کالم

اندھیرا نہ سویرا

اکتوبر 21, 2017 2 min

اندھیرا نہ سویرا

Reading Time: 2 minutes

جبر کا ایک عہد گزار چکے ۔
پاکستان نے ایوب خان کو بھگتا۔ جنرل یحی کو بھی دیکھ لیا۔ ضیاء الحقی بھی ہوگئی اور پھر پرویز بھی گزر گیا۔
مگر نہیں گزرا تو وہ وقت جو سمجھتا ہے کہ اسے ٹھہرنا ہے۔ کون لیکن نہیں جانتا کہ
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
بولنے والے شرپسندوں کی زبانوں پر تالے لگانے کا حکم جاری ہو چکا ہے ۔ سوشل میڈیا پر ’آگ اگلنے‘ والوں کی گرفتاری صرف نظر آنے والی خبر ہے ۔
فیض نے کہا تھا
اس وقت تو یوں لگتا ہے اب کچھ بھی نہیں ہے
مہتاب نہ سورج، نہ اندھیرا نہ سویرا
آنکھوں کے دریچوں پہ کسی حسن کی چلمن
اور دل کی پناہوں میں کسی درد کا ڈیرا
ممکن ہے کوئی وہم تھا، ممکن ہے سنا ہو
گلیوں میں کسی چاپ کا اک آخری پھیرا
شاخوں میں خیالوں کے گھنے پیڑ کی شاید
اب آ کے کرے گا نہ کوئی خواب بسیرا
اک بَیر، نہ اک مہر، نہ اک ربط نہ رشتہ
تیرا کوئی اپنا، نہ پرایا کوئی میرا
مانا کہ یہ سنسان گھڑی سخت کڑی ہے
لیکن مرے دل یہ تو فقط اک ہی گھڑی ہے
ہمت کرو جینے کو تو اک عمر پڑی ہے
مگر فیض اک عمر گزار کے بھی چلے گئے وگرنہ ان سے سوال کرتے، کیا زندہ رہنا ہی سب کچھ ہے؟۔
زبان بندی کے دور میں سماعتوں میں بھی سیسہ انڈیل دینا چاہیے کہ جن کو کھلی چھوٹ ہے وہ سگ بھونکتے ہیں تو ابکائی آتی ہے ۔ فیض ہی نے لکھا تھا
میرے دل میرے مسافر
ہوا پھر سے حکم صادر
کہ وطن بدر ہوں ہم تم
دیں گلی گلی صدائیں
کریں رخ نگر نگر کا
کہ سراغ کوئی پائیں
کسی یارِ نامہ بر کا
ہر ایک اجنبی سے پوچھیں
جو پتہ تھا اپنے گھر کا
سرِ کوئے نا شنایاں
ہمیں دن سے رات کرنا
کبھی اِس سے بات کرنا
کبھی اس سے بات کرنا
تمہیں کیا کہوں کہ کیا ہے
شبِ غم بری بلا ہے
ہمیں یہ بھی تھا غنیمت
جو کوئی شمار ہوتا
ہمیں کیا برا تھا مرنا
اگر ایک بار ہوتا
زبان بندی روز مارتی ہے ۔ اور ایسا مرنا گھٹ گھٹ کر جینے کو کہتے ہیں۔
جن کے خلاف مقدمہ درج نہیں کیا جاسکتا۔ جن کی آواز توپ کے گولے سے زیادہ طاقت رکھتی ہے اور جن کا لکھا ٹینک کے گزرنے سے زیادہ سخت نشان چھوڑتا ہے ۔ ان کے خلاف مقدمے درج نہیں کیے جاسکتے کہ الزامات کو ثابت کرنا ممکن نہیں ہوگا ۔ ایسی زبانوں اور ایسے قلم کو صرف پیغام دیا جاتا ہے ۔ وہ پیغام دیا جا چکا ہے۔ کسی کا لکھا شائع کرنا بند کیا جا چکا ہے، کسی کے ٹی وی پر بولنے پر پابندی لگ چکی ہے، اور کسی کا ٹوئٹر اکاﺅنٹ ختم کر دیا گیا ہے ۔
فیض کی ہی بات پر یہ کالم ختم کرتے ہیں جنہوں نے کہا تھا
گو سب کو بہم ساغر و بادہ تو نہیں تھا
یہ شہر اداس اتنا زیادہ تو نہیں تھا
گلیوں میں پھرا کرتے تھے دو چار دیوانے
ہر شخص کا صد چاک لبادہ تو نہیں تھا
جن کو کتاب عشق کے باب سمجھ نہیں آتے وہ عقل کی باتیں اے آر وائے، بول نیوز اور سما ٹی وی سے سیکھ سکتے ہیں ۔ یقین کریں مائیں کروڑوں برس کے بعد عامرلیاقت، عارف بھٹی اور مبشرلقمان جیسے دانش ور جنتی ہیں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے