاملہ سمجھنے کے لئے اگلا سوال داغا، آپ کے دل میں نواز شریف کی قیمت کیا ہے ؟ وہ بولے
’’ایک فوٹو کا پرنٹ مجھے بھیجا گیا اور ساتھ ہی کہا گیا کہ منہ بولی قیمت وصول کر لو اور نواز شریف کا ساتھ چھوڑ دو یا کم از کم اسمبلی کی کار روائی میں حصہ لینا چھوڑ دو۔ میں نے پیامبر کو صاف صاف کہدیا کہ اتنی قیمت پر میں نواز شریف کی تصویر بھی نہیں بیچتا جتنی قیمت پر تم دوستی کا سودا کرتے ہو‘‘
(صفحہ 137)
یہ سن کر ہمارے منہ سے بے اختیار بلند آواز میں ’’حق اللہ ! ! !‘‘ نکلا جسے بمشکل تمام سنبھالتے ہوئے ہم نے اگلا سوال پیش کرتے ہوئے کہا، سنا ہے آپ نے آج تک اپنے حلقے میں کوئی ترقیاتی کام نہیں کرایا، اس کی کیا وجہ ہے ؟
’’پاکستان کے سیاستدانوں کو یہ بہت غلط فہمی ہے کہ ’’ترقیاتی کام‘‘ کرنے اور حلقے میں ہر ہفتے جانے سے شاید ان کا حلقہ انتخاب مضبوط ہوتا ہے جبکہ انڈیا کا سیاستدان دس دس، بارہ بارہ سال اپنے حلقے میں نہیں جاتا لیکن اپنے کردار اور سیاسی سوجھ بوجھ سے میڈیا کے سہارے اپنا امیج بلڈ اپ کرتا ہے‘‘
(صفحہ 174)
ہم نے دل ہی دل میں شیخ صاحب کے ووٹرز کی قسمت پر رشکیہ آنسو بہاتے ہوئے عرض کی، حضور آپ کے سیاسی ٹوٹکے بہت مشہور ہیں، بندہ حکومتی پارٹی میں بھی ہو اور وزارت نہ ملے تو کیا کرے ؟
’’مجھے بتایا گیا کہ ابھی میں انتظار کروں، مجھے وزارت میں نہیں لیا جارہا۔ یہ سن کر مجھے بہت دکھ ہوا۔۔۔۔۔ لیکن میں بیکار نہیں رہ سکتا تھا، میں نے قومی اسمبلی کے سرکاری بینچوں سے متاثرین اسلام آباد کا بل اور سوالوں کی بوچھاڑ اسمبلی سیکریٹریٹ کو بھیج دی اور تھوڑے عرصے بعد میں نے ایک بیان دیا کہ غریب کو بھاشن کی نہیں راشن کی ضرورت ہے۔ نواز شریف نے مجھے بلایا، میں نے صاف صاف کہہ دیا کہ مجھ سے یہ برداشت نہیں ہوتا کہ مجھے میری خدمات کا صلہ نہ ملے۔۔۔۔۔ آخر کار مجھے دو تین ماہ بعد وزارت اطلاعات کا مشیر بنادیا گیا‘‘
(صفحہ 145)
ہم نے آخری سوال پیش کرتے ہوئے پوچھا، اس بات کا کتنا امکان ہے کہ آپ کا منہ بند کرانے کی غرض سے ہی نواز شریف آپ کو اپنی جماعت میں واپس لے لے ؟ کیا نواز شریف ایسا سوچ سکتا ہے کہ آپ کو سمجھنے میں اس سے غلطی ہوئی ؟ انہوں نے سگار کا گہرا کش بھرا، اس کا دھواں چھوڑا اور اس دھویں کے پس منظر سے ہمیں شوخ نظروں سے دیکھتے ہوئے فرمایا
’’ایک بات میں ذمہ داری سے کہوں گا کہ آدمی کو بھانپ جانے کی صلاحیت قدرت نے اسے بہت زیادہ دی ہے۔ وہ جان جاتا تھا کہ بندہ ساتھ دے گا یا چھوڑ جائے گا‘‘
(صفحہ 179)
فرزند پاکستان کا تاریخی انٹرویو اپنے اختتام کو پہنچا۔ امید ہے آپ کو خواجہ آصف ضرور یاد آ رہے ہوں گے !
(بشکریہ روزنامہ 92 نیوز)

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے