کالم

احمد نورانی پر حملہ

اکتوبر 30, 2017 4 min

احمد نورانی پر حملہ

Reading Time: 4 minutes

گزرے جمعے کے دن بلاول بھٹو زرداری نے مجھے دوپہر کے کھانے پر بلایا تھا۔ اس صبح میں کالم لکھنے کی مشقت سے آزاد تھا۔ جان بوجھ کر دیر سے اُٹھا اور سرہانے رکھے اخبارات کے پلندے کو آنکھ کھل جانے کے بعد بھی نظر انداز کرتا رہا۔ کچھ عادتیں مگر علت کی صورت اختیارکرلیتی ہیں اور میرے لئے اخبارات کا مطالعہ بھی اب عادت نہیں علت ہے۔ تھوڑی سستی برتنے کے بعد ایک کے بعد دوسرا اخبار ختم کرنے کی مشق میں جت گیا۔ دریں اثناءسمارٹ فون پر وہ گھنٹی بجی جو کسی اہم خبر کو ”ٹلی“ کی آواز کے ذریعے خبردار کرکے بتائی جاتی ہے۔
احمد نورانی پر ”نامعلوم“ افراد کی جانب سے بہیمانہ تشدد کی اطلاع تھی۔ اسلام آباد کے زیروپوائنٹ سے وہ سڑک جو نوائے وقت اور دیگر کئی صحافتی اداروں کے دفاتر تک لے جاتی ہے۔ جس کے بعد اُردو یونیورسٹی ہے اور پھر….بہرحال، ایک دفتر ہے جہا ںتک پہنچنے کا راستہ بند کردیا گیا ہے۔ ایک زمانے تک یہی سڑک آپ کو زیروپوائنٹ سے سیدھا آبپارہ لے جایا کرتی تھی۔ بہت پُررونق سڑک تھی۔ ان دنوں بھی کہ جب اسلام آباد کو پاکستان کا دارالحکومت ہوتے ہوئے بھی اس ملک کا محض ایک انتہائی صاف ستھرا، خاموش اور خوش حال ”گاﺅں“ سمجھاجاتا تھا، یہ سڑک بہت مصروف ہوا کرتی تھی۔
گزشتہ چند ماہ سے ہماری ریاست کے اہم ستونوں کو تھام کر کھڑا رکھنے والوں کو طیش دلانے والی خبریں فراہم کرنے کے عادی احمد نورانی پر دن دھاڑے ”عبرت کا نشان“ بنانے والے حملے کی اطلاع ملی تو فلموں کی طرح دیوانگی والی چیخ کے ساتھ ”نہیں“ کہتے ہوئے دل بستر سے اُٹھ کر گلی میں نکل آنے پر مجبور ہوتا محسوس ہوا۔ بڑھاپا مگر بہت کام کی شے ہے۔ یہ خواہش جاگی اور فوراًََ ختم بھی ہوگئی۔ احمد نورانی پر حملے کی اطلاع دیتے ٹویٹس کو ری ٹویٹس کرتا رہا۔ بعدازاں اس سے بھی دل بھرگیا۔ تیار ہوکر بلاول بھٹو زرداری سے ملنے چلاگیا۔
پیپلز پارٹی کے جواں سال رہ نما احمد نورانی پر ہوئے حملے کی بابت بہت پریشان تھے۔ میں نے موصوف کے مشیر اطلاعات مصطفےٰ نواز کھوکھر کا نیشنل پریس کلب کے صدر شکیل انجم سے فون پر رابطہ کروادیا۔ شکیل، احمد نورانی کے ہسپتال والے معاملات سے پوری طرح باخبر تھا۔ اس نے رابطے میں رہنے کا وعدہ کیا۔ میں نے ارادہ باندھا کہ بلاول بھٹو زرداری کے ہاں سے فارغ ہوکر سیدھا ہسپتال جاﺅں گا۔ احمد نورانی سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ ریٹائرڈ اور متحرک رپورٹر کے درمیان والا فرق مگر ”یکجہتی“ کا اظہار بھی ضروری تھا۔کھانے سے فراغت کے بعد مگر ایسا کرنہ پایا۔ واپس گھر لوٹ آیا۔ افسردگی کے بوجھ تلے دباکئی گھنٹوں تک بستر میں گھسا رہا۔
اپنی ماں سے پنجابی کے چند لفظ تواتر کے ساتھ سنے ہیں۔ مجھے خبر نہیں کہ انہیں کس طرح تحریر میں لایا جائے تو اسی تلفظ کے ساتھ پڑھنے میں آسانی ہوجس تلفظ میں ان الفاظ کو میری ماں ادا کیا کرتی تھی۔ بہرحال اُردو حرف”پ“ کو دو مونہی ”ھ“کے ساتھ ملانے کے بعد ”ب“ اور ”م“کی وجہ سے بنے ”بم” پر زور دیتے ہوئے ”ل“ کی آواز کے ساتھ ختم کیا جائے تو شاید ”پھبمل“لکھا جائے گا۔اس کے بعد ”بھوسہ“ -پھبمل“ بھوسہ“ وہ لفظ ہے جو میں لکھنا چاہتا ہوں۔
میری دانست میں یہ لفظ اُردو کے لفظ ”حواس باختہ“ والی کیفیت بیان کرتا ہے۔ انگریزی میں شایداسے Baffledکہا جائے گا۔ اس لفظ کے استعمال کی تاثیر اگر اپنی ذات کے حوالے سے بیان کرنا چاہوں تو منیرنیازی کا ”لوگوں کو ان کے گھر میں ڈرادینا چاہیے“ استعمال کروں گا۔
”صحافیوں“ کو ان کے گھر میں ڈرا دینا چاہیے والے واقعات وطنِ عزیز میں کئی بار ہوئے ہیں۔ بدقسمتی یہ بھی رہی کہ 1990ء کی دہائی میں ایسے کئی واقعات رچانے کے لئے مجھ بدنصیب کو چنا گیا۔ جوانی کی آن میں بسا اوقات میں بھی جان بوجھ کر ”کج ساہنوں/مینوں مرن داشوق وی سی“والی اشتعال انگیزی میں مصروف پایا جاتا۔ وقت نے بالآخر کیا وہ حسیں ستم“ جب ”تم رہے نہ تم-ہم رہے نہ ہم“ ہوگیا۔
ہماری سیاسی اشرافیہ نے اقتدار میں آنے اور اسے بچانے کے لئے سمجھوتے پر سمجھوتے کئے تو خیال آیا کہ بھائی نصرت تم نے سماج سدھارنے کا Lowest Tenderنہیں بھررکھا۔ صحافت کی بدولت بالآخر کئی برسوں کی مشقت کے بعد نصیب ہوئی نسبتاََ خوش حالی نے ”وقت شناس“ بھی بنادیا۔ ان Red Linesکی بھی خوب شناخت ہوچکی ہے جہاں سے قدم آگے نہیں بڑھانا چاہیے۔ ”اپنے بچنے کی فکر کرجھٹ پٹ“ والا Pragmaticرویہ جسے اپنا لو تو ”ضمیر“ نام کی شے پریشان کرنا چھوڑ دیتی ہے۔ ویسے بھی وطنِ عزیز میں گزشتہ چند برسوں سے میڈیا بہت ہی آزاد اور بے باک ہونے کا دعوے دار ہے۔ اتنا سچ بولاجارہا ہے کہ جھوٹ بولنے کا لطف جاتا رہا ہے۔ تحریر کی چاشنی جبکہ جھوٹ گھڑنے ہی سے پیدا ہوتی ہے۔ محبوب کے دانت موتیوں جیسے نہ بتائے جائیں تو شعر مزا نہیں دیتا۔ ذرا سوچئے اگر کوئی شاعر اپنے محبوب کو عین اسی حالت میں بیان کردے جیسے ایک پنجابی محاورے میں ”سوکر اُٹھی بھابھی“ کو بیان کیا جاتا ہے تو کون کم بخت واہ واہ کرے گا؟کسی بھی زبان کا حیران کن ادب Fictionحقائق نہیں تخلیق کارکی ایجاد کردہ دنیا دکھاتا ہے۔ جھوٹ میں لہذا لذت ہے۔میں جھوٹ بولنے کی اس لذت سے لطف اندوز ہونے کی مسرت میں آپ کو بھی شریک کرنا چاہتا ہوں۔ صرف اور صرف سچ کو بیان کرنا ہی نہیں چاہتا۔
جان کی امان پاتے ہوئے عرض البتہ اس قدر کرنا ضروری ہے کہ اسلام آباد پاکستان کا دارالحکومت ہے۔ یہاں اربوں روپے خرچ کرکے ہمارے دوست چین کی مدد سے کیمرے لگاکر اسے Safe City بنادیا گیا ہے۔ اسی ”سیف سٹی“ میں دن دھاڑے نا معلوم افراد بغیر نمبر کی موٹرسا ئیکلوں پر احمد نورانی جیسے معروف صحافی کو ایک مشہور ترین شاہراہ پر گھیر کر ”گِدڑکُٹ“کا نشانہ بنائیں تو Image،وطنِ عزیز کا دنیا کے سامنے خراب ہو جاتا ہے۔
اسی Image کے تحفظ کی خاطر فریاد صرف اتنی ہے کہ ہمارے تمام ادارے باہم مل کر نیک نیتی کے ساتھ ان لوگوں کا سراغ لگائیں جنہوں نے احمد نورانی پر حملہ کیا۔ بغیر ثبوت کسی پر الزام لگانے کی ضرورت نہیں ۔ ایک فلم بنی تھی ”کاسابلانکا“ اس میں ایک ترکیب استعمال ہوئی تھی Usual Suspects۔
احمد نورانی کے قصے میں یقینا Usual Suspects فوراََ ذہن میں آتے ہیں۔ یہ بات سوچ لینے میں لیکن ہرگز کوئی حرج نہیں کہ اس ملک میں ہیجان و انتشار پھیلانے پر بضد چند افراد نے احمد نورانی پر حملہ صرف یہ سوچ کر کیا ہوکہ الزام تو Usual Suspectsپر ہی جائے گا ۔بات اگر واقعتا یوں ہی ہے تو ان عناصر کی نشان دہی لازمی ہے۔
متوقع نشان دہی کے بغیر مجھ ایسے بہت مشکلوں کے بعد کونے میں بیٹھ کر دہی کھانے کو دل وجان سے راضی ہوئے صحافی جھوٹ بولنا بھی چھوڑ دیں گے۔ ”پھبمل بھوسے“ کی گرفت میں آئے محبوب کے دانتوں کو موتیوں جیسے چمکتے اور دل موہ لینے والے دکھانے کے ہنر سے محروم ہوجائیں گے۔ خوف سے اپنے بستروں میں گھسے رہیں گے۔ ہمارے صحافی بستروں میں گھس کر خاموش ہوگئے تو دنیا کیسے تسلیم کرے گی کہ پاکستانی میڈیا بہت ہی آزاد اور بے باک ہے”کچھ تو میرے پندارمحبت کا بھرم رکھ“۔

بشکریہ نوائے وقت

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے