کالم

ہیرے ملے جج نہ ملا

اکتوبر 24, 2017 4 min

ہیرے ملے جج نہ ملا

Reading Time: 4 minutes

پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی وجہ آن لائن لکھنے کے لیے وقت نکالنا بہت مشکل ہے، چند روز سے کچھ لکھنے کو دل چاہ رہا تھا، موضوع ذہن میں تھا، بیان کے لیے الفاظ نہیں مل رہے تھے، کچھ لکھا بھی تو لکھ کر مٹا دیا ،آج چوبیس اکتوبر دو ہزار سترہ کو سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت نمبر تین میں بیٹھا تھا ،مقدمہ چل رہا تھاسندھ حکومت کی جانب سے بحریہ ٹاون کو اونے پونے داموں سرکاری زمین کی مبینہ الاٹ منٹ کا،اس سے قبل جسٹس اعجاز افضل کی سر براہی میں تین رکنی بینچ صوبائی حکومت کی جانب سے ایڈووکیٹ جنرل کی بجائے نجی وکیل کی خدمات حاصل کرنے پر تشویش کا اظہار کر چکا تھا ، گھڑی کی سوئی ساڑھے گیارہ بجانے کے قریب تھی کہ اس دوران سندھ حکومت کے وکیل ججوں کے درمیان سرکاری زمین کی الاٹ منٹ پر بادشاہت کا مکالمہ ہوا، جسٹس اعجاز الاحسن جو پانامہ کیس کے لارجر بینچ کا حصہ رہے اور اس وقت شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز کے نگران جج ہیں، انہوں نے ریمارکس دیے،یہاں بادشاہت تو ابھی بھی ہے، معزز جج کے لبوں سے ادا ہوتے ان ریمارکس نے میری مشکل کو آسان کر دیا،میری مجوزہ تحریر کی پوری تصویر میرے انکھوں میں سامنے آ چکی تھی کہ کیا لکھنا ہے،کس موضوع پر لکھنا ہے ،کتنا لکھنا ہے اور لکھنے کے دوران کن حقائق کو سامنے رکھنا ہے۔
یہاں بادشاہت تو ابھی بھی ہے کہ الفاظ جب معزز جج نے کہے تو کمرہ عدالت کے روسٹرم پر کھڑے سندھ حکومت کے وکیل فاروق ایچ نائیک نہ سمجھ سکے کہ جج کے ریمارکس سندھ حکومت سے متعلق ہیں،فاروق ایچ نائیک نے کہا وہ اس معاملہ پر کمرہ عدالت میں رائے زنی نہیں کریں گے تاہم انہوں نے سینٹ پر بادشاہت کے معاملہ پر بات کرنے کے عزم کا اظہار کیا ، فاضل وکیل کے جواب پر پتہ نہیں کیوں خود کوسنے لگا اور خود سے کہا کہ فاضل وکیل کو معزز جج کے ریمارکس پر برملا کہنا چاہیے تھا مائی لارڈ دستور پاکستان کے تحت ملک میں وفاقی پارلیمانی نظام رائج ہے،عوام اپنے ووٹ سے نمائندوں کا انتخاب کرتے ہیں،پارلیمانی نظام میں حاکمیت عوام کی ہوتی ہے ،ضمیر میں کہیں سوچ چل رہی تھی کہ وکیل معزز جج سے کہے مائی لارڈ اگر ملک میں کہیں بادشاہت کا نظام چل رہا ہے توآئین کے محافظ کی حیثیت سے فوری از خود نو ٹس لیکر بادشاہی حکومت کے سر براہ کو طلب کریں،حلف کی پاسداری اور دستور کے حقیقی گارڈین کی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے فوری بادشاہ کی برطرفی،باشادہت کے نظام کو پارلیمانی نظام سے بدلنے کا حکم جاری کریں لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا ،ذہن میں ابھی سوال چل رہے تھے کاش فاضل وکیل یہ بات بھری عدالت میں کر دیتے، تو ہو سکتا تھا کہ معزز جج معاملہ پر فوری از خود نوٹس لیکر ملک میں اصل نظام حکومت کو بحال کرنے کا صادر فرما دیتے،وہ نظام حکومت جس کی توثیق عدلیہ ماضی میں کر چکی ہے ،وہ نظام حکومت جس میں حلف دستور پر نہیں بلکہ پی سی او پر ہوتے ہیں ،وہ نظام حکومت جس میں ججز کو عہدے چھوڑنے پڑتے ہیں اور گھروں میں محصور بھی کر دیا جاتا ہے ،وہ نظام حکومت جس میں سیسیلین مافیا نہیں ہو تا لیکن ججز لمبے عرصے تک گھروں میں بند رہتے ہیں،انہیں دھمکیاں دی جاتی ہیں،خیر میری دلی یا ذہنی خواہش کو کوئی وکیل کیونکر عملی جامہ پہنائے گا ،فاضل وکیل نے سندھ حکومت کا دفاع کرنا ہے، پھر میرے ذہن میں خیال آیا جس کسی نے بھی کہا ہے سو فیصد درست کہا ہے کہ پانی کا ٹھہراو نشیبی جگہ پر زیادہ ہو تا ہے ،اونچی جگہ یا چڑھائی والی جگہ پر پانی کہاں ٹھہر سکتا ہے ،پھر خیالوں کی دنیا میں پاناما کیس میں تشکیل دی گئی چھ ہیروں پر مبنی جے آئی ٹی تک جا پہنچا،مشترکہ تحقیقاتی ٹیم جس کے چھ ہیروں کی تلاش عدالت عظمی نے چند روز میں مکمل کر لی ،ایس ای سی پی اور اسٹیٹ بنک سء من پسند نام نہ آئے تو عدالت عظمی نے دونوں اداروں سے پانچ مئ کو گریڈ اٹھارہ سے اوپر تمام افسران کی تفصیلات مانگ لی اور دونوں اداروں کےسر براہان کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا ، مشترک تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل کے معاملے پر سماعت ایک معزز جج نے کہا تحقیقاتی ٹیم کے لیے ہمیں ہیروں جیسے شفاف لوگ چاہیے ،دوسرے معزز جج نے ایس ای سی پی کے سربراہ سے کہا ہمارا ساتھ کھیل نہ کھیلیں،مزید انکا کہنا تھا کہ دونوں اداروں کے سربراہوں نے جو نام بھیجے ان کی اپنے ذرائع سے تصدیق کرائی تو ان کی شریف خاندان یا اسحاق ڈار کے ساتھ وابستگیاں سامنے آئیں،خیر دونوں سربرہان نے سیکڑوں افسران کی فہرست عدالت کے حوالے کی،عدالتی کاروائی ختم ہونے کے معزز عدالت نے زیادہ تاخیر کے بغیرایس ای سی پی اور اسٹیٹ بنک کے سیکڑوں افسران کے ناموں سے بلال رسول اور عامر عزیز کا انتخاب کرکے جے آئی ٹی کی تشکیل کا فیصلہ جاری کر دیا ،مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل کے عدالتی فیصلے سے میرے خیالوں کا دھارا مجھے مزید آگے لے گیا ،سوچتا ہو کہ سپری کورٹ کے سابق جج جسٹس امیر ہانی مسلم تیس مارچ دو ہزار سترہ کو اپنے منصب سے ریٹائرڈ ہوئے،ان کی ریٹائرمنٹ کوتقریبا سات ماہ گزرنے کو ہیں اور اب تک سپریم کورٹ کے سترھویں جج کی جگہ خالی پڑی ہے،اگر ملک کی پانچوں ہائی کورٹس کے ججز کی تعداد کو دیکھاجائے تو وہ ایک سو بیس کے قریب بنتی ہے،اگر صرف سینئر ججز کو شمار کیا جائے تو یہ تعداد پندہ سے زیادہ نہیں،اس پوائنٹ پر پہنچ کر ضمیر کے کسی کونے سے آواز آتی ہے سپریم کورٹ کو چھ ہیرے تو چند دنوں میں مل گئے لیکن جج سات ماہ میں نہ مل سکا ،معذرت کے ساتھ معلوم نہیں میرے دماغ میں ایسے توہین آمیز خیالات کیسے آتے ہیں _

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے